میدان کربلا میں جہاں مردوں میں بچوں ، جوانوں اور بوڑھوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دیتے ہوئے عظیم قربانیاں دیں وہیں خواتین میں میں بھی کم عمر ، نوجوان اور یہاں تک کہ بزرگ عمررسیدہ خواتین نے بھی اِس حق وباطل کے معرکے میں ایسے ایسے کارنامے سراَنجام دئیے جو رہتی دنیا تک فراموش نہیں کئے جاسکتے اور اُن مقدس خواتین میں سب سے نمایاں کردار ’’ سیدہ زینب بنت علی سلام اللہ علیہما ‘‘ کا ہے جنہوں نے صبر واستقامت کی ایسی مثال قائم کی جو قیامت تک آنے والی عورتوں کے لیے عظیم نمونہ ہے ۔آپ کو خواتین میں ایک بڑا ممتاز مقام حاصل ہے ۔ ایک ایسی جلیل القدر خاتون ہیں جس کی فضل وشرف کے اعتبار سے جڑیں مضبوط ہیں اور جو دوسخا، علم وفضل، خاندانی وجاہت ونجابت اور دینداری کے آسمان میں اس کی شاخیں پھیلی ہوئی ہیں۔ آپ نے ایک ایسے گھر میں پرورش پائی جو اعلی انسانی صفات کا سرچشمہ تھا۔ اس ماحول میں اسے شفقت، وفاداری، شرافت، عزت اور ضیاء جیسی خوبیاں میسر آئیں، والدین کی طرف سے آپ سلام اللہ علیہا نجیب الطرفین تھیں‘آپ کے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سید الاولین والآخرین اور ساری مخلوق سے افضل ،نانی سیدہ خدیجۃ الکبریٰ، والد محترم سیدنا علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم ،والدہ سیدہ خاتونِ جنت سلام اللہ علیہا، بھائی نوجوانان جنت کے سردارہیں۔ آپ کی ولادت کے حوالے سے ایک قول یکم شعبان المعظم 6ھ کا بھی ملتا ہے ۔ مدینہ منورہ میں اس ولادت کی خبر مشہور ہوئی کہ سیدہ فاطمہ الزہراسلام اللہ علیہاکے کاشانۂ مطہرہ میں ایک شہزادی نے آنکھ کھولی ہے توایک خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا نام اپنی بڑی بیٹی کے نام پر ازراہ محبت’ زینب ‘رکھا۔ اس مقدس گھرانے میں جو اولاد پیدا ہوئی اس نے تقویٰ وطہارت کے اعتبار سے دنیا میں شہرت حاصل کی‘ پاکیزہ خانہ نبوی نے اس نومولود کا انتہائی مسرت وشادمانی سے استقبال کیا جس کی آمد سے گھر کا آنگن مہک اٹھا تھا۔ آپ اُس شریف گھرانے کی چشم وچراغ تھی جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرما دیا تھا؛ ’’اے اہل بیت! اللہ تم سے آلودگی دور کر دینا چاہتا ہے اور تمہیں اچھی طرح پاک کر دینا چاہتا ہے ‘‘۔ سیدہ فاطمہ الزاہراسلام اللہ علیہا کے ہاں جب زینب سلام اللہ علیہانے جنم لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل کو وہ بھی اسی طرح لاڈلی اور پیاری لگی جس طرح کہ ان کی والدہ ماجدہ تھیں۔ ایسا بھلا کیوں نہ ہوتا آپ تو رحمت، شفقت اور امید کی کان تھے ۔ زینب کو خانہ نبوی میں بڑا اہم مقام ومرتبہ حاصل ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بچی پر خصوصی توجہ دیا کرتے تھے ۔ آپ ایمان اور تقویٰ کی خوشبودار فضا میں دین اور تقویٰ کے مہکتے ہوئے ماحول میں عمدہ انداز میں پروان چڑھیں، زندگی کا نور دیکھا اور اپنے نانا کے چہرے پر چمکتے ہوئے نور کا مشاہدہ کیا اور اپنی ماں کا چہرہ دیکھا جو دنیا بھر کی خواتین میں درجہ کمال پر فائز تھی اور اپنی والدۂ محترمہ میں انسانی اخلاقیات اور تمام تر فضائل کی جھلک دیکھی کہ وہ صبر، دین، نیکی، عفت وقناعت اور شکر کا پیکر تھی۔ آپ حدیث نبویہ علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ والسلام کی راویہ ،محتاط رویہ اختیار کرنے والی دانشور ،فصیح وبلیغ خطیبہ ،عظیم المرتبت خاتون جس نے فاسق حکمران یزیدسے جرأت مندانہ اَنداز میں گفتگو فرمائی ۔معرکہ کربلا میں اپنے برادرِ مکرم امام عالی مقام سیدنا امام حسین علیہ السلام کے ساتھ تھیں اور آپ کی اولادِ امجاد نے جان کے نذارنے پیش کئے ۔شجاعت وبہادری کے ساتھ ساتھ آپ علم وفضل میں بھی کمال درجہ رکھتی تھیں یہاں تک کہ لوگ شریعت کے تمام مسائل کے لیے حل کے لیے آپ کی طرف رجوع کرتے تھے ،آپ اپنے والد ِ گرامی اور والدہ ماجدہ کے مرویات کو نقل فرماتیں ،آپ کا کاشانہ خواتین کے لیے عظیم درس گاہ تھا ، خواتین آپ سے تفسیر قرآن کا درس حاصل کرتی تھیں ،کوفہ ، بازار ِ شام اور دربارِ یزید میں آیات قرآنی پر اُستوار عالمانہ کلام اورجرأت مندانہ خطبات آپ کی فصاحت وبلاغت اور علمی کمالات پر مکمل عبور حاصل ہونے کی واضح مثال ہیں ۔منقول ہے کہ آپ کا اندازِ بیان ایسا ہوتا کہ خواتین کا دِل موہ لیتا اور شیر خدا مولائے کائنات کے خطبات کی یاد تازہ کروادیتا تھا ۔جب اسیران نبوت کو دربارِ یزید میں لایا گیا ۔جب مخدراتِ عصمت و طہارت اس حال میں یزید کے سامنے آئیں تو سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کی نظر جب سیدنا امام حسین علیہ السلام کے چہرہ انور پر پڑی تو فرمایا ’’ یا حسیناہ یا ابن فاطمۃ الزہرا سیدہ النساء بنت المصطفیٰ‘‘یہ کلمات سن کر کئی لوگ دربار یزید میں رو پڑے اور یزید خاموش بیٹھا رہا ۔پھر سیدہ زینب سلام اللہ علیہانے یزید کے دربار میں ایسا خطبہ ارشاد فرمایا ‘معلوم ہوتا تھا کہ جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ہے ۔تمام یزیدی خاموش بیٹھے رہے اور کسی کو بات کرنے کی جرأت نہ ہوسکی سیدہ سلام اللہ علیہانے حق و صداقت اور حق گوئی کا حق ادا کرکے اسلام کی ناقابل فراموش خدمت سرانجام دی جس کی نظیر نہیں مل سکتی ۔ شیرخداکرم اللہ وجہہ الکریم کی شہزادی نے ماضی و حال اور مستقبل کے وہ نقشے کھینچ کر رکھ دئیے کہ یزیدی ایوان ِ حکومت کے درود یوار ہلا کر رکھ دیا۔زُہد وتقویٰ ،عفت وطہارت اور ذوق عبادت تو آپ سلام اللہ علیہا نے ورثہ میں پایا تھا ،کربلا کے خوف ناک مظالم کے ماحول میں بھی اپنی کوئی نماز کو نہ صرف ترک ہونے سے بچایا بلکہ اپنے معمول کی نمازِ شب کو بھی جاری رکھا یہاں تک کہ حالت ِ اسیری میں جب آپ کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور آپ اونٹ پر سوار تھیں اُس وقت بھی نماز قضا نہ ہوئی ،شب بیداری ، روزوں کا تسلسل ،اللہ کی بارگاہ میں مناجات ودعا آپ کا معمول تھا ،آپ واقعہ کربلا کے ایک سال تک حیات رہیں ، بلاشبہ آپ کا کردارقیامت تک آنے والی تمام عورتوں کے لیے مشعل راہ ہے ۔اللہ تعالیٰ خواتین اسلام کو آپ کی سیرت وکردار کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے ۔