دُکھوں اور اذیّتوں سے بھری اس دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے‘ وہ کچھ ایسا غلط نہیں ہوتا‘ ٹھیک ہی ہوتا ہے۔شاید اسی لئے اسپین کے مشہور صوفی حضرت محی الدین ابن العربی نے فرمایا تھا کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ ٹھیک ہی ہو رہا ہے۔ایک شخص جب کسی دوسرے پر ظلم کر رہا ہوتا ہے تو اس لئے کہ دوسرے نے بھی کسی نہ کسی پر ظلم کیا ہوتا ہے۔دنیا کی زمین پہ ہم جو کچھ بوتے ہیں آخر آخر کو وہی کچھ ہمیں کاٹنا پڑتا ہے۔یہ الگ بات کہ ہم پر جب ظلم ہوتا ہے تو ہم اپنے کرتوتوں کو بھول چکے ہوتے ہیں اور خود کو صرف مظلوم سمجھتے ہیں۔خدا وند تعالیٰ نے زندگی کو جب خلق کیا تو ساتھ ہی عدل کامیزان بھی خلق کر دیا۔اب یہی میزان یہی ترازو ہماری زندگیوں میں اپنے کرشمے دکھاتا رہتا ہے اور ہم نہیں سمجھ پاتے کہ جو کچھ برا بھلا ہو رہا ہے وہ کیوں ہو رہا ہے اور کون کر رہا ہے۔ دنیا میں اور اس کے مختلف شعبوں اور گوشوں میں جو انتشار اوور افراتفری ہے‘ وہ ہمارے ہی بوئے ہوئے کانٹوں کا شجر ہے جن سے ہم لہولہان ہو رہے ہیں۔ہم اپنی تکلیفوں اور اذیتوں کے اسباب کو باہر ڈھونڈتے ہیں اور اس کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہراتے ہیں حالانکہ وہ اسباب ہمارے اپنے اندر‘ ہمارے ماضی میں اور ہم اپنے اعمال ہی میں چھپے ہوتے ہیں۔مگر وہ ہمیں نظر نہیں آتے اس لئے کہ فطرت آدمی کی ایسی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے گناہوں اور غلطیوں پر مشکل ہی سے نظر ڈالتا ہے۔میزان عدل اس کے اندر موجود ہی نہیں تو کیسے اپنے آپ کو قصوروار ٹھہرائے۔لیکن دنیا میں جو کچھ ہوتا آیا ہے اور آج بھی جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس میں میزان عدل ہی کام کر رہا ہے۔جہاں تک کہ بیماریاں‘ پریشانیاں ‘ تفکرات اور ہر قسم کے عذاب وہ سب ہمارے ہی کیے دھرے کا نتیجہ ہوتا ہے۔پس دوسروں کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے اپنے آپ کا جائزہ لینا اور اپنے کیے دھرے اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا نہ بھولو۔خدا نے تمہیں گناہوں اور غلطیوں کی آزادی دے رکھی ہے تو اس نے توبہ کا دروازہ بھی کھول رکھا ہے۔توبہ اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا اور خدا سے رجوع کرنا اور اس سے معافی چاہنے ہی کا نام ہے۔ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے اور وہ چاہنے کے باوجود تقویٰ کا راستہ اختیار نہیں کر پاتا جو کہ مقصود دین و مذہب ہے۔خدا نے عقل اور ضمیر انسان کے اندر رکھ دیے ہیں‘ انسان چاہے تو ان کی مدد سے خود کو بھٹکنے سے روک سکتا ہے‘ خدا سے معافی چاہ سکتا ہے۔خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہیں خداوند تعالیٰ نیکی اور راستی کی طرف چلنے اور اپنے گناہوں کو ترک کرنے کی توفیق دے دیتا ہے۔یہ بھی عجیب بات ہے کہ جب آدمی کو توفیق ملتی ہے تو وہ اپنے ظاہر کو بدلتا ہے‘ باطن کی طرف توجہ نہیں کرتا۔اس لئے کہ باطن کو بدلنے کے لئے آدمی کو ایک باطنی آنکھ درکار ہوتی ہے جو اندر ہی اندر خود احتسابی کی نیت سے اپنے احوال کا جائزہ لے اور خود کو دوسروں کے لئے مفید بنانے ‘ ان کی خیر خواہی کی طرف مائل کرتے اور اپنے شر سے اوروں کو محفوظ رکھے۔ غور سے دیکھا جائے تو انسان کے اندر تضادات ہی تضادات ہیں۔وہ مختلف کیفیتوں سے گزرتا رہتا ہے اکی لمحے میں وہ کچھ ہوتا ہے اور اگلے لمحے میں کچھ اور۔محبت میں حسد کا جذبہ چھپا ہوتا ہے اور انسان دوستی کی آڑ میں بسا اوقات خودغرضی نے ڈیرے ڈالے ہوتے ہیں۔ان ہی تضادات میں زندگی کی رونقیں ہیں اور ہمارے مراسم و تعلقات کی کشیدگی اور بہتری کے سارے راز پوشیدہ ہیں تو اصل چیز یہ ہے کہ آدمی زندگی کو سمجھے اور زندگی کو اسی وقت سمجھا جا سکتا ہے جب آدمی اپنے آپ کو سمجھے۔آج ہماری معاشی ضرورتوں نے ہمیں اس درجہ برا فروختہ کر رکھا ہے کہ غورو فکر کی ہم میں نہ صلاحیت ہے اور نہ اتنا وقت۔تو پھر نجات ممکن ہے؟ پرانے معاشرے میں کہانیاں حکایتیں افسانے اور داستانیں تھیں جو انسان کو نہایت سہولت سے زندگی کی بہت سی حقیقتیں سمجھا دیتی تھیں۔ہم شیخ سعدی اور مولانا روم کی حکایتیں پڑھ کر وہ کچھ جان لیتے تھے وہ کچھ سیکھ لیتے تھے جو کسی دوسری صورت میں ساری زندگی نہ سیکھ پاتے۔ہر موڑ پر زندگی کے یہی حکایتیں کام آتی تھیں ۔ہماری رہنمائی کرتی تھیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جو تبدیلیاں ثقافت اور تہذیب و معاشرت میں آتی گئیں اس نے عظیم حکمتوں کا خزانہ ہم سے چھین لیا اب ہم ہیں‘ ہمارے بچے ہیں اور موبائل فون ہیں۔واٹس اپ‘ فیس بک اور مسینجر ہیں ،جن پہ اخلاق باختہ ویڈیوز کی بھر مار ہے اور گناہوں کی طرف دھکیلنے والی ان ایپلیکشنز نے ہمیں ذہنی‘ قلبی اور جنسی انتشار و بے اطمینانی میں گرفتار کر رکھا ہے۔ناصحوں اور مبلغین نے بھی یہ کہنا اور تنبیہ کرنا چھوڑ دیا ہے کہ اس فتنے سے بچو۔تمہارے گھروں کو اس فتنے نے کن عذابوں میں گرفتار کر رکھا ہے تم نہیں جانتے ہاں اب ناصحوںاور مبلغوں کے ویڈیوز بھی اسی فیس بک اور یو ٹیوب پر دستیاب ہیں۔حیا اور بے حیائی یکجا ہو گئے ہیں۔گمراہی اور ہدایت کی باتیں سب آس پاس ہی ہیں۔قرآنی آیات اور احادیث و روایات کے فوراً بعد اداکارائوں اور اداکاروں کے اختلاط کے مناظر آ جاتے ہیں۔یہ کیسا زمانہ ہے؟ یہ ایسا زمانہ ہے جسے دور فتن کہا گیا ہے۔فتنوں کا زمانہ اور فتنہ وہ ہے کہ اگر اسے دبانے کی کوشش کرو تو وہی فتنے اندر سے نکل آئیں اور پھیل جائیں۔یہ زمانہ وہ ہے جس کے بارے میں کہا گیا کہ اس زمانے کو پائو تو اپنے ایمان کی حفاظت کے لئے جنگلوں اور ویرانوں میں نکل جائو اور نہیں نکل سکتے تو اپنے گھروں میں مضبوطی سے جم کر بیٹھے رہو۔ یہ زمانہ راحتوں سے زیادہ اذیتوں کا ہے۔جسم کو راحت ہے اور قلب و ذہن کو اذیت ہی اذیت ہے ہم سمجھتے ہیں کہ اگر حکومت و سیاست کی اصلاح ہو جائے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔سب کچھ اچھا ہو جائے گا۔اول تو جب سب کچھ بگڑا ہوا ہے تو حکومت اور سیاست کیسے اچھی ہو جائے گی۔دوم جب سب کچھ بگڑا ہوا ہے تو اسے کوئی حکومت اچھا نہیں کر سکتی جب تک ہم خود کو اچھا نہ بنا لیں اور خود کو اچھا کیسے بنائیں جبکہ ہم اپنے بارے میں اچھا ہونے ہی کی رائے رکھتے ہیں۔اگر ہم دل سے خود کو برا سمجھتے تو اچھا بنانے کی کوشش کرتے۔کوشش میں ناکامی ہوتی تو خداوند تعالیٰ سے رجوع کرتے اسی سے کہتے کہ اے مالک! ہمیں اچھا کر دے کہ ہم اچھے نہیں ہیں۔شاید پھر خدا کی رحمت اترتی اور سب کچھ جو برا ہے اچھا ہی ہو جاتا۔