سیلاب پر سیاست کی جائے یا سیاست سیلاب بن کر ہمارے گھروں کی دہلیز کے اندر گھس آئے۔نتائج دونوں کے یکساں ہوتے ہیں۔پریشانی‘ مایوسی اور نقصان‘ پچھتر برسوں کے قومی سفر کا تخمینہ لگایا جائے تو حاصل جمع یہی ہیں۔سیاست نے ہمیں خراب کیا اور ہم نے سیاست کو۔پہلے کوئی آفت آتی تھی تو ہم سیاسی اختلافات بھلا کے آفت کا مقابلہ اجتماعی اتحاد سے کرتے تھے۔ملک بھی اسی طرح وجود میں آیا تھا لیکن اب سیاسی اختلافات کی خلیج اتنی بڑھ گئی ہے کہ ہم آفت کے آنے پر بھی متحد نہیں ہوتے۔ہم کیا ہیں؟ آفت کے پر کالے ہیں مصیبت میں اکٹھا نہ ہونا ایک اور مصیبت ہے بلکہ مصیبتوں سے بڑھ کر مصیبت۔جنگل میں آگ لگی ہو تو سارے جانور یکجا ہو جاتے ہیں۔کیا ہم میں یہ خوبی بھی نہ رہی؟ کیا ہمارا حال اس سے بھی ابتر ہے؟ اب ہماری تقدیروں میں نفرت کا زہر بھر گیا ہے۔ہم اپنے مخالف سیاست داں کو کن القابات سے پکارتے ہیں۔یہ زہر کہیں اور نہیں ہمارے اندر ہی ہے اور جب اندر محبت کے بجائے نفرت کا زہر بھرا ہو تو ملک پر خدا کی رحمت کیسے اتر سکتی ہے؟ پھر تو خدا کی زمین نفرت سے زہر آلود ہی نظر آئے گی اور قوم اس شجر نفرت سے کانٹے ہی چنے گی۔لہولہان ہو گی۔پریشان حال رہے گی۔اگر ہمارے حکمران چور‘ ڈاکو‘ غدار اور ملک دشمن ہیں اور ہمارے سیاستدان دھوکے باز‘ مطلبی ‘ دوغلے اور فراڈیے ہیں تو پھر باقی کیا بچتا ہے؟ ہم سمجھتے تھے کہ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بدعنوانی اور کرپشن ہے لیکن اب ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ احترام آدمیت کا فقدان ہی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ہم ایک دوسرے کی عزت نہیں کرتے‘ ہم ایک دوسرے کے وقار کو روند کر خود کو محسن انسانیت ثابت کرنا چاہتے ہیں۔دوسروں کے کردار کو داغدار کر کے ہم خود کو درویش‘ صاحب کردار اور متقی و پارسا کہلانا چاہتے ہیں۔بدعنوان ہماری صفوں میں ہوں تو وہ قابل قبول ہیں اور وہ مخالف ہوں تو لائق گردن زدنی۔یہاں کا انصاف اور کیسی اصول پسندی ہے۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ حکمران نالائق ہیں اور ان کے دامن پر سینکڑوں داغ ہیں لیکن یہ تو بتائیے کہ لائق اور دردمند دل رکھنے والے حکمران اقتدار پر کب آئے ہیں؟ ایسے حکمران جس کو عوام سے محبت ہو اور عوام کو جن حکمرانوں سے پیار ہو۔ہماری تو آنکھیں ترس گئی ہیں ایسے حکمران کے انتظار میں۔دعوے تو بہت ہیں مگر دعوے کا ثبوت؟ نہیں کچھ نہیں ہے۔بڑا پن کے سوا‘ اونچی اونچی باتوں اور دعوئوں کے سوا۔عوام نے انہیں بھی بھگت لیا جو شرابی تھے اور انہیں بھی دیکھ لیا جو نمازی تھے عوام کے درد کا درماں دونوں سے نہ ہو سکا۔ مذہب کو چورن کی پڑیا کی طرح بازار سیاست میں بیچا جاتا ہے اور ہم اتنے سادہ دل ہیں کہ اسی کو اپنے دکھوں اور اذیتوں کا علاج سمجھتے ہیں۔ بے شک دین و مذہب ہی میں ہمارا علاج پوشیدہ ہے لیکن سیاست دانوں کا دین یا وہ دین جس کا چرچا علمائے حق کرتے ہیں اگر ہم زبانی کلامی دعوئوں کو کردار اور اعمال کی کسوٹی پر کس کر پرکھنا سیکھ لیں تو کبھی دھوکہ نہ کھائیں۔لیکن ہم سادہ دل لوگ کہنے کا یقین کر لیتے ہیں اور کہنے کو بھول جاتے ہیں یا نظر انداز کر دیتے ہیں۔ سیلاب کی تباہ کاریاں ‘انسانی المیے کے بے شمار مناظر اور انسان دوست رویوں کا ایثار و قربانی کے شواہد‘ یہ سب مل جل کر یہی تاثر دیتے ہیں کہ قوم میں اتنی خرابی نہیں جتنی خرابیاں ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں میں ہیں۔قیادت کا فقدان صاحبان اختیار و اقتدار میں انسان دوستی اور دردمندی کا قحط‘ ان میں خود غرضی‘ جاہ طلبی‘ حرص و ہوّس اور سخت دلی و سنگدلی اور بدنصیبی ہو کہ اسی کا علاج ہمارے پاس نہیں ہے۔ ایک ویڈیو میں دکھایا گیا کہ ایک وڈیرہ اپنی قیمتی گاڑی میں امدادی سامان لے کے بھاگا جا رہا ہے مسکینوں اور ضرورت مندوں نے شور مچایا تو پولیس نے اسے پکڑ کر گاڑی سے سامان اتروا لیا وڈیرے کو سزا دینے کی ہمت کب تھی؟ ایک اور ویڈیو میں دیکھا گندگی کے ڈھیر سے باسی روٹیاں چننے والا غریب و مفلوک الحال بچہ کندھے پر تھیلا لٹکائے چندے کے ڈبے میں نوٹ ڈال رہا ہے۔اپنی تھوڑی بہت کمائی میں سے جتنی رقم بھی اس نے ڈالی وہ کروڑوں اور اربوں کی امداد کا اعلان کرنے والوں سے کہیں زیادہ قیمتی اور لائق تحسین و تکریم ہے۔تو یہ حال اور اتنا بڑا فرق ہے ہمارے تو نگروںاور مسکینوں میں۔تونگر لٹیرے ہیں اور مسکین درد مند دل کے مالک۔تو کیا خدا ان مسکینوں پر رحم نہ کرے گا؟ہاں یہ ملک اگر اپنی تباہ حال معیشت‘اخلاق باختہ سیاست اور آپسی تنازعات کے باوجود اگر زندہ سلامت ہے تو ایسے ہی تہی داماں مسکینوں کی وجہ سے ہے جو اس ملک سے کسی بڑے سے بڑے دعویدار محبت سے زیادہ محبت کرتے ہیں ان کا سب کچھ یہی ملک ہے‘ اسی کی گلیاں اور وادیاں ہیں۔تونگووں کے بچائو کے دس راستے ہیں۔ غریبوں اور مسکینوں‘ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے لئے اس ملک کے سوا کیا ہے ان کا جینا مرنا اسی ملک میں ہے اور اسی لئے وہ اس پر اپنی جان نچھاور کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔جو حکمراں رہے ہیں وہ اور ان کی اولادوں کے لئے یورپ کی پناہ گاہ اور وہاں کا عیش لکھا ہے۔ہم برباد ہوں تو کہاں جائیں؟ اس لئے ہم اپنے ملک کو برباد ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔زلزلہ آئے‘سیلاب آئے پریشان حال مہنگائی کے ہاتھوں پسنے والے عوام باہر نکل آتے ہیں اور مصیبت زدوں کی امداد سچے اور کھرے دل کے ساتھ کرتے ہیں۔ اب ضرورت ہے ایسی قیادت کی جو صاف دل‘ صاف نیت ہو‘ جس کے معاملات اور جس کا دامن صاف ہو۔جس میں درد مندی ہو انسان دوستی ہو جس میں تقویٰ اور پارسائی کا دعویٰ نہ ہو۔جس میں محبت اور انکسار ہو وہ شائستہ اور تہذیب یافتہ ہو۔جس کا اندر بھی اور جس کی زبان بھی پاکیزہ ہو۔ جو دشنام طرازی کی زبان بھی پاکیزہ ہو۔ جو دشنام طرازی اور الزام تراشی سے بلند ہو۔جو اپنے ہی کارناموں کے سحر میں مبتلا نہ ہو ‘ جو خود کو بلند اور دوسروں کو پست نہ سمجھے۔جو انسان اور اس کی کمزوریوں کا احترام کرے جو معاف کر دینا اور معافی مانگنے کو اپنے لئے عار تصور نہ کرے۔جس دن ایسی قیادت سامنے آ جائے گی اس قوم کے سارے دلدّر دور ہو جائیں گے۔ ہمیں اپنے درمیان ایسی ہی قیادت کو ڈھونڈنا چاہیے۔ قیادت آسمان سے نہیں اترتی۔معاشرے کے اندر ہی موجود ہوتی ہے۔تلاش کرنے والی نگاہ ہونی چاہیے۔شخصیت پرستی کا جادو جب تک سر چڑھ کر بولتا رہے گا۔ ہم ایسی قیادت کو نہیں پہچان سکیں گے۔حسن باطنی کو دیکھنا ہی دانش مندی ہے۔لباس کی تراش میں نگاہوں کا کھو جانا حماقت نہیں تو اور کیا ہے۔؟