سوا تین کروڑ پاکستانی اس عالم میں ہیں کہ پاؤں کے نیچے زمین نہیں اور سر پر تنا آسمان مہربان نہیں اور قیامت کیا ہوگی؟ سیلاب متاثرین اور سیلاب زدگان یہ اصطلاحیں اب کلی شے بن کہ رہ چکی ہیں ان کی ادائیگی ہمارے اندر احساس کی کوئی رمق بیدار نہیں کرتی۔کہ ہم ایک لمحے کے لیے اپنے احساس کو یکسو کرکے سوچیں کہ کھلے آسمان کے تلے بیٹھے یہ لوگ بھی کبھی گھر بار رکھتے تھے۔ ان کے باورچی خانوں سے دھواں اٹھتا تھا، ان کے کمروں میں بساط بھر سامان زیست سجا ہوا تھا۔ ان کے مال مویشی تھے۔ کاروبار زندگی چلتا تھا، ان کے غسل خانے تھے، بقدر ضرورت پہننے اوڑھنے کے کپڑے تھے حوائج ضروریہ کے لیے اچھے برے بیت الخلا موجود تھے جو پردہ رکھتے اور زندگی شکر اور بھرم سے گزرتی تھی ۔ مگر آج یہ مظلوم ان حالوں میں ہیں کہ گھر اور گھر سے جڑی ہرشے ان سے چھن چکی ہے ۔اب حالت یہ ہے کہ زندگی سے جڑی ضرورتیں وہی ہیں بھوک پیاس حوائج ضروریہ سب وہی ہے مگر زندگی کا بھرم رکھنے کو گھر اور گھر کی چار دیواری موجود نہیں۔ ذرا تصور کریں کچھ دیر کے لیے اپنے اوپر یہ کیفیت اور حالات طاری کریں اور پھر سوچیں کہ ان کے ساتھ کیا قیامت بیت چکی ہے۔خواتین کے مسائل بہت گھمبیر ہیں وہ کھل کر اپنے حالت بیان بھی نہیں کر سکتیں، انہیں اپنے پردے کا بھی خیال رکھنا ہے ، بہت سی مجبوریاں ساتھ لگی ہوئی ہیں، سینکڑوں خواتین زچگی کے مسائل سے دوچار ہیں۔ سینکڑوں ایسی مائیں ہیں،جنہوں نے سیلاب کے انہی بے سروسامان دنوں میں بچوں کو جنم دیا ہے۔ سینکڑوں نومولود بچے زچگی سے گزری مائیں اور وبائی امراض کے حملے۔۔! یہ وہ تکلیفیں ہیں کہ ان سے گزرنے والا ہی جان سکتا ہے کہ وہ کس عذاب سے گزر رہا ہے۔ سڑکوں پر بیٹھے ہوئے یہ مصیبت زدہ پاکستانی وہ ہیں جو پاکستان کے جمہوری نظام کا حصہ ہیں ووٹ ڈالتے تھے اور حکومتوں سے اپنے دن بدلنے کی امید رکھتے ہیں دن تو کیا بدلتے ان پر تو سرکار کی مس مینجمنٹ اور اداروں کی نااہلی سے قیامت بیت گئی۔دوسرے ممالک میں آنے والے سیلاب یا غیر معمولی بارشیں اتنی خوفناک تباہی کیوں نہیں لاتیں ؟اس لیے کی وہ تیاری کرتے ہیں پلاننگ کرتے ہیں پالیسی بناتے ہیں وہاں انسانی جان بہت قیمتی ہے۔ تمام جمہوری حکومتیں قصور وار ہیں جنہوں نے ان مسائل کو کبھی توجہ کے قابل نہیں سمجھا بارشوں اور سیلابوں سے نمٹنے کے لیے کوئی میکانزم نہیں بنایا۔۔ ماحولیاتی آلودگی کے نتیجے میں ہونے والی موسمی تبدیلیوں اور غیر معمولی بارشوں کی پیشنگوئی 2019 میں ہو چکی تھی۔ 2019 کی یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ماحولیاتی آلودگی سے متاثر ہونے والا وہ ملک ہے جہاں غیر معمولی بارشیں ملک میں بدترین سیلاب لانے کا موجب بنیں گی ۔ان غریبوں کے اشرافیہ نمائندوں نے کبھی پارلیمنٹ میں اس موضوع پر سوال نہیں اٹھائے پالیسی میکرز کی برین سٹارمنگ کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے نام پر جو سفید ہاتھی ملک میں موجود ہے اس نے کبھی زحمت نہیں کی کہ وہ اس خطرناک پیشنگوئی کے مضمرات پر غور کرے اور اس سے بچاؤ کے اقدامات کرنے کے لیے حکومت وقت کو خبردار کرے اور کیا کام تھا NDMPکا ؟ سیلاب کے ارلی وارننگ سسٹم کو کیوں اپ گریڈ نہیں کیا گیا۔؟ یہ وہ قدرتی آفت ہے جس کی شدت کو کم کیا جا سکتا تھا ،بروقت اقدامات سے لاکھوں گھروں کو تباہ ہونے سے بچایا جا سکتا تھا۔سینکڑوں قیمتی جانیں بچائی جاسکتی تھیں۔نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا سفید ہاتھی صرف اسی کام کے لیے رہ گیا ہے کہ وہ روز جانی اور مالی تباہی کے نئے اعداد و شمار جاری کرتا رہے ۔ کیا کبھی سوچا ہے کہ جن ماؤں کے ہاتھوں سے ان کے بچے پانی میں بہہ گئے ان کی حالت کیا ہوگی؟ کیا کبھی سوچا ہے کہ جیتے جاگتے لوگ پانی کی نذر کس طرح ہوتے ہیں کیا قیامت ان پر بیت جاتی ہے ریاست ان کی جان و مال کے تحفظ کی امین نہیں تھی؟کئی دیہاتوں میں وڈیروں جاگیرداروں نے اپنی زمینیں بچانے کے لئے غریب دیہاتیوں کی بستیاں اجاڑ دی ہیں۔ اثرورسوخ ، اختیار عہدے، پاپولیرٹی ہمارے سماج۔ میں کمزور کو روندنے کا لائسنس ہیں۔ کیا پاکستان کی کسی عدالت میں ان ظالموں وڈیروں پر مقدمہ ہوگا جنہوں نے اپنی زمینیں بچانے کے لیے غریبوں کی بستیوں کو ملیامیٹ کر دیا ۔ اور ان کے بچوں کو اس سیلابی پانی میں مر جانے دیا ۔ اس وقت ہمارے مظلوم پاکستانی بھائی بہن بچوں اور بزرگوں پر قیامت کی گھڑی ہے۔ گھروں کے ملبے پر بیٹھے ان مظلوموں کے چہرے ذرا غور سے دیکھیں ۔ان کی آنکھوں میں بھوک کے بسیرے ہیں ان کے چہرے پر حسرت کی داستانیں ہیں۔ ٹوٹی چارپائیاں الجھے بال ننگے پاؤں کیچڑ ہوتے وجود اعلان کر رہے ہیں کہ وہ تو پہلے ہی مملکت خداداد میں کوئی سہولت والی، بہتر زندگی نہیں گزار رہے تھے۔ روکھی سوکھی کھاتے تھے اور اپنے گھروں میں غربت کے عالم میں بھی سادگی اور سکون کی زندگی بسر کر رہے تھے۔مگر سیلاب نے سب سے بڑی قیامت یہ ڈھائی کہ ان غریبوں کی زندگی کے تمام بھرم کھول کر انہیں سڑکوں پر لا بٹھایا ہے۔ اب ان کی بے چارگی کیمروں کی زد میں ہے اور سوشل میڈیا پر لائک اور کومنٹ پارہی ہے ۔ خیبرپختونخوا سے بلوچستان تک اور اندورن سندھ سے جنوبی پنجاب کی پسماندگی تک یہ سیلاب زدگان نہیں جمہوریت زدگان ہیں یہ پاکستان مارکہ جمہوری نظام کے ڈسے ہوئے مظلوم ہیں جہاں ایک غریب مزارع اپنے جیسے کروڑوں غریبوں کا نمائندہ بن کے اسمبلی میں نہیں جا سکتا مجبورا وہ انہی سرداروں وڈیروں اور جاگیردار وں کو ووٹ دیتا ہے جو اپنی فصلیں بچانے کے لیے سیلابی ریلوں کا رخ غریبوں کی زندگیوں کی طرف موڑ دیتے ہیں۔ یہ سیلاب متاثرین نہیں مملکت خدادا میں خوفناک عدم مساوات اور بددیانتی پر مبنی ظلم کے نظام کے متاثرین ہیں۔