سیدنا یعقوب علیہ السلام جدالانبیاء جناب ابراہیم علیہ السلام کے پوتے اور جناب اسحاق علیہ السلام کے صاحبزادے اور سیدنا یوسف علیہ السلام کے پدر بزرگوار ہیں۔سیدنا یعقوب علیہ السلام کا دوسرا نام’’اسرائیل‘‘ تھا،اسی نام کی وجہ سے آپ علیہ السلام کی اولاد بنی اسرائیل کہلائی اور آپ علیہ السلام کی اولاد میں بہت زیادہ انبیاء مبعوث ہوئے ۔سیدنا یعقوب علیہ السلام کنعان میں پیدا ہوئے اوراپنے والد گرامی سیدنا اسحاق علیہ السلام کے بعد اس علاقے کی رُشد و ہدایت اللہ تعالیٰ نے آپ کے سپرد کی۔یعقوب علیہ السلام کی عظمت کا عالم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی ولادت کی خوشخبری سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو سیدنا اسحاق علیہ السلام کی ولادت کے وقت عطا فرمائی تھی ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ترجمہ:پھر ہم نے اُنہیں(ابراہیم علیہ السلام کو) اسحاق کی اور اس کے بعد یعقوب کی خوشخبری عطا کی۔‘‘ (سورہ ہود:71) قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جناب یعقوب علیہ السلام کی عظمت کا ذکر ان الفاظ میں کیا،ارشاد فرمایا:’’ترجمہ:اور ہم نے (ابراہیم) کو اسحاق(جیسا بیٹا) اور یعقوب (جیسا پوتا) عطا کیا اور سب کو ہدایت عطا فرمائی۔‘‘ (سورہ انعام:84)جناب یعقوب علیہ السلام جوان ہوئے تو والدہ اور والد کے حکم پر ’’حران‘‘ اپنے ماموں کے پاس رہنے کے لیے چلے گئے ۔ماموں اپنے بھانجے کو دیکھ کر بے حد خوش ہوئے اور سیدنا یعقوب علیہ السلام کی خوب خدمت خاطر کی۔سیدنا یعقوب علیہ السلام نے اپنے ماموں جان کے مال مویشیوں کی دیکھ بھال اپنے ذمہ لے لی اور وہیں رہنا شروع کردیا۔آپ علیہ السلام کے ماموں کی دو صاحبزادیاں تھیں جن دونوں کی شادیاں یکے بعد دیگرے سیدنا یعقوب علیہ السلام کے ساتھ ہوئیں۔یعقوب علیہ السلام کی اولاد میں بارہ بیٹے اور ایک بیٹی تھی اور انہی بارہ بیٹوں کی اولادوں سے آگے بنی اسرائیل کے بارہ قبائل بنے ۔آپ علیہ السلام کے ماموں کی چھوٹی صاحبزادی’’راحیل ‘‘سے آپ کے ہاں دو بیٹے سیدنا یوسف علیہ السلام اور بن یامین پیدا ہوئے ۔تقریباً بیس برس کے عرصہ تک آپ علیہ السلام اپنے ماموں جان کے پاس ٹھہرے رہے ،اس دوران آپ علیہ السلام کے پاس بھیڑ بکریوں کا ایک بڑا ریوڑ جمع ہوگیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم پر اب آپ علیہ السلام نے واپس کنعان جانے کاپروگرام بنا لیا۔ آپ علیہ السلام کے ماموں جان کو جب واپسی کی اطلاع ملی تو وہ کافی افسردہ ہوئے اور یعقوب علیہ السلام کو انہوں نے روکنے کی کوشش بھی کی مگر حکم الہی کے سامنے سرِ تسلیم خم کرناپڑا۔سیدنا یعقوب علیہ السلام ایک بڑے ریوڑ اور اہل وعیال کے ساتھ واپس کنعان تشریف لے آئے ۔ جناب سیدنا یعقوب علیہ السلام نے منت مانی تھی کہ میں اگر واپس آگیا تو اللہ تعالیٰ کا گھر تعمیر کروں گا۔واپس کنعان آنے پر آپ علیہ السلام نے یہ منت پوری کی اور آج جس مقام پر بیت المقدس ہے وہاں اپنے بیٹوں کے ساتھ مل کر اللہ تعالیٰ کا گھر تعمیر کیا۔سیدنا یعقوب علیہ السلام نے بیت المقدس والی جگہ سو بھیڑیں دے کر اس کے مالک سے خریدی تھی قیام کے دوران آپ علیہ السلام کی اہلیہ راحیل کے ہاں بن یامین کی ولادت ہوئی اور ولادت کے بعد راحیل انتقال کر گئیں۔جناب یعقوب علیہ السلام نے ان کو بیت اللحم میں سپردِ خاک کر دیا۔جناب یعقوب علیہ السلام کو حضرت راحیل کے وصال کا گہرا صدمہ ہوا،اور آپ واپس اپنے والدِ گرامی جناب اسحاق علیہ السلام کے پاس آگئے ۔ابھی تھوڑا عرصہ ہی ہوا تھا کہ آپ کے والد جناب اسحاق علیہ السلام بھی داعی اجل ہوگئے ۔ جناب یعقوب علیہ السلام نے اپنے والد گرامی کے وصال کے بعد نبوت کے فرائضِ منصبی سنبھالے اور لوگوں کو حق کی دعوت دینے میں مشغول ہوگئے ۔جناب یعقوب علیہ السلام کی دعوت پر دور دراز سے لوگ آکر لبیک کہنے لگ گئے اورکچھ ہی وقت میں آپ کی شناسائی دور دور تک پھیل گئی۔سیدنا یعقوب علیہ السلام پنے دوچھوٹے صاحبزادوں سیدنا یوسف علیہ السلام اور بن یامین سے بے حد محبت فرماتے تھے اور ان دونوں کو ہمیشہ خود سے جدا نہ کرتے تھے ،جہاں بھی تشریف لے جاتے ان دونوں کو اپنے ساتھ ساتھ رکھتے تھے ۔سیدنا یعقوب علیہ السلام کی اپنے چھوٹے بیٹوں سے اس قدر محبت کو دیکھ کر بڑے بیٹے حسد کرنے لگے اور اپنے چھوٹے بھائیوں کو تکلیف پہچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے ۔سید نا یعقوب علیہ السلام کو اپنے بیٹوں کے حسد کے بارے میں علم تھا اور اس بات کا شدید صدمہ تھا کہ ان دونوں چھوٹے صاحبزادوں کی والدہ راحیل بھی انتقال کر گئیں ہیں اور دوسرا اِن کے بھائی بھی جانی دشمن بن گئے ہیں۔بھائیوں کی سازشیں دن بدن بڑھنے لگیں ،آخرکار انہوں نے پلان بنا کر یوسف علیہ السلام کو کنویں میں پھینک دیا اور ان کی قمیض کو پھاڑا اور خون آلود کر کے یعقوب علیہ السلام کے پاس چلے آئے اور کہنے لگے یوسف کو بھیڑیا کھا گیا ہے ۔سیدنا یعقوب علیہ السلام کو بیٹوں کی حقیقت کا علم تھا مگر رضائے الہی کے لیے خاموش رہے اوربڑھاپے میں چالیس سال تک اپنے بیٹے سیدنا یوسف علیہ السلام کے غم میں روتے رہے ۔صاحبزادے کی طویل جدائی سے سیدنا یعقوب علیہ السلام کو اس قدر شدید غم پہنچا کہ وہ چالیس سال تک اُنہیں یاد کر کے روتے رہے ، یہاں تک کہ روتے روتے آنکھوں کی بینائی چلی گئی۔دوسری طرف جناب یوسف علیہ السلام مشکل ترین ادوار سے گزر کر اللہ تعالیٰ کے حکم سے مصر کے حکمران بن گئے ۔ یوسف علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے اذن سے اپنے بھائیوں کو معاف کردیا،یوں آخر کار چالیس سال بعد اللہ تعالیٰ نے دونوں باپ اور بیٹے کو ملادیا۔جناب یعقوب علیہ السلام تقریباً چوبیس سال تک اپنے بیٹے سیدنا یوسف علیہ السلام کے پاس مصر میں مقیم رہے ۔اب سارے بھائی مل جُل کر ہنسی خوشی رہنے لگ گئے ۔سیدنا یعقوب علیہ السلام کے وصال کا جب وقت قریب آیا تو آپ نے اپنے سب بیٹوں کو جمع کیا اور اُن سے پوچھا’’میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے ؟‘‘ سب نے یک زبان ہو کر جواب دیا’’اے ابا جان! ہم سب اُس رب کی عبادت کریں گے جو آپ کا اور آپ کے آبائواجداد ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کا معبود ہے ۔‘‘ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس وصیت کو بطور استحسان و تعریف یوں بیان فرمایا،ارشادِ باری تعالیٰ ہے :’’ترجمہ:بھلا جس وقت یعقوب وفات پانے لگے ، تو تم اُس وقت موجود تھے ۔ جب اُنہوں نے اپنے بیٹوں سے پوچھا کہ’’میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے ؟‘‘ تو اُنہوں نے کہا کہ’’آپ کے معبود اور آپ کے باپ،دادا ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی عبادت کریں گے ۔ جو معبودِ یکتا ہے اور ہم اس کے فرماں بردار رہیں گے ۔‘‘ (سورۃ البقرہ:133) اس سے ماقبل آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’ترجمہ:اور اس بات کی ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی اور یعقوب نے بھی (اپنے بیٹوں کو) کہ اے میرے بیٹو! اللہ نے یہی دین تمہارے لیے منتخب فرمایا ہے ، لہٰذا، تمہیں موت آئے ، تو اسی حالت میں آئے کہ تم مسلمان ہو۔‘‘ سیدنا یعقوب علیہ السلام نے چوبیس سال مصر میں گزارنے کے بعد 147 سال کی عمر میں وصال فرمایا اور آپ علیہ السلام کی وصیت کے مطابق آپ کو فلسطین میں اپنے والد جناب اسحاق علیہ السلام کے پہلومیں دفن کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین