تعارف: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب سے پیاری دخترجناب سیدہ کائنات خاتون جنت سلام اللہ علیہا کی ولادت مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ آپ سلام اللہ علیہا کے مشہور القاب بتول،سیدۃ النساء العٰلمین ،زہرا ،طاہرہ،طیبہ اور مشہور کنیت ام الحسنین ہے ۔ سیدہ سلام اللہ علیہا کی تربیت و پرورش نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورام المؤمنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ سلام اللہ علیہا نے فرمائی اور جب ام المؤمنین سلام اللہ علیہاکا وصال ہوا تو آپ سلام اللہ علیہا کی پرورش سیدہ فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا (زوجہ جناب ابو طالب علیہ السلام)نے کی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی محبوب ترین ہستی ہیں جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبوب ترین ہستی سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی خوشنودی رضا اور ناراضگی کو اپنی پیاری بیٹی کی خوشنودی رضا اور ناراضگی سے مشروط کردیا۔آپ سلام اللہ علیہا چال ڈھا ل میں بالکل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشابہ تھیں۔ سنن الترمذی میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے اٹھنے بیٹھنے اور عبادات و اطوار میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے زیادہ کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہ نہیں دیکھا۔ جناب سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا نے اسلام کے اوائل دورمیں بہت مشکلات کا سامنا کیا۔ام المؤمنین سیدہ خدیجۃالکبریٰ سلام اللہ علیہا کے وصال کے بعد ابولہب کی بیوی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادیوں کو بہت ستایا۔ جناب سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا نے شعب ابی طالب کی گھاٹی میں بھی گھر کی دیگر ہستیوں کے ساتھ معاشی استحصال برداشت کیا۔سیدہ سلام اللہ علیہا بچپن سے ہی خاموش طبع، نہایت ذہین ، فطین اور تنہائی پسند طبیعت کی مالک تھیں اور علم و عمل اور حسب و نسب کے اعتبار سے اپنے زمانے کی دیگر خواتین سے منفرد تھیں۔سیدۃ النساء العالمین کو اللہ تعالیٰ نے تمام عیوب سے منزہ و مبرا رکھا تھا۔تمام مسلمانوں کے نزدیک آپ ایک برگزیدہ ہستی ہیں۔ فضائلِ سیدۃالنسا ء العالمین: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا سے اس درجہ پیار اور محبت فرماتے تھے کہ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر پر تشریف لے جاتے سب سے آخر پر سیدہ سے ملاقات فرماتے اور جب سفر سے واپس تشریف لاتے توبھی سب سے پہلے آپ سے ملاقات فرماتے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے بارے میں ارشاد فرمایا:فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے جس نے اس کو غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا ۔پھر فرمایا: ’’بے شک اے فاطمہ!تمہاری ناراضگی پر اللہ تعالی ناراض ہوتا ہے اور تمہار ی رضا پر راضی ہوتا ہے (بخاری و مسلم) سنن الترمذی میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: فاطمہ جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہے اور حسن و حسین جنت کے تمام جوانوں کے سردار ہیں۔‘‘ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شان میں لکھتے ہیں: مریم از یک نسبت عیسیٰ عزیز از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز حضرت مریم تو حضرت عیسیٰ سے نسبت کی بنا پر عزیز ہیں جبکہ حضرت فاطمہ الزہرا ایسی تین نسبتوں سے عزیز ہیں۔ نور چشم رحم للعالمین آں امام اولین و آخرین پہلی نسبت یہ کہ آپ رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نورِنظر ہیں، جو اولین و آخرین کے امام ہیں۔ بانوی آں تاجدار ہل اتے مرتضیٰ مشکل کشا شیر خدا دوسری نسبت یہ کہ آپ ہل اتی کے تاجدار کی زوجہ محترمہ ہیں۔ جو اللہ کے شیر ہیں اور مشکلیں آسان کر دیتے ہیں۔ مادر آن مرکز پرکار عشق مادر آں کاروان سالار عشق تیسری نسبت یہ کہ آپ ان کی ماں ہیں جن میں سے ایک عشقِ حق کی پرکار کے مرکز ی نقطہ بنے اور دوسرے عشقِ حق کے قافلے کے سالار بنے ۔ مزرع تسلیم را حاصل بتول مادران را اسوہ کامل بتول حضرت فاطمہ تسلیم و رضا کے چمنستان کا حاصل تھیں اور آپ مسلمان ماں کے لئے اسوہ کامل بن گئیں۔ شادی: سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شادی یکم ذی الحجہ کو سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے ہوئی ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالی نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں فاطمہ کا نکاح علی سے کروں۔ ‘‘(طبرانی)سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے شادی کے اخراجات کے لئے اپنی زرہ۵۰۰ درھم میں سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ بیچ دی اور بعد ازاں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے وہی زرہ ولیمہ کے دن تحفۃًانہیں لوٹادی۔ یہ رقم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے کر دی جو حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا مہر قرار پایا۔ جہیزو رخصتی: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہیز میں سیدہ کائنات سلام اللہ علیہاکو ایک قمیص،ایک خمار یعنی سر ڈھانکنے کے لیے کپڑا، ایک سیاہ کمبل، کھجور کے پتوں سے بنا ہوا ایک بستر، موٹے ٹاٹ کے دو فرش، چار چھوٹے تکیے ، ہاتھ کی چکی، کپڑے دھونے کیلئے تانبے کا ایک برتن، چمڑے کی مشک، پانی پینے کے لئے لکڑی کا ایک برتن(بادیہ)، دو مٹی کے آبخورے ، مٹی کی صراحی، زمین پر بچھانے کا ایک چمڑا، ایک سفید چادر اور ایک لوٹا شامل تھا جو عطا کیا۔ یہ جہیز اسی رقم سے خریدا گیا تھا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی زرہ بیچ کر حاصل کی تھی۔شہزادی کائنات سلام اللہ علیہا کی رخصتی کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی منگوایا اس پر دعائیں دم کیں اورسیدنا علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ سلام اللہ علیہا کے سر بازوؤں اور سینے پر چھڑک کر دعا کی کہ اے اللہ! انہیں اور ان کی اولاد کو شیطان الرجیم سے تیری پناہ میں دیتا ہوں۔ شادی کے بعد آپ کی زندگی طبقہ نسواں کے لئے ایک مثال ہے ۔آپ سلام اللہ علیہا خواتین کی اصلاح کے بارے میں فرمایا کرتیں: عورت کے لئے خیر و صلاح اس میں ہے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ عفیف ہو اور اپنے بچوں کی مربیہ ہو اور اپنے گھر کو ایستادہ کرنے والی ہو۔ آپ گھر کا تمام کام خود کرتی تھیں مگر کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہیں آیا۔ ۷ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک خادمہ حضرت فضہ رضی اللہ عنہا عنایت کی ۔ سیدہ اپنی خادمہ کے ساتھ بھی انتہائی مشفقانہ رویہ سے پیش آتی تھیں۔آپ کے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہا سے بھی مثالی تعلقات تھے ۔ کبھی ان سے کسی چیز کا تقاضا نہیں کیا۔ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا فرمایا کرتیں تھیں : اے علی مجھے خدا سے خجالت آتی ہے کہ آپ سے ایسی چیز کی فرمائش کروں جو آپ کی قدرت سے باہر ہے ۔ اولاد: سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہاکے دو بیٹے سیدنا امام حسن بن علی علیہما السلام اور سیدناامام حسین بن علی علیہما السلام اور بیٹیاں زینب بنت علی رضی اللہ تعالی عنہا و ام کلثوم بنت علی رضی اللہ تعالی عنہا تھیں۔ ان کے دونوں بیٹوں کو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا بیٹا کہتے تھے اور بہت پیار کرتے تھے ۔ وفات: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ایک عظیم سانحہ تھا جو سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کے لئے کوہ حزن ثابت ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے کچھ ماہ بعد ۳جمادی الثانی یا ۳ رمضان المبارک۱۱ھ کو آپ سلام اللہ علیہا کی وفات ہوئی۔ آپ جنت البقیع میں مدفون ہیں ۔