سیدنا یوسف علیہ السلام، سیدنا یعقوب علیہ السلام کے بیٹے سیدنا اسحاق علیہ السلام کے پوتے ہیں جبکہ جدالانبیاء سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے پڑپوتے ہیں۔ سیدنا یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے ان میں سے دوصاحبزادے سیدنا یوسف علیہ السلام اور سب سے چھوٹے صاحبزادے بنیامین ،سیدنا یعقو ب علیہ السلام کی زوجہ راحیل کے بطن سے پیدا ہوئے ۔یوں توسیدنا یعقوب علیہ السلام اوران کی اہلیہ بے حد خوبصورت تھے مگرسیدنا یوسف علیہ السلام حُسن و جمال میں ثانی نہ رکھتے تھے ۔آپ بے مثال حسین و جمیل تھے ۔ بنیامین کی ولادت کے وقت آپ علیہ السلام کی والدہ راحیل اللہ کو پیاری ہو گئی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ سیدنا یعقوب علیہ السلام کو اُن کے بچوں سے بے حد محبت تھی اور وہ اُنہیں خود سے جدا نہیں کرتے تھے ۔ جبکہ ایک روایت کے مطابق یعقوب علیہ السلام کی چہیتی بیوی راحیل نے بھی اُن کے لیے خصوصی وصیت کی تھی۔ اب یہ بِن ماں کے بھی تھے اور دس سوتیلے بھائیوں سے چھوٹے بھی۔ پھر شدید قربت اور محبت کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ یعقوب علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام کی پیشانی پر چمکتے نورِ نبوّت کا مشاہدہ بھی کرلیا تھا۔ سیدنا یعقوب علیہ السلام کی سیدنا یوسف علیہ السلام کے ساتھ اس درجہ چاہت نے ہی دوسرے بھائیوں کو ان کے خلاف حسد میں مبتلا کردیا تھا۔ اللہ رب العزت نے آپ علیہ السلام کی سیرت و شان پر قرآنِ کریم کی ایک سو گیارہ آیات پر مشتمل پوری ایک سورت، ’’سورۂ یوسف‘‘ نازل فرمائی نیز اس سورت میں بیان کردہ واقعہ کو’’احسن القصص‘‘ یعنی’’بہترین قصہ‘‘ کہا گیا ہے ،آپ علیہ السلام کا ذکر قرآن پاک کی دیگر سورتوں، سورہ انعام اور سورہ غافر میں بھی وارد ہوا ہے ۔ قرآنِ پاک میں حضرت یوسف علیہ السلام کا نامِ مبارک چھبیس مرتبہ آیا ہے ، جن میں سے چوبیس بار سورۂ یوسف میں ہے ۔ مزید آپ کا تذکرہ بائبل میں بھی موجود ہے ۔سورۂ یوسف میں سیدنا یوسف علیہ السلام کی ابتدائی حیات مبارکہ ،دورِ ابتلاء اور پھر مسند ِاقتدارپر فائز ہونے کے مراحل کو بیان کیا گیا اور اِس حقیقت کو ایک اصول کے طور پر بیان کردیا گیا کہ تقویٰ اور صبر ہی وہ اسلحہ ہیں جو بند ہ مومن کو قیدخانہ سے مسند ِ اقتدارتک لاسکتے ہیں، آپ کو منصب نبوت کے عطا کرنے کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا :’’اورجب وہ اپنی جوانی کو پہنچے تو ہم نے اُن کو حکومت اور علم سے نوازااور ہم نے نیکو کاروں کو اسی طرح ( ان کے اعمال صالح کا ) بدلہ دیا کرتے ہیں ۔(سورۃ یوسف آیت:22)اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں سورۂ یوسف کی 37سے 40تک کی آیات میں سیدنا یوسف علیہ السلام کی بعثت مبارکہ کے مذہبی پہلوؤں کو ذکر کیا ،اُن آیات کو مدنظر رکھتے ہوئے درج ذیل تفصیلات ہمارے سامنے واضح ہوتی ہیں۔ (۱)سیدنا یوسف علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی توحید کے منکرین کی ملت سے لاتعلقی کا اظہار فرمایا اور اپنے ساتھیوں کے سامنے اِس بنیادی حقیقت کو رکھا کہ صرف ملت ابراہیمی ہی وہ طرزِ حیات ہے جس کی پیروی نہ صرف تمام انبیائے کرام علیہم السلام کرتے رہے بلکہ انسانیت کی فلاح بھی اسی ملت کی پیروی میں ہے ۔(۲) توحید کی برکات بیان کرتے ہوئے سیدنا یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ توحید دراصل اَن گنت معبودانِ باطل کی نفی اور ایک واحد قہار رب کی اطاعت کا نام ہے ۔(۳) سیدنا یوسف علیہ السلام نے نام نہاد معبودان ِ باطل جن کی اطاعت کی کوئی معقول دلیل یا جواز نہیں ،اطاعت سے اجتناب کی تلقین فرمائی کہ یہی دین قیم ہے ۔(مقصدبعثت انبیاکی جامعیت وہمہ گیریت:76تا79)سیدنا یوسف علیہ السلام کے دورِ ابتلا ء کے بعد جب مصر کی حکومت کا انتظام زیب ِ تاج فرمایا تو عزیز مصر نے خزائن الارض کے نظم ونسق سنبھالنے کا مطالبہ فرمایا کیوں کہ یہ بنیادی منصب تھا جس کے ساتھ عامۃ الناس کی فلاح وبہبود اور مملکت کے مبنی بر انصاف انتظام کا انحصار تھا جوسیدنا یوسف علیہ السلام نے اپنی بعثت کے مذہبی اور دنیوی پہلو کے پیش نظر منظور فرمایا ۔آیات 55,56میں اِس پہلو کو تفصیلاً بیان کیا گیا ہے ۔سیدنایوسف علیہ السلام کے قصہ اور احوال مبار ک کا ہر ورق اور پہلو بے شمارپندونصائح کا مجموعہ ہے ۔ دراصل اس سبق آموز واقعے میں حسد و عناد کا انجام، نفس امارہ کی شورشیں اور شکست فاش، عورتوں کے فریب وچال، حسن وجمال نعمت کے ساتھ ساتھ آزمائش الہٰی، عبرتیں، حکمتیں، مواعظ و نصائح، انسانی عوارض و حوادث، بشری لغزشیں، صبر و استقامت اور رضا و تسلیم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف،رحم و کرم اور بخشش ومغفرت کی اَن گنت کرشمہ سازیاں ہیں اور جس دِلچسپ اور خوب صورت انداز میں پیش کی گئی ہیں، وہ رہتی دنیا تک کے لیے انسانیت کے لیے مشعلِ راہ اورمینارۂ نور ہیں۔ اس حسین وعجیب داستان میں معاشرے کے ہر فرد کے لئے ایک بہترین سبق موجود ہے جو خاندان کی اکائی اور رشتہ داریاں نبھانے سے لے کر ایوان اقتدار تک کے ہر معاملے کو سلجھانے میں احسن کردار اداکرسکتا ہے ۔ اس واقعہ میں جس قدر عبرتیں، حکمتیں اور مواعظ و نصائح ودیعت ہیں، دوسرے کسی واقعہ میں یکجا میسر نہیں ہیں۔درحقیقت یہ واقعہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے عجیب ،دلکش اور زمانہ کے عروج و زوال کی زندہ یادگار ہے ، یہ ایک فرد کے ذریعہ قوموں کے بننے اور بگڑنے ،گرنے اور اُبھرنے کی ایسی بولتی ہوئی تصویر ہے جو کسی تشریح و توضیح کی محتاج نہیں رہتی، یہ بدوی اور خانہ بدوش قبیلہ سے ایک ایسے فردیگانہ اور انمول موتی کی حیرت زار تاریخ ہے جس کو خدا ئے تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کے اعجاز نے اس زمانہ کی بڑی سے بڑی متمدن قوم کی رہنمائی اور ان پر حاکمانہ اقتدار کے لئے چن لیا تھا اورشرفِ نبوت سے نوازا تھا۔ قرآن کریم تو رات کی طرح داستان گوئی یا محض اشخاص و اقوام کے تاریخی حالات کا مرقع نہیں ہے بلکہ وہ جن واقعاتِ تاریخی کو بیان کرتا ہے اس کے سامنے صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے اور وہ عبرت و موعظت اور تذکیر وپند کا مقصد وحید ہے ۔پس جبکہ یوسف علیہ السلام کے واقعہ میں بے نظیر عبرتیں اور بصیرتیں پنہاں تھیں مثلاً رشد وہدایت کی اہمیت، ابتلاء اور آزمائشوں پر صبر و استقامت،رضا و تسلیم کے مظاہرے ، افراد واقوام کے عروج و اقبال کے وقائع،خدائے تعالیٰ کے عدل و رحم کی کرشمہ سازیاں، انسانی اور بشری لغزشیں اور ان کے انجام و مآل، عصمت اور ضبط نفس کی عجوبہ کاریاں، تو بلاشبہ وہ’’احسن قصص‘‘ ہے اور کتاب ماضی کا وہ حسین ورق جو اپنی شان زیبائی میں یکتا اور فرد کہلانے کا مستحق ہے ۔ (مآخذ ومراجع:تفسیر ضیاء القرآن، تفسیر صراط الجنان، تفسیر ابن کثیر، تفسیرروح البیان، کنزالایمان، قصص الانبیائ، قصص القرآن ،سیرت انبیاء کرام،مقصد بعثت انبیائے کرام ، سیارہ ڈائجسٹ انبیاء نمبر)