60ھ کے وسط میں جب یزید اقتدار پر قابض ہوا تو انصار و مہاجرین صحابۂ کرام علیہم الرضوان کی اکثریت نے یزید کی حکمرانی کو تسلیم کرنے سے انکار کیا جن میں امام عالی مقام سید امام حسین علیہ السلام، حضرت عبداللہ بن زبیر ،حضرت عبداللہ بن عمر ،حضرت عبداللہ بن عباس ،حضرت عبدالرحمان بن ابوبکر ،حضرت اَحْنف بن قیس اور حضرت حجر بن عَدِی رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔ یزید اپنی ذاتی حیثیت اور کردار کی بنا پر بھی مسلمانوں کا حاکم بننے یا اس عہدے کا اہل نہ تھا ۔اس لیے سیدنا امام حسین علیہ السلام نے خاموشی اختیار کرنے کی بجائے جدو جہد کا راستہ اختیار کیا اور عزیمت کی ایک مثال قائم کی ۔یزید نے والی ِ مدینہ ولید بن عتبہ کو خط لکھا کہ سیدنا امام حسین علیہ السلام سے بیعت لے ، جب کہ امام عالی مقام علیہ السلام نے حکمت کے تحت چند دنوں کی مہلت مانگی اور اس کے بعد سیدنا امام حسین علیہ السلام نے اپنے خاندان کے افراد کو آنے والے حالات کا سامنا کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار کیا اور دین کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب و مقدس شہر کو چھوڑنے کا فیصلہ کیااور جس روز صبح روانہ ہونا تھا اس رات سیدنا امام حسین علیہ السلام اپنے نانا جان سرور دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اقدس، اپنی والدۂ محترمہ سیدۂ کائنات، طیبہ و طاہرہ سلا م اللہ علیہا، اپنے برادر مکرم سیدنا امام حسن علیہ السلام ،امہات المومنین اور جنت البقیع مدفون اصحاب عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بارگاہ میں ہدیۂ سلام پیش کرنے میں رات کی گھڑیاں صرف کیں۔بالآخر28رجب المرجب 60ھ کو82افراد پر مشتمل قافلہ سیدنا امام حسین علیہ السلام کی قیادت میں مدینہ منورہ کو خیرباد کہہ کر مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہوا ۔یہ سفر دراصل ان نفوسانِ قدسیہ کے سفرِ کربلا کا نقطۂ آغاز تھا ۔کتب تاریخ واحوال کاتفصیلی مطالعہ کیاجائے تومعلوم ہوگاکہ اس سفرکے وقت آپ کی کیفیت ِ قلبی کاعالم کیاتھا۔ سیدنا امام حسین علیہ السلام نے مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ ہجرت کا فیصلہ کر لیا تھا۔ پھر ایک رات اپنے اہل و عیال اور عزیز و اقارب کو لے کر سامان سفر باندھ لیا۔ مسجد نبوی شریف روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حاضر ہوئے ۔ نوافل ادا کرکے جونہی چہرہ ٔ اقدس کی طرف پہنچے ، دست بستہ سلام عرض کیا۔ بے ساختہ آنکھوں سے اشک جاری ہو گئے ۔ جوار ِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دوری اور مدینہ منورہ سے جدائی کے غم انگیز خیال نے آپ پر رقت طاری کر دی۔ یہاں آپ کا پچپن گزرا تھا، نانا جان کا شہر تھا، آپ اس گلشن کے پھول تھے ۔ مگر اس شہر میں رہنا مشکل ہوگیا تھا۔ اسی شہر میں آپ کی والدہ کا مدفن تھیں۔ آپ کے بھائی اسی شہر میں آرام فرما تھے ، اس وقت امام حسین علیہ السلام کی کیفیت کیا تھی؟ وہ روضہ رسول ﷺپر اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کر رہے تھے ۔ نانا جان کے روبرو اپنا احوال بیان کر رہے تھے ۔ آپ اپنے اہل و عیال کو لے کر مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ ہجرت کر گئے ۔ (شام کربلا، صفحہ 38، بحوالہ ابن کثیر) مدینہ منورہ چھوڑنے پر حضرت امام حسین علیہ السلام کے جذبات و کیفیت کیا تھی؟ آپ کے سیرت نگاروں نے لکھا۔ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حاضر ہوئے اور مزار مقدس سے چمٹ گئے اور عرض کرنے لگے ’’نانا جان وہی حسین ہوں جس کے لئے ہرنی اپنا بچہ لے کر آئی تھی، میں وہی دلبند فاطمہ (سلام اللہ علیہا) ہوں جس کا گہوارہ فرشتے جھلاتے تھے شب بھر روتے رہے اور چمٹ کر حسرت ناک جملے فرماتے رہے پھر دوسری رات حاضر ہوئے ، اسی طرح عرض کرتے رہے ۔ پھر تہجد ادا فرماکر روضہ مقدسہ کے سامنے بیٹھے تھے ، آنکھ لگ گئی، خواب میں دیکھتے ہیں نانا جان فوج ملائکہ کے ساتھ رونق افروز ہوئے سر امام اٹھا کر سینہ سے لگا کر آنکھ چوم رہے ہیں اور فرما رہے ہیں اے لخت جگر عنقریب تم کربلا پہنچنے والے ہو اور وہاں سے بھوکے پیاسے شربت شہادت پی کر ملو گے (اوراق غم، صفحہ231) بقول خطیب پاکستان ’’امام عالی مقام مدینہ منورہ چھوڑتے وقت جب اپنے ناناجان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ انور پر حاضر ہوئے ہوں گے ، سلام عرض کرکے اجازت کی رخصت طلب کی ہو گی، اس وقت آپ کی کیا کیفیت ہوئی ہو گی لبوں پر یہ الفاظ ہوئے ہوں گے ۔ کندھوں پر چڑھا کر کھلانے والے نانا، آغوش رحمت و محبت میں لوریاں سنانے والے نانا، ماتھے رخسار لبوں کو چومنے والے نانا، میرے ناز اٹھانے والے نانا، آج میرا حال دیکھئے ۔ میں غمگین و پریشان ہوں، اشکبار ہوں، اس لئے آپ کا یہ مقدس شہر چھوڑ رہا ہوں۔ وہ شہر جو مجھے سب سے زیادہ عزیز ہے کیا کروں یہاں رہنا دشوار ہو گیا ہے ۔ میں جا رہا ہوں، اجازت دیجئے ۔ ادھر روضہ اقدس میں نازوں سے پالنے والے ناناجان کی کیا حالت ہوگی۔ یہ تصور دلوں کو پاش پاش کر دیتا ہے ۔ یہ دن کیسا دن تھا، سخت رنج و الم کا دن تھا کہ نواسہ نبی، جگر گوشہ علی، نور دیدہ زہرہ، سرور قلب حسن مجتبیٰ علیہ السلام جا رہا ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جا رہا ہے ۔ (شام کربلا، صفحہ41) (سرالشہادتین، صفحہ142)