29جون2020ء سوموارکوسوشل میڈیاکے ذریعے کشمیرکے91سالہ بزرگ قائد سیدعلی گیلانی کے دوصفحات پرمشتمل ایک خط اور 47 سکینڈکاایک مختصر آڈیوبیان سامنے آیاجس میں انہوں نے حریت کانفرنس سے اعلان برات کیا ہے۔ اگلے روزسری نگر کے تمام اخبارات نے یہ خبر اپنی شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کی ۔تحریک کے اس نازک موڑ پرسیدعلی گیلانی کے حریت کانفرنس کو خیربادکہہ دینے نے عام کشمیری مسلمان کوورطہ حیرت میں ڈال دیا۔اس مفارقت کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں البتہ تحریکی حلقوں میں اسکی وجہ آزادکشمیرمیں حریت کانفرنس کے نمایندگان کے مابین چپقلش کو سمجھا جا رہا ہے۔ آزادکشمیرمیں حریت کانفرنس کی اہم اکائی اورسید علی گیلانی کی تنظیم تحریک حریت گیلانی صاحب کی طرف سے پہلے جس کی غلام محمدصفی نمایندگی کر رہے تھے دوسال قبل انہیں برطرف کر کے ان کی جگہ عبداللہ گیلانی نامی شخص سید علی گیلانی کے نمایندہ کے طورپر سامنے آیالیکن اسے حریت کانفرنس کی باقی تمام اکائیوں نے دل سے قبول نہیں کیااور اسکی قیادت ماننے سے صاف انکار کیا۔ حریت کانفرنس آزادکشمیرشاخ نے فورم کی قیادت سے اسے سبکدوش کرکے ایک اوراکائی کے نمایندے کوفورم کی ذمہ داری سونپی ۔بس موجودہ اختلاف یہیں سے شروع ہوااوربادی النظر میں حریت کانفرنس اورسیدعلی گیلانی کے مابین اصل اختلاف کی جڑیہی ہے۔ یہ اختلاف سینہ بہ سینہ چلتا رہا تھا لیکن 29 جون 2020ء سوموار کو 91 سالہ بزرگ قائد کے دو صفحات پر مشتمل خط اور 47سکینڈکے انکے مختصر ایک آڈیو بیان کے منظرعام آنے سے یہ سارا معاملہ طشت از بام ہو گیا۔ گیلانی صاحب کی حریت سے علیحدگی پرسری نگرمیں دوآراپائی جارہی ہیں بعض لوگوں کاخیال ہے کہ گیلانی صاحب کا حوصلہ شاید ٹوٹ گیا اسی لئے حریت سے کنارہ کشی اختیار کی ۔ان کاخیال ہے کہ بھارت کوزچ کرنے کے لئے اس وقت جیسے تیسے اس فورم کی بہت ضرورت تھی اور اس وقت بھارت پراپنے صفوں میں پائی جانے والی کمزوریوں کو آشکارنہیں کرناچاہیے تھا۔ کئی دانشوروں کاکہناہے کہ کثیرالجماعتی فورم میں رائے کے تنوع میں بڑے حوصلے سے کام لیناہوتاہے اورٹھوس دلائل دے کردوسروں کوقائل اورمائل کرناقیادت کی کرشمہ سازی ہوتی ہے یہی انصاف کاتقاضاہے اوریہی قیادت کی ہنرمندی کہلاتی ہے۔ اس طبقے کاکہناہے کہ بالفرض مان بھی لیا جائے کہ حریت کانفرنس کے درون خانہ اس قدر خرابی بسیارپائی جارہی ہے توبھی گیلانی صاحب ایسے لیڈرہیںجودشمن کے شرکوسمجھتے ہیں اور وہ اس امر کوخوب جانتے ہیں کہ اس وقت ملت اسلامیہ کشمیر پوری طرح دشمن کے نرغے میں ہے توایسے وقت میں نہایت مدبرانہ اندازمیں فورم کو چلانا ناگزیر امر تھا لیکن اس سب کے باوجود گیلانی صاحب نے ایک ایسا فیصلہ لیا بھارت جسے کشمیری مسلمانوں کی شکست سے تعبیرکررہاہے ۔ اس میں کوئی ابہام نہیںکہ گیلانی صاحب اپنی آخری سانس تک اس کشتی کو منجدھار سے نکالنے کی کوشش کرکے اپنے آپ کو ملت اسلامیہ کشمیر کا وفادار لیڈر ثابت کرکے دکھائیں گے لیکن نازک موقع پر معمولی سی لرزش سے دشمن فائدہ اٹھاسکتاہے۔ اپنے خط میں بزرگ کشمیری رہنمانے کئی طرح کی باتیں لکھیں ہیں بادی النظرمیں ان شکایات کا ازالہ ممکن ہے اوراگرکوئی تحریکی لبادہ اوڑ کر حرص و آزاورحقیرمنفعت کے روگ میں مبتلاہے اسکی رکنیت کومعطل کیاجاسکتاتھااورجہادکونسل اور دیگر اداروں سے اس حوالے سے معاونت حاصل کی جا سکتی تھی لیکن اس کاہرگزیہ حل نہیںکہ بزرگ قائد اپنی آخری عمرمیں اس حریت کانفرنس کو چھوڑ دیں جسے 1993ء میں انہوں نے ہی تشکیل دیا حالانکہ اس وقت تحریک آزادی کشمیر کے کئی بانی رہنمائوں نے پورے دلائل کے ساتھ اس پر گیلانی صاحب کے ساتھ اختلاف کیا تھا اور انکے اس فیصلے پر شدید نکتہ چینی کی۔لیکن کشمیر کے چوپالوں میں ایک رائے یہ بھی پائی جارہی ہے کہ گیلانی صاحب تحریک آزادی کشمیر سے کنارہ کش نہیں ہوئے اوردلیل کے طور پر وہ بزرگ رہنما کے اس تازہ بیان کاحوالہ دیتے ہیں کہ جس میں وہ کہتے ہیں کہ وہ بھارتی استعمار سے تاحیات برسرِ پیکار رہیں گے۔ اس لئے وہ کہتے ہیں کہ سیدعلی گیلانی کایہ اقدام محض سچ کا مجرد بیان نہیں، بلکہ یہ صحیح وقت اور صحیح مقام پر حق گوئی کا نام ہے۔ تحریک آزادی کیساتھ عشق کی حدتک وا رفتہ ہونے والے دردمندوں اور حامیوں کو گیلانی صاحب کی اس علیحدگی پرجوامرستارہاہے وہ یہ ہے کہ اس سے بھارتی میڈیاپرفساد بگھارنے والے اجارہ داروں، تجزیے کے آڑھتیوں اور ٹھیکیداروں کو موقع مل گیاکہ وہ گیلانی صاحب کے حوالے سے یہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں جوجنگ وہ لڑرہے تھے اورحریت کانفرنس کی جس فوج کے وہ کمانڈر انچیف سمجھے جاتے تھے بالآخر وہ ہمت ہارگئے ہیں۔بھارتی میڈیابزرگ قائدکے خلاف افواہ، غلط بیانی، کردار کشی اور دشنام طرازی پراترآیاہے اوروہ 29جون 2020ء سے ملت اسلامیہ کشمیر کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہاہے ۔لیکن اسلامیان کشمیراس امرکوخوب سمجھتے ہیں کہ سیدعلی گیلانی اپنے موقف اورتحریک آزادی کشمیرکے ساتھ اپنی کمٹمنٹ سے دہلی کے دروبام ہلاتے رہے ہیں اوروہ دہلی کے ایوانوںکی دیواروں پر لرزاں ہیولے بن کر بھارتی حکمرانوں کو ڈراتے رہے۔ بھارتی میڈیا کا نقارخانہ پہلے کشمیری مسلمانوں کے باہم وصال پر گریبان چاک کیے سربازار ماتم کناں تھا لیکن نقارہ خانہ سید علی گیلانی کی حریت کانفرنس سے علیحدگی پرخوشی سے جھوم اٹھا ۔بھارتی میڈیادشنام طرازی پراتر آیاہے اورروزاول سے اسلامیان کشمیرپرتنقید کرنے والے اینکر اب طنزیہ انداز میں شورڈالے ہوئے ہیںکہ کشمیرکی تحریک آزادی کے پیادے، رسالے اور فیل بان اپنی مہم جوئی کے دوش سے سبک باری چاہتے ہیںاورآزادی کے حق میں بلند آہنگ تقریریں کرنے والے حالات کودیکھ کراب کونوں، کھدروں میں دبکے جھرجھری لے رہے ہیں۔