فطرت کے بارے میں بھرپور فہم رکھنے کے باوجود انسان اس کے ساتھ رہنے میں ناکام رہے ہیں۔ محض اس لیے کہ وہ اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور ایسے تمام اعمال سے آفت کا خدشہ بڑھ جاتا ہے، جو غور طلب معاملہ ہے۔مثلاً اگر زلزلہ کسی ایسے پہاڑی علاقے میں آئے جو آباد نہ ہو اور جس میں کوئی انفراسٹرکچر نہ ہو یا سیلاب کا پانی کسی صحرا میں داخل ہو جائے اور جہاں کوئی آباد نہ ہو تو کسی قسم کا نقصان نہیں ہوگا۔ 1997 کے سیلاب کے بعد، پتن تنظیم نے سرگودھا اور مظفر گڑھ میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ لینے کے لیے ایک سروے کیا تھا، جس میں حیرت انگیز طور پر سیلاب اور نقصانات کی سطح کے درمیان ایک الٹ رشتہ سامنے آیا۔ سرگودھا جہاں سیلاب کی سطح مظفر گڑھ سے بہت کم تھی، وہاں تین گنا زیادہ نقصانات ہوئے، جس میں اہم عوامل گنجان آبادی اور زمین کے استعمال کے پہلو نمایاں تھے۔ سرگودھا میں دریائے جہلم کے کناروں پر90 فیصد علاقہ زیزکاشت تھا، جبکہ مظفر گڑھ میں یہ 30 فیصد۔ اسی طرح سرگودھا کی دریائی پٹی میں مظفر گڑھ سے زیادہ گنجان آبادی تھی۔ دریائے جہلم کے بائیں کنارے کی متوازی نہر کی تعمیر سیلابی پانی کیلئے رکاوٹ بنی رہی ہے۔ پاکستان میں تسلسل سے آنے والی آفات کی وجوہات یہ ہیں : 1، فیصلہ سازی اور عمل درآمد کے دورانیہ میں آفات کا شکار ہونے والوں کو شامل نہ کرنا۔ 2، ترقیاتی منصوبہ بندی میں مختلف پہلووںکو نظر انداز کرنا ۔ اس حوالے سے میں ریاستی عہدیداروں اور حکمران جماعتوں کو غفلت کا ذمہ دار ٹھہرانے کیساتھ سول سوسائٹی کی نااہلی کو بھی شمار کروں گا۔ ’’عالمی نیٹ ورک ، (GNDR) ‘پتن جس کا ممبر ہے ،نے حال ہی میں ایک عالمی سروے مکمل کیا، یعنی فرنٹ لائن ویوز، جس میں 52 ممالک شامل تھے۔ یہ مقامی سطح پر تخفیف آفات پر سب سے بڑی عالمی تحقیق ہے۔ اس کا مقصد خطرات کو کم کرنے اور مدافعت کو مضبو ط بنانے کے لیے پالیسیوں اور طریقوں کے ڈیزائن اور انکے نفاذ میں خطرات سے دوچار افراد، سول سوسائٹی اور حکومت کے درمیان شراکت اور تعاون کو مضبوط بنانا ہے۔پاکستان میں، 2019-20 کے دوران پتن کی ایک تحقیق کے مطابق ، جس میں ملک بھر کے 15 اضلاع میں 1,700 سے زیادہ گھرانوں، 150 این جی اوز اور 150 مقامی حکومتی اہلکاروں کے انٹرویوز شامل تھے۔ جواب دہندگان (تباہی کے شکار علاقوں میں رہنے والوں) نے پاکستان میں درج ذیل چھ آفات کو سب سے زیادہ تباہ کن اور تو اتر سے برپا ہونے والی قرار دیا: سیلاب ا ور اس کے بعد زلزلے، وبائی امراض، خشک سالی، آلودگی اور شدید بارش۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت سے جواب دہندگان نے غربت اور عدم مساوات کو بھی آفات کے طور پر دیکھا۔ آفات سے متاثرہ 90 فیصد سے زیادہ کمیونٹیز نے کہا کہ ریاستی اداروں کی طرف سے آفات کے خطرے کی تشخیص ، منصوبہ بندی اور عمل درآمد میں کبھی بھی ان سے مشورہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان پر عمل کیا گیا، جو کہ قانون کے لحاظ سے ایک بہت بڑی غفلت ہے۔ اس تحقیق قومی اوسط کے مقابلے میں آفات کے شکار علاقوں میں معذوری کی شرح کئی گنا زیادہ پائی گئی ہے۔ مثال کے طور پر، پانچ میں سے ایک جواب دہندگان نے بتایا کہ انکے خاندان میں معذور افراد ہیں، جبکہ 37 فیصد نے کہا کہ ان کے خاندان کے افراد کسی دائمی بیماری کا شکار ہیں، جو قابل تشویش ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آفات کے بعد کسی نے ان کی مدد کی، تو صرف 16 فیصد نے حکومت کا ذکر کیا، 31 سے 34 فیصد نے بالترتیب دوستوں یا رشتہ داروں اور این جی اوز یا مذہبی تنظیموں کا ذکر کیا۔ پرائمری سماجی نیٹ ورکس اور این جی اوز آفات کے دوران اور بعد میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ریاست آفات سے نمٹنے میں ناکام رہی ہے۔ شہری اور دیہی سیلاب کی موجودہ لہر نے تپن سروے کے بہت سے نتائج کو سچ ثابت کیا ہے۔ اس مطالعہ کا مقصد ماحولیات اورپالیسیوں/منصوبوں کے بارے میں آفات کی زد میں لوگوں کی بیداری اور خطرے میں کمی کی تشخیص، منصوبہ بندی اور تخفیف آفات کے نفاذ میں ان کی شمولیت اور شرکت کا جائزہ لینا تھا۔نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی پالیسی اور اس کے ایکٹ2010 اور منصوبے کے برعکس، تقریباً 97 فیصد جواب دہندگان نے بتایا کہ انہیں کبھی بھی تخفیف آفات پالیسی اور منصوبوں سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ زیادہ تر افراد نے ناقص نفاذ اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے لیے مقامی بااثر اور بدعنوان ریاستی اہلکاروں کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ اگرچہ اس سال بارشیںگزشتہ سالوں کے مقابلے میں 400فیصد زیادہ ہوئی ہیں، لیکن پچھلے سالوں میں تباہی اسی شدت کی تھی۔ متواتر آفات کے باوجود، آنے والے حکمرانوں نے تباہی کے خطرے کی منصوبہ بندی اور عمل درآمد میں پسماندہ طبقہ اور عوامی سطح پر خواتین اور مردوں کی شمولیت کے حوالے سے ریاستی پالیسیوں اور رہنما اصولوں کی مسلسل خلاف ورزی کی ہے۔ بااختیار مقامی حکومتوں کی عدم موجودگی، مقامی سطح پر غیر فعال اورتخفیف آفات کے خوشا مدی اہلکاروں اور بے جان قومی اور صوبائی منتظمین آفات کمیشن ہماری ڈیزاسٹر گورننس کی کہانی بیان کرتے ہیں، جو کہ تباہ کن ہے۔جہاں تک عوامی پیروی کی بات ہے ،توکسی منظم پلیٹ فارم سے کوئی جامع سفارشات پیش نہیں کی گئیں۔ ایسا لگتا ہے کہ این جی اوز میں دم خم نہیں رہا، کیونکہ ان کے نیٹ ورکس عوام حقوق کیلئے آواز بلند کرنے اور اہلکاروں کو جوابد ہ ٹھہرانے سے ڈرتے ہیں۔۔ احتساب کا لفظ اپنا معنی کھو چکا ہے۔ ا ب سوال یہ ہے کہ کیا کرنا ہے؟ 1، قدرت پر الزام نہ لگائیں،بے بسی اور حکمرانی پر مبنی تباہی کی داستانیں سامنے لائیں ۔ 2، سیاسی جماعتوں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اپنے متعلقہ منشوروں میں’’تخفیف آفات اور رسک گورننس‘‘ کو شامل کریں۔ 3، این ڈی ایم اے ایکٹ کو تخفیف آفات پالیسی 2031ء اور لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے ساتھ ہم آہنگ کریں اور پاکستان کے آئین کے آرٹیکل-A 140 کے مطابق مقامی حکومتوں کو نظام قائم کریں۔ 4، حکومتوں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ فیصلہ سازی اور نفاذ کے ڈھانچے اور عمل میں کمیونٹی اور خواتین کی شمولیت کو قانونی طور پر لازمی بنائیں۔ 5، مقامی حکومت کے ڈھانچے کی تمام سطحوں پرتخفیف آفات کمیٹیاں قائم کریں۔ 6، وقتاً فوقتاً تربیت اور تعلیم کے ذریعے آفات کا شکار کمیونٹیز کی صلاحیتوں کو بڑھائیں۔ 7، تعلیمی نصاب اور مشقوں کے ذریعے طلباء کی حساسیت کو بڑھائیں۔ 8، پسماندہ طبقات کے مطالبات کو بیان کرنے کے لیے ایک مضبوط پلیٹ فارم تیار کریں اور دیہی اور شہری آبادیوں کے شہری نیٹ ورکس اور سماجی تحریکوں کے ساتھ روابط پیدا کریں۔ عقل و خرد کا استعمال ضروری ہے ، مثال کے طور پر، ہر کوئی جانتا ہے کہ بعض مہینوں میں سیلاب آتا ہے اور انہی مہینوں میں گلیشیئر پگھلنے میں بھی تیزی آتی ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ سیلاب اور اسکے راستے کیا ہیں۔ اگر ہم یہ سب کچھ پہلے سے جانتے ہیں تو پھر حکام پہلے سے کارروائی کیوں نہیں کرتے؟ قدرت پر الزام لگا کر اپنی مجرمانہ غفلت کو نہیں چھپا یا جاسکتا۔ انہیں ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ میں لوگوں کو شامل اور آفات کے اثرات کو کم کرنا چاہیے۔