سیدہ سکینہ سلام اللہ علیہا پید ا ہوئیں تو ان کا نام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ سیدہ آمنہ سلام اللہ علیہا کے نام پر ’’آمنہ‘‘ رکھا گیا۔آپ کی والدہ سیدہ رباب بنت امرء القیس بن عدی بن اوس بن جابرآپ کو سکینہ کہہ کر مخاطب کر تیں تھی اورتاریخ کی کتابوں میں بھی آپ اسی نام سے مشہور ہوئیں۔باپ کو اپنے بیٹوں سے بھی پیار ہوتاہے مگر بیٹیوں سے ایک خاص محبت کا تعلق ہوتا ہے ،باپ سر پر نہ ہو تو اس کی کمی کو صحیح معنوں میں بیٹیاں ہی محسوس کرتیں ہیں۔باپ اپنی بیٹیوں کو تحفظ دینے کے ساتھ ساتھ ان میں خود اعتمادی بھی پیدا کرتا ہے ۔ سیدہ سکینہ سلام اللہ علیہا اپنے والد گرامی امام عالی مقام امام حسین علیہ السلام سے بے پناہ محبت کرتیں تھیں۔ کربلا میں ظلم و ستم کی انتہاء ہوئی مگر آپ سلام اللہ علیہا نے بڑے صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا۔امام عالی مقام علیہ السلام کو بھی سیدہ سکینہ سلام اللہ علیہا اور آپ کی والدہ سیدہ رباب سلام اللہ علیہا سے بڑی محبت تھی۔آپ علیہ السلام نے فرمایا:مجھے قسم ہے ! بے شک میں اس گھر سے بے پناہ محبت کرتا ہوں جس میں سکینہ اور رباب رہتیں ہیں۔میں ان دونوں سے بہت محبت کرتا ہوں اور ان پر اپنا مال خرچ کرنے میں بہت سخی ہوں۔میں حالتِ غصہ میں بھی ان پر غصہ نہیں کر سکتا اور اپنی موجودگی میں یا غائب ہوجانے کے بعد بھی کسی کو ان پر غصہ کرتے نہیں دیکھ سکتا۔امام عالی مقام علیہ السلام ۱۰ محرم الحرام کو جب میدان جنگ میں روانگی سے قبل پردہ نشین سید زادیوں سے خطاب فرما رہے تھے اور انہیں وصیتیں فرما رہے تھے تو سب رو رہیں تھیں ،امام عالی مقام علیہ السلام نے دیکھا کہ سیدہ سکینہ سلام اللہ علیہا غمزدہ ہیں اور غم و اندوہ کی وجہ سے بالکل مرجھا گئی ہیں۔ سیدہ سکینہ سلام اللہ علیہا بڑی حسرت سے اپنے بابا جان کو دیکھ رہی تھیں،ان کی حالت یہ تھیں کہ پیاس کی وجہ سے حلق،زبان اور لب اس قدر خشک ہو گئے تھے کہ بڑی مشکل سے بولتی تھیں۔امام عالی مقام علیہ السلام نے اپنی لختِ جگر سے پوچھا بیٹا کیسی طبیعت ہے ؟ سیدہ سکینہ سلام اللہ علیہا نے بڑی مشکل سے کہا ’’پیاس‘‘ امام عالی مقام علیہ السلام نے تسلی امیز لہجے میں فرمایا: بیٹی میں آپ کے لئے پانی لے کر آتا ہوں۔ یہ کہہ کر امام عالی مقام علیہ السلام خیمہ سے باہر آئے اور دریائے فرات کی طرف چل پڑے ،کوفیوں نے آپ پر تیروں کی برسات کر دی اور امام عالی مقام علیہ السلام کو پانی تک نہ پہنچنے دیا۔امام حسین علیہ السلام خیمہ میں تشریف لائے اور فرمانے لگے : میری بیٹی سکینہ صبر کرو جب تک اللہ تعالیٰ نہ چاہے ہمیں پانی نہیں مل سکتا،صابرہ و شاکرہ بیٹی نے جواب دیا: ابا جان بس اب جب تک اللہ تعالیٰ نہیں چاہے گا میں پانی نہیں پیوں گی۔امام عالی مقام علیہ السلام نے سیدہ سکینہ کو سینے سے لگایا ،پیار کیا اور پھر ذوالجناح پر سوار ہو کرمیدان کی طرف چل پڑے ۔ (تاریخ کامل،ج۴،ص۷۷) تاریخِ طبری میں ہے کہ سیدنا عباس علمبردار علیہ السلام کو بھی زیادہ فکر سیدہ سکینہ کی پیاس کا تھا۔آپ علیہ السلام کو بھی اپنی محبوب بھتیجی سے بے حد پیار تھا۔آپ نے دیکھا کہ سیدہ سکینہ سلام اللہ علیہا تشریف لائیں آپ سے پانی نہ ملنے کی وجہ سے بولا نہیں جا رہا تھا۔حضرت عباس علمبردار علیہ السلام نے فرمایا: بیٹی سکینہ کیا حال ہے ؟آپ نے جواب دیا،چچا جان پانی،حضرت عباس علیہ السلام نے آپ کے سر پر ہاتھ پھیرکر کہا کہ میں اپنی بیٹی کے لئے پانی لاؤں گا ۔حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے مشک ہاتھ میں لی اور گھوڑے پر سوار ہوکر سیدہ سکینہ کے لئے پانی لینے فرات کی طرف چل پڑے مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔سیدنا عباس علمبردار علیہ السلام پانی لے کر نکلے مگردشمن کو یہ گوارا نہ ہوا، ظالموں نے آپ کے بازو شہید کر دئیے اور آپ علیہ السلام کے جسم مبارک پر تیروں کی برسات کردی،ایک تیر مشک کو لگا جس سے سارا پانی بہہ گیا۔سیدنا عباس علمبرار علیہ السلام کو بار بار سیدہ سکینہ سلام اللہ علیہا کی پیاس کا خیال آ رہا تھا اور بے چینی ہو رہی تھی کہ میں اپنی بھتیجی کی پیاس نہ بجھا سکا۔واقعہ کربلا کے بعد اسیری سے لے کر دربارِ یزید اور پھر آخری دم تک سیدہ سکینہ سلام اللہ علیہا اپنے بھائی امام زین العابدین علیہ السلام اور پھوپھی سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کی طرح عمر بھر مسکرائی نہیں۔سیدہ کی شان یہ ہے کہ امام عالی مقام علیہ السلام نے خود ان کے بارے میں ارشاد فرمایا:میری بیٹی سکینہ اللہ تعالیٰ کی یاد میں مستغرق رہنے والی ہیں امت کو چاہیے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل سے لازماً محبت کریں۔کیونکہ جامع ترمذی میں وارد ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں اپنے بعد تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑکر جا رہا ہوں ان کو لازم پکڑو،پہلی کتاب اللہ اور دوسری میری اہل بیت۔لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل بیت اطہار کے بارے میں جو منفی پروپیگنڈا کیا گیا ہے اس کو کبھی سچ نہ سمجھیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اہلِ بیت اطہار سے سچی محبت و عقیدت استوار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور قیامت کے دن ان کے غلاموں میں جگہ عطا فرمائے ۔آمین حافظ محسن ضیاء قاضی