اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں حکمران اتحاد کے امیدوار عبد الحفیظ شیخ کی شکست وزیر اعظم عمران خان کے لیے بڑ اسانحہ تصور کیا جا رہا ہے لیکن حکومت کے ترجمانوں کی فوج ظفر موج کی منطق ہے کہ یہ سب کچھ الیکشن کمیشن کی نا اہلی اور نوٹوں کی ریل پیل کی وجہ سے ہواہے۔ وہ یہ تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں کہ اس میں حکومتی نا اہلی اور معاملات کو مس ہینڈل کرنے کا بھی گہرا عمل دخل ہے۔وزیر اعظم عمران خان جب سے منصب اقتدار پر فائز ہوئے ہیں وہ ایک ہی رٹ لگا رہے ہیں اپوزیشن والے چور ہیں،انہوں نے اپنے خوشامدیوں کی باتیں ہی سنی ہیں کہ بس ہم نے حزب مخالف کو چور ڈاکو ثابت کرنا ہے باقی سب کچھ ٹھیک جا رہا ہے ۔حالانکہ خان صاحب کو اپنی گورننس اورڈلیورنس پر بھی غور کرنا چاہئے۔دوسرا یہ کہ خان صا حب اپنے حواریوں کوتو کجا اپنی پارٹی کے ساتھیوں کو بھی ہینڈل نہیں کر پائے اور بالآخر انہیں یہ دن دیکھنا پڑا جبکہ اپوزیشن نے اپنے دعوؤں کے مطابق انہیں فیصلہ کن شکست دے دی۔ اگرچہ اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ حفیظ شیخ کی شکست کی صورت میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد ہو گیا ہے ، ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ واقعی ایسا ہے۔وزیر اعظم اوران کے سا تھیوں کو یہ احسا س ہے کہ ان کے لیے اعتما د کا ووٹ لیناان کی سیاسی ضرورت بن گیا ہے،اسی لئے وہ آج اس کی پریکٹس کر رہے ہیں۔ وزیرا عظم نے جمعرات کی شب قوم سے خطاب کیا جس میں انہوں نے جہاں ایک طرف پھر اپوزیشن کو رگیدا وہاں الیکشن کمیشن پر بھی الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔ان کا کہنا تھا چاہے میں اپوزیشن میں بیٹھوں یا اسمبلی سے بھی باہر ہوجاؤں ، میں نے آپ میں سے کسی کو نہیں چھوڑنا جب تک آپ اس ملک کا پیسہ واپس نہیں کریں گے، اقتدار سے باہر ہوگیا تو لوگوں کو باہر نکالوں گا۔وزیر اعظم نے الیکشن کمیشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا سپریم کورٹ میں آپ نے اوپن بیلٹ کی مخالفت کیوں کی، کیا آئین، چوری کی اجازت دیتا ہے، اگر اوپن بیلٹ کے ذریعے سینیٹ کا انتخاب ہو جاتا تو جو ہمارے 15، 16 لوگ بکے ہیں ہم ان کا پتا لگا لیتے، الیکشن کمیشن نے ہمارے ملک میں جمہوریت کو نقصان پہنچایا ،آپ نے ملک کی جمہوریت کا وقار مجروح کیا۔وزیر اعظم کی تنقید پر الیکشن کمیشن نے بھی گزشتہ روز اجلاس طلب کیا جس کے اعلامیے میں کہا گیا ’’ ہم کسی کی خوشنودی کی خاطر آئین اور قانون کو نظر انداز نہیں کر سکتے ،الیکشن کے رزلٹ کے بعد میڈیا کی وساطت سے جو خیالات ہمارے مشاہدے میں آئے ان کو سن کر دکھ ہوا،وفاقی کابینہ کے چند ارکان اور بالخصوص وزیر اعظم نے جو کل اپنے خطاب میں فرمایا، ہمیں آزادانہ طور پر کام کرنے دیں، ہم کسی بھی دباؤ میں آئے ہیں اور نہ ہی ان شااللہ آئیں گے‘‘۔ ادھر پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہم آپ کو این آر او نہیں دیں گے اور عدم اعتماد کا فیصلہ جمہوری قوتیں کریں گی،اس نالائق حکومت سے تنگ پورے پاکستان نے اسلام آباد کی سینیٹ کی سیٹ پر جیت کا جشن منایا۔بلاول بھٹو کا کہنا تھا ہم نے دنیا کو دکھا دیا عمران خان نے قومی اسمبلی کا اعتماد کھو دیا ، اب پی ڈی ایم بتائے گی کہ عدم اعتماد کب ہوگا اور کہاں ہوگا۔بلاول بھٹو نے پنجاب میں بھی تحریک عدم اعتماد لانے کا عندیہ دیا۔وزیراعظم عمران خان کے قوم سے خطاب پر ردعمل دیتے ہوئے مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کا کہنا تھا وزیراعظم کی تقریر ہارے ہوئے شخص کی تھی،عمران خان جن کو بکاؤ کہہ رہے ان سے اعتماد کا ووٹ کیسے مانگیں گے۔ دوسری طرف وزیر اعظم نے جمعہ کو پارلیمانی ارکان کا اجلاس بھی طلب کیا ، گورنر پنجاب چودھری محمد سرور اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو بھی مشا ورت کے لیے اسلام آباد بلایا اور سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی اور دیگر اتحادیوں ایم کیو ایم اور جی ڈی اے کے رہنماؤں سے بھی ٹیلی فون پر رابطے کئے۔ یقینا حکومت کی شکست کے پیچھے پنجاب کی قیا دت کی کمزوری بھی ہے جو اس امر کی غمازی کرتی ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی میں کوئی گہرا اثر ورسوخ نہیں ہے۔ ویسے تو عام حالات میں وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے میں کو ئی مشکل پیش نہیں آنی چا ہیے تاہم موجودہ صورتحال میں کسی امکان کو یکسر رد نہیں کیا جا سکتا۔ سینیٹ انتخابات کے تلخ تجربے میں یہ بات تو ثابت ہوئی ہے کہ اس معرکے میں خان صاحب یکہ وتنہا تھے ماسوائے نام نہا د ترجمانوں کی فوج کے جو تولتی کم اور بولتی زیادہ ہے۔دراصل تحریک انصاف کو اپنی اب تک کی سیا سی حکمت عملی پر ارسرنو غور کرنا چاہیے کیونکہ مخالفین پر کرپشن کرپشن کی الزام تراشی کر کے اوردوسری طرف حکومتی کارکردگی بلند بانگ دعوؤں کے برعکس نرم سے نرم الفاظ میں نہ ہونے کے برابر ہو پھر یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ اپوزیشن نے انتہائی ہوشیاری سے وزیر خزانہ حفیظ شیخ جو بنیادی طور پر ٹیکنوکریٹ ہیں اور ان پر ورلڈ بینک کا لیبل چسپاں ہے۔ ان کے مقابلے میں زیرک سیاسی شخصیت کومیدان میں اتارا جو حفیظ شیخ سے یکسر مختلف ہیں۔ یوسف رضا گیلانی قریبا ً چار برس تک وزیر اعظم رہے اس دوران انہوں نے اپنی جماعت پیپلز پارٹی تو ایک طرف اپوزیشن کے ساتھ بھی بہت قریبی اور گہرے روابط رکھے جبکہ وزیر اعظم عمران خان پارلیمنٹ کا رخ ہی نہیں کرتے اور ارکان اسمبلی تو کجا وزرا بھی شاکی رہتے ہیں کہ انہیں پا نچ منٹ کا وقت نہیں ملتا۔ سینیٹ انتخابات کے نتیجے میں جو دلچسپ حقیقت سامنے آئی ہے وہ تحریک انصاف اور اس کی اتحا ی جماعتوں کا سینیٹ میں اکثریت نہ حاصل کرپاناہے۔اپوزیشن اتحاد کو 53ووٹ ملے اور حکمران اتحاد 47ووٹ حاصل کر سکا ۔ اس کے باوجود حکومت نے صادق سنجرانی کو ہی دوبارہ چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں مید ان میں اتاردیا ہے۔ دوسری طرف امکان غالب ہے کہ اپوزیشن یوسف رضا گیلانی کو ہی سینیٹ کی چیئرمین شپ کے لیے امید وار نامزد کرے گی۔ سینیٹ کی نئی ہیئت ترکیبی کے مطابق اپوزیشن توکیاخان صاحب خودا پنے اتحادیوں کی حمایت پر یقین نہیں کر سکیں گے۔ ویسے بھی اس فری فارآل ماحول میں وہ کیونکر یقین کرسکیں گے کیونکہ باہمی بات چیت اور مذاکرات کے بغیر پارلیمنٹ سے قانون سازی کرانا جس کے دوررس نتا ئج مرتب ہو سکیں ناممکن ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جا وید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی وزیراعظم سے جمعرات کو ملاقات ہوئی۔ اس میں کیا معاملات زیر بحث آئے یہ کہنا تو مشکل ہے تاہم خان صاحب کی باڈی لینگویج کوئی اچھا تاثر نہیں دے رہی تھی ،ان کا عمومی طور پر مسکراتا اور پرْاعتما د چہرہ کچھ مرجھایا ہوا لگ رہا تھا۔ بہرحال وزیر اعظم کے پاس اب معاملات درست کرنے کے لیے اڑھائی سال سے کچھ کم عرصہ ہی رہ گیا ہے۔ اس دوران انہیں اپنی مجموعی حکمت عملی اور طرز عمل کا جائزہ لے کر اس میں بہتر تبدیلیاں لانے کا سوچناپڑے گا۔ یہ عملی طور پر انتہائی مشکل ہو گا لیکن اتنے بڑے جھٹکے کے بعد بھی انہی حواریوں اور خوشامدیوں کی باتوں پر کان دھرنے کا جو نتیجہ نکلا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اجلا س ہو رہے ہیں ،اتحادیوں سے رابطے ہو رہے ہیں اور غالباً اعتما د کے ووٹ کے لیے اتنی سرگرمی دکھائی جا رہی ہے۔