کیوں تماشہ میں سربزم لگانا چاہوں دل کی ہر بات زمانے کو بتانا چاہوں اس کو خوشبو کی طرح ساتھ بھی رکھوں اپنے اور پھر اس کو زمانے سے چھپانا چاہوں ایسا نہیں کہ شاہ محمود قریشی جھیل میں کنکر پھینک کر چھپ گئے اور باقی دائرے شمار کر رہے ہیں محمد عباس مرزا نے پوسٹ لگائی ہے کہ پہلے شیریں مزاری نے وزیر خارجہ کی سرعام بے عزتی کی اور کل شبلی فراز نے کر دی ۔بھئی واہ کیا انداز حکومت ہے‘ مجھے یاد آیا کہ ایک لڑکے حفیظ نے ٹنڈ کروا لی تو وہ تماشا بن گیا۔ اس نے تو ٹنڈ اس لئے کروائی تھی کہ تازہ ہوا لگے مگر یہ کیا کہ شرارتی دوست باری باری اس پر ایک آدھ چپت رسید کر دیں اور تو اور حفیظ بے چارہ امتحان میں بیٹھا تو ممتحن بھی اس کے سر پر آ کر ٹنڈ کا نظارہ کرتا رہا۔ آپ اس مثال کو نامعقول ہی سمجھ لیں مگر تمہید تو مجھے کچھ باندھنا ہی تھی چلیں ٹنڈ نہ سہی زلف کی بات کر لیتے ہیں تو آپ کہیں گے: کسی ضابطے میں تو زلفوں کو لائو نہ الجھا رہے ہو نہ سلجھا رہے ہو چلئے اس پر بھی بات کرتے ہیں پہلے دو تین مزے مزے کی خبروں پر خامہ فرسائی کر لیتے ہیں مگر اس سے بھی پہلے احمد مشتاق کا شعر کہ’’ میں نے کہا کہ دیکھ یہ میں یہ ہوا یہ رات۔ اس نے کہا کہ میری پڑھائی کا وقت ہے‘‘۔ کہنے کا مطلب کہ خواہش صرف خوابی گھوڑے ہوتے ہیں اور ان پر سفر بھی محو خواب رہ کر کیا جا سکتا ہے۔ باتیں بنانے کو ہزار ہیں آپ چاہے بھنے ہوئے تیتر اڑاتے رہیں اور چاہے تو داستان امیر حمزہ سناتے رہیں۔ صداقت عباسی صاحب فرماتے ہیں کہ ان کی حکومت میں کوئی بھی بھوکا نہیں سوتا۔ اس میں غلط بھی کیا ہے کہ بھوکے کو نیند کب آتی ہے کہ بھوک زیادہ تنگ کرے آنتیں قل ہوا اللہ پڑھتی ہیں اور اگر یہ بھوک بچوں تک پھیل جائے تو خودکشی۔اللہ ایسا وقت نہ لائے مگر سرکاری اعداد و شمار میں ہی ان تین ماہ میں 29لاکھ نوجوان بے روزگار ہو چکے ہیں۔یہ بہت خوفناک بات ہے جو نوجوان بے روزگار ہو جاتا ہے وہ پیٹ کی آگ بجھانے کو کچھ بھی کر سکتا ہے: پنج رکن اسلام دے تے چھینواں ہے گا ٹک جے نہ ہووے چھینواں تے پنجو جاندے مک کس محبوبیت سے اپنے خان صاحب فرما رہے ہیں کہ معاشی ترقی کیلئے نوجوانوں کو سٹیک ہولڈر بنایا جائے۔ شکر ہے آپ کو نوجوانوں کا خیال تو آیا، تری یاد آئی ترے جانے کے بعد‘قبلہ آپ انہی جوانوں اور نوجوانوں کی بنیاد پر اقتدار میں آئے مگر ان کا سارا جنوں اور جذبہ آپ نے ٹھنڈا کر دیا وہ بے چارے تو اس لیپ ٹاپ اور لیمپ سے بھی گئے جو شہباز شریف دیا کرتے تھے۔ پچھلے دو برسوںمیں آپ نے نوجوانوں کا نام تک نہیں لیا۔ وہ لڑکے اور لڑکیاں جو پی ٹی آئی کا چہرا مہرا ہوا کرتے تھے۔ ہمیں ملتے تھے تو ان کے اندر کام کرنے کا جذبہ دیکھ کر خوشی ہوتی تھی اب وہ کہیں نظر نہیں آتے۔ہمارا عشق ظفررہ گیا دھرے کا دھرا۔ کرایہ دار اچانک مکان چھوڑ گئے، کوئی اور ہی مخلوق آ کر پی ٹی آئی پر قابض ہو گئی۔ سارے کے سارے پیرا شوٹر۔ گراس روٹرز جو نظریاتی تھے اور تبدیلی کا خواب لے کر بیدار ہوئے منظر سے ہٹا دیے گئے یا خود بخود ہٹ گئے تب تو ان کا کبھی فون بھی نہیں آیا بے چارے شرمندہ ہیں جو شرمندہ نہیں ہوئے ڈھیٹ بن گئے: وہ میرا دوست ہے سارے جہاں کو ہے معلوم دغا کرے وہ کسی سے تو شرم آئے مجھے میں خیالی باتیں نہیں کر رہا کہ ایسے نوجوان تھے جو کئی منصوبے لے کر اس کیمپ میں آئے تھے کسی کو صحافت میں تبدیلی لانے کا جنون تھا کسی کو عوامی سطح پر کچھ کر نے کا ہمارے سامنے جذبوں اور آدرشوں سے بھرے گیت گائے۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ یہ وہ تھے جو کہتے تھے اج مرانچنے نوں جی کردا۔ بلکہ بہت سنجید تھے کہ نکلے ہیں وطن کا مقدر سنوارنے۔ چھوڑیے اس قصے کو دکھ ہوتا ہے ہم بھی کہتے تھے سچ کی آواز میں آواز ملائو آئو اور یہ خواب بنے ہیں لگائو۔ کاش میرے خان صاحب واقعتاً یہ نوجوان آپ کے سٹیک ہولڈر ہوتے۔ کوئی اٹھتا ہے تو کہتا ہے ہم مافیاز کو نہیں چھوڑیں گے۔ بندہ پوچھے کہ مافیاز نے تو آپ کو پکڑا ہوا ہے۔ کمبل آپ کو نہیں چھوڑ رہا۔اسی مافیاز کی پشت پر بیٹھ کر آئے ۔ پیسہ آپ نے بے وقت کر دیا۔ اس قدر کہ اب تو دس روپے فقیر بھی نہیں لیتا کہ 15روپے کا نان آتا ہے۔ ۔ قانون نامی چیز کہیں بھی پائی نہیں جاتی۔سچ مچ برا وقت اکیلا نہیں آتا۔ رہی سہی کسر کوڈ 19نے نکال دی۔ چلو اتنا بھی کافی ہے درخت لگائو۔ موج اڑائو اور ہوا کھائو۔ دوست کہیں گے ’’اور سنائو؟‘‘: پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی اب کسی بات پر نہیں آتی جو تماشہ اس وقت لگا ہوا ہے وہ چھپ کیسے سکتا ہے۔ وہی عارف نظامی کی زبان میں کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔ لے دے کے حکومت کے پاس سب سے بڑا ایشو عثمان بزدار کا ہے کہ انہیں رہنا چاہیے یا نہیں۔ آپ ذرا غور تو کریں کہ حکومت کے سارے عبقری غور کس پر فرما رہے ہیں۔ اگر میری بات پر یقین نہ آئے تو 20اگست کا 92نیوز پڑھ لیں۔ ہائی فائی ٹیسٹنگ میں اسد عمر فواد چودھری، غلام سرور خان ،اعجاز شاہ اور فخر امام نے عثمان بزدار پر سخت تنقید کی جبکہ عمران خان نے بزدار صاحب کا حسب معمول دفاع کیا۔ کیا آپ کو وہ کہانی یاد نہیں آئی کہ جب ایک شہزادہ شہزادی کو جن کی قید سے چھڑانے کیلئے کوہ قاف کے لئے نکلتا ہے یوں پتہ چلتا ہے کہ جن کی جان تو ایک طوطے میں ہے جو کسی جادو گر کے پنجرے میں قید ہے۔ باقی کہانی آپ خود کہیں سے ڈھونڈ کر پڑھ لیں کہ کالم کہانیوں کیلئے نہیں ہوتے۔چلیے الماس شبی کے خوبصورت شعر کے ساتھ اجازت: بھول جانے کی اس کو عادت ہے اس نے مجھ کو بھلا دیا ہو گا