سینٹ کے انتخابات تو دس پندرہ دنوں میں ہو ہی جائیں گے، مجھے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ اس بار ہماری لگ بھگ تمام سیاسی جماعتیں بری طرح ایکسپوز ہوئی ہیں۔ سیاست میںآج کل دو طرح کے سیاسی بیانیے چل رہے تھے، بدقسمتی سے دونوں ختم ہوگئے۔ عملاً ان میں کوئی وزن نہیں رہا۔ ویسے کوئی دیدہ دلیری سے ان پر قائم رہے تو یہ الگ بات ہے۔ سیاست میں ایک بیانیہ عمران خان لے آئے تھے ، دو ہزار گیارہ میں اپنے لاہور کے بڑے جلسے کے بعد سے ان کے بیانیہ کو توجہ ملی اور پھر مئی 2013ء کے انتخابات میں انہیں ستر لاکھ کے قریب ووٹ ملے۔2018ء کے انتخابات میں بھی عمران خان کا بیانیہ بھرپور طریقے سے سامنے موجود تھا، انہیں ملنے والے ووٹوں کے بہت بڑے حصے کا تعلق اسی بیانیہ سے تھا۔اگرچہ اس الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے تحریک انصاف کی سپورٹ، مسلم لیگ ن کے مرکزی لیڈروں کے خلاف کیسزاور نواز شریف صاحب کے جیل میں ہونے سے بھی کچھ فرق پڑا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو شائد تحریک انصاف کی اکثریت مزید سکڑ جاتی اور تب معلق پارلیمنٹ بن جاتی۔اس کے باوجود عمران خان کا تبدیلی والا بیانیہ بہرحال بہت اہم فیکٹر تھا۔ کوئی اسے نظراندازکرے یاکم اہمیت دے تو یہ تجزیے کی غلطی ہوگی۔ عمران خان کا بیانیہ پانچ سات نکات پر مشتمل تھا: مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی دونوںلوٹ مار کرنے والی جماعتیں ہیں،یہ مک مکا کی سیاست کر رہی ہیں،یہ سب سٹیٹس کو کے حامی ہیں اور اپنی پارٹیوں میں بھی جمہوریت نافذ نہیں کرتے ۔سیاسی کارکن نظرانداز جبکہ پیسے والے چھائے ہیں، ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے لیڈر موروثی سیاست کررہے ہیں، اقربا پروری اورٹکٹوں کی خریدوفروخت ان کا عمومی کلچر ہے۔تحریک انصاف ان سے یکسر مختلف جماعت ہے، اس میں جمہوریت ہے۔ قیادت دیانت دار ہے، اقتدار میں آ کر ہم سسٹم میں تبدیلی لائیں گے ، اچھے ایماندار لوگوں کو موقعہ دیں گے ، موروثیت اور اقرباپروری ختم کریں گے وغیرہ وغیرہ۔ دوسرا بیانیہ تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کے بعد اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، اے این پی، جے یوآئی ف اوربلوچستان کی قوم پرست جماعتوں نے پیش کیا۔ تین چار مرکزی نکات تھے۔ تحریک انصاف کی حکومت منتخب جمہوری حکومت نہیں، یہ سلیکٹڈ ہیں اور انہیں اسٹیبلشمنٹ نے ناجائز سپورٹ دے کر کامیاب بنایا۔ ان کا جمہوریت اور سیاسی کلچر سے تعلق نہیں، یہ نااہل اور نالائق ہیں۔ ہم حقیقی جمہوریت کی بات کر رہے ہیں، ہم جمہوری سیاسی اصلاحات لانا چاہتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اپنا کام کرے جبکہ سیاست کو سیاسی جماعتوں پر چھوڑ دے وغیرہ وغیرہ۔ سینٹ کے انتخابات دونوں فریقوں اور دونوں کے سیاسی بیانیہ کے لئے ٹیسٹ کیس تھا۔ افسوس اس امتحان میں ملک کی حکمران جماعت اور متحدہ اپوزیشن بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ ان کے نمبر اتنے کم ہیں کہ رعایتی نمبر دے کر بھی پاس نہیں کیا جا سکتا۔ افسوس تو یہ ہے کہ عوام کے لئے یعنی ہم جیسوں کے لئے کوئی ایسی قابل عمل آپشن بھی موجود نہیں رہی۔ عشروں سے حکمران چلے آنے والے ناکام ہوئے، جس نے تبدیلی کا نعرہ لگایا، آزمانے پر وہ بھی ناکام ٹھیرا۔ جماعت اسلامی جیسی ایک آدھ جماعت کا دامن صاف ہے، ان کا سیاسی کلچر بھی بہت بہتر ہے۔ جماعت مگر سیاسی طور پر اتنی کمزور ہوچکی کہ قابل عمل آپشن نہیں رہی۔ اگر وہ نئے پلان اورپرکشش ایجنڈے کے ساتھ کوشش کریں تو شائد عوامی پزیرائی مل جائے، ورنہ تو شدید مایوسی کی دھند چاروں طرف چھائی ہے۔ چند ماہ قبل پی ڈی ایم نے چیئرمین سینٹ سنجرانی صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی۔ انہیں مطلوبہ اکثریت حاصل تھی، مگر ان کے ایک درجن سے زائد سینیٹرز نے خفیہ بیلٹنگ میں اپنا ضمیر فروخت کر دیا اور یوں عدم اعتماد ناکام ہوگئی۔ اپوزیشن کو اس سے شدیددھچکا لگا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس سے سیاست اور جمہوریت کو زیادہ نقصان پہنچا۔ لوگوں کو علم ہوا کہ منتخب سینیٹرز میں سے اچھی خاصی تعداد ایسے ضمیر فروشوں کی ہے، جو اپنے مفاد کی خاطر کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ اس بار سینٹ انتخابات میں حکمران جماعت کی جانب سے اوپن بیلٹنگ کی تجویز آئی تو اسے فوری قبول کر لینا چاہیے تھا۔ خفیہ بیلٹنگ کے باعث ہی کے پی کے اور بلوچستان میں پچھلے چالیس برسوں سے ووٹوں کی خرید وفروخت ہوتی رہی ہے۔ اوپن بیلٹنگ اس ہارس ٹریڈنگ کو ہمیشہ کے لئے روک سکتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے سینیٹر گلزار احمد خان اور ان کے دو صاحبزادے آج نہیں بلکہ خاصے عرصے سے ہر بار سینیٹر بن جاتے ہیں۔ گلزار صاحب خود عددی اکثریت نہ ہونے کے باوجود سینیٹر بنتے رہے ، سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود انہیں محترمہ بے نظیر بھٹو نے کبھی نہیں روکا۔ سینیٹر گلزار احمد خان بی بی کے ہمیشہ میزبان بنے اور بڑی کشادہ دلی کے ساتھ مہمان نوازی کرتے رہے۔ یہی ان کے صاحبزادے وقار اور عمار کرتے رہے ہیں۔ پچھلی بارکے پی کے میں زرداری صاحب نے کچھ ایسا جادو چلایا کہ پیپلزپارٹی اپنے کوٹہ سے دو تین گنا زیادہ سیٹیں لے گئی۔ واضح طور پر یہ ہارس ٹریڈنگ کی وجہ سے ہوئے، زرداری صاحب اس کھیل کے ماسٹر سمجھے جاتے ہیں۔ سنجرانی صاحب کو چیئرمین سینٹ بنانے کے کھیل میں اور اس سے پہلے بلوچستان اسمبلی میں جو کچھ ہوا، اس کے پیچھے بھی’’ ایک زرداری سب پر بھاری‘‘ کا نام لیا جاتا ہے۔افسوسناک بات یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک میں یہ لیبل کسی سیاستدان کے ساتھ چسپاں ہوجائے تو اس کا سیاسی کیرئر ختم ہوجائے گا۔ یہ صرف پاکستان ہی ہے جہاں ایسے لوگ قومی جماعتوں کے سربراہ ہوں بلکہ ان کے اس’’ فن ‘‘کی تعریف کی جائے۔ پی ڈی ایم والے جمہوریت پسند ہونے کے دعوے دار ہیں، انہیں یہ شکوہ ہے کہ عام انتخابات میں دھاندلی ہوئی ۔ اب ان کے پاس موقعہ تھا کہ عشروں سے سینٹ میں پیسے کے بل پر ووٹ خریدنے اور بیچنے کے مکروہ کھیل کو ختم کیا جائے۔ اگر ان میں پانچ دس فیصد جمہوریت بھی ہوتی تو وہ فوری اوپن بیلٹنگ کی تجویز منظور کر لیتے بلکہ انہیں یہ کہنا چاہیے تھا کہ چیئرمین سینٹ کا انتخاب بھی اوپن کیا جائے تاکہ جو کچھ سنجرانی صاحب کے خلاف عدم اعتماد تحریک میں ہوا، وہ کبھی دہرایا نہ جا سکے۔ ایسا کرنے کے بجائے پی ڈی ایم نے صاف انکار کر دیا۔ مریم نواز شریف کے پاس ایسا کرنے کے حق میں معمولی سی دلیل بھی نہیں۔ یہ کہاں کی منطق ہے کہ ہارس ٹریڈنگ اگر اپوزیشن کے خلاف ہو تو وہ غلط ہے، لیکن اگر کرپشن کنگ زرداری صاحب ایسا کر کے پی ٹی آئی کی سیٹیں کم کریں تویہ جائز ہے۔ سینٹ انتخابات نے پی ڈی ایم کے حقیقی جمہوری ، سیاسی اتحاد ہونے کے دعوے کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔ ان کا سیاسی بیلنس صفر ہوگیا ہے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کے قائد کا رویہ بھی افسوسناک رہا ۔ ان کی حکومت اور گورننس سٹائل تو نہایت افسوسناک اور مضحکہ خیز ہے ہی۔ پاکستان کی جدید سیاسی تاریخ عمران خان سے بری ٹیم کسی وزیراعظم نے نہیں بنائی۔اہم عہدوں پر ان سے بدترین سلیکشن بھی کسی نے نہیں کی۔ یہ اعزازخان صاحب کو حاصل ہوا کہ پنجاب میں ایسا شخص وزیراعلیٰ بنایا جو صوبائی وزیربننے کی اہلیت بھی نہیں رکھتا۔ اب سینٹ ٹکٹوں میں خوفناک غلطیاں کی گئیں۔پیسے ، ذاتی دوستی اور اقربا پروری کی بنیاد پر ٹکٹیں دی گئی ہیں۔ عملی طور پر آج پی ٹی آئی اور ن لیگ، پیپلز پارٹی بلکہ ق لیگ میں کوئی فرق نہیںرہا۔ مسلم لیگ ن نے بلکہ سینٹ کے لئے بہت بہترامیدوار چنے، دیرینہ سیاسی کارکنوںکو ٹکٹیں دیں۔ عمران خان فیصل واڈا کو سینٹ کا ٹکٹ دینے کا کیا دفاع کر سکتے ہیں؟ ایک ایسا شخص جس نے دانستہ غلط بیانی کی، اپنی غیر ملکی شہریت کو چھپایا اور اب اس کی قومی اسمبلی کی رکنیت ختم ہو رہی ہے تو اسے بچانے کے لئے سینیٹر بنایا جا رہا ہے ۔ آخر کیوں؟ فیصل واڈا کی آخر کیا ایسی خدمات ہیں کہ عمران خان ان کے لئے بدنامی کا کانٹوں بھرا ہار پہننے پر مجبور ہوگئے؟بلوچستان میں عبدالقادرسے ٹکٹ واپس لیا گیا، اس لئے کہ وہ عمران خا ن کی ترجیحی چوائس نہیں تھے،مبینہ طو رپر ان کے لیے کہیں اور سے کہا گیا۔ مقامی سطح پر احتجاج کا بہانہ کر کے اس سے جان چھڑ ا لی گئی۔ ورنہ مقامی سطح پر احتجاج تو سندھ میں بھی بہت ہوا ہے، وہاں سیف اللہ ابڑو سے ٹکٹ واپس کیوں نہیں لیا گیا؟ فرحت شہزادی کو ٹکٹ کیوں دیا گیا؟ خان صاحب کی بیگم کی سہیلی ہونے کے علاوہ اس بی بی کا کیا سیاسی اور جمہوری کنٹری بیوشن ہے؟ اقرباپروری آخر اور کیا ہوتی ہے؟سب سے افسوسناک تحریک انصاف کے اسد عمر، شفقت محمود جیسے پڑھے لکھے لیڈروں کا یہ کہنا ہے کہ قائد درست فیصلہ کرتا ہے، انہیں زیادہ علم ہے۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان کا صاف نظر آنے والا غلط فیصلہ درست کیسے ہے؟ خوشامد اور چاپلوسی اور کسے کہتے ہیں؟ تحریک انصاف کا اثاثہ آج بھی تبدیلی کے خواہاں نظریاتی حامی ہیں۔ جو ایسے ہر غلط فیصلے کی سوشل میڈیا پر ڈٹ کر مخالفت اور تنقید کرتے ہیں۔ اِن کی جرات اور اصول پسندی کی تحسین بنتی ہے۔ اُن کے ساتھ البتہ افسوس اور ہمدردی کرنی چاہیے، جو ایسے بدترین فیصلوں کا دفاع کرنے پر مجبور ہیں۔ ویسے نوحہ تو سب سیاسی کارکنوں کو پڑھنا چاہیے کہ دونوںفریقوں نے مایوس کیا ہے۔ دونوں اطراف کے سیاسی بیانیے عمل کے میدان میں بری طرح پٹ گئے۔