سنا ہے الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک خود مختار ادارہ ہے لیکن گذشتہ روز پبلک اکائونٹس کمیٹی کے ممبران نے سیکرٹری الیکشن کمیشن عمر حمید کو بلا کر نہ صرف سخت سرزنش کی بلکہ انہیں عمران خان کو نوٹس جاری کرنے کا حکم دے دیا۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن بار بار کہتے رہے کہ وہ ہر کام قانون کے دائرے میں رہ کر ہی کر سکتے ہیں مگر چئیرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی نور عالم خان نے کہہ دیا کہ پبلک اکائونٹس کمیٹی آپ کو حکم دیتی ہے کہ آپ عمران خان کو نوٹس جاری کریں ۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس شروع ہوا تو ممبران کمیٹی چودھری برجیس طاہر، ڈاکٹر نثار چیمہ،شیخ روحیل اصغر، شاہدہ اختر علی، نزہت پٹھان اور چئیرمین نور عالم خان نے سیکرٹری الیکشن کمیشن پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ پہلا سوال یہ تھا کہ جب عمران خان خیبر پختونخواہ کا ہیلی کاپٹر استعمال کرنے کے عوض سات کروڑ روپے کے نادہندہ ہیں تو انہیں الیکشن کیوں لڑنے دیا جا رہا ہے۔ مثالیں دی گئیں کہ پرویز رشید کو پنجاب ہائوس کے ایک کمرے کے واجبات ادا نہ کرنے کی وجہ سے الیکشن نہیں لڑنے دیا گیا۔برجیس طاہر نے کہا کہ مجھے پندرہ سو روپے کی عدم ادائیگی پر روک دیا گیا تھا،عمران خان کو خصوصی رعایت کیوں دی جا رہی ہے۔ برجیس طاہر نے نہایت سخت لہجے میں کہا میں الیکشن کمیشن سے پوچھتا ہوں کہ عمران خان سے نورا کُشتی کیوں کر رہے ہیں۔کیا عمران خان لاڈلا ہے؟ اس دوران سیکرٹری نے جواب دینے کی کوشش کی مگر سوالوں کی بوچھاڑ جاری رہی۔ شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ الیکشن کمیشن پندرہ بیس ہزار کا مجمع اکٹھا کرنے کر لینے کے باعث عمران خان سے ڈرتا ہے۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ اگر یہ ڈرتے ہیں تو کرسیاں چھوڑ دیں۔ انہوں نے کہا پندرہ بیس ہزار کا مجمع تو میں بھی اکٹھا کر سکتا ہوں ،عمران خان سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ نور عالم خان بار بار ایک ہی سوال کرتے رہے کیا آپ نے عمران خان کو نوٹس بھیجا ہے۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن جب بھی کچھ کہنے لگتے نور عالم ٹوک کر کہتے ہاں یا ناں میں جواب دیں۔ڈاکٹر نثار چیمہ نے کہا سیکرٹری الیکشن کمیشن جواب نہ دے کر ہماری توہین کر رہے ہیں ۔شیخ روحیل بولے میں انہیں اچھی طرح جانتا ہوں یہ آپ کے قابو نہیں آئیں گے۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن نہایت حوصلے سے اپنی توہین برداشت کرتے رہے اور پھر اجازت لے کر گویا ہوئے۔ کسی بھی امیدوار کے کاغذات نامزدگی جمع ہوتے وقت مخالف امیدوار آر او کے سامنے اعتراض اٹھا سکتا ہے لیکن کسی بھی حلقے میںعمران خان کے خلاف یہ اعتراض اٹھایا ہی نہیں گیا۔ شیخ روحیل نے ایک بار پھر مداخلت کی۔ کہنے لگے، آر او بھی تو انہی کی درخواست پر لگتے ہیں، یہ انہی کے ماتحت کام کرتے ہیں ، انہوںنے آر او کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیا۔ یہ سوال بھی ہوا کہ ہیلی کاپٹر فیس کا نادہندہ ہونے کے باعث عمران خان کو نا اہل کرنے کے عمل کا آغاز کیوں نہ ہوا۔ سیکرٹری صاحب نے کہا کہ نااہلی کا ریفرنس اسپیکر کی طرف سے آتا ہے، توشہ خان کا ریفرنس آیا ہوا ہے اس پر کارروائی جاری ہے،اگر یہ ریفرنس بھی آئے گا تو عمل کیا جائے گا۔ ایک فاضل ممبر دور کی کوڑی لائے ،کہنے لگے الیکشن کمیشن نے عمران خان کے خلاف از خود نوٹس کیوں نہ لیا۔ کسی نے سمجھایا کہ جناب الیکشن کمیشن کے پاس از خود نوٹس کا اختیار نہیں ہے۔ نور عالم خان نے ایک اور مدعا اٹھایا۔ انہوں نے کہا عمران خان جلسوں میں افواج پاکستان کے خلاف بیان بازی کر رہا ہے۔ اجلاس میں موجود سیکرٹری لا ء اینڈ جسٹس سے کہا گیا کہ وہ قانون ڈھونڈ کر دیں ،جس کے تحت افواج پاکستان کے خلاف بیان بازی کرنے والے شخص کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اسے نا اہل کیا جا سکے۔ سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس نے کتابیں کھول لیں لیکن انہیں ایسا قانون نہ مل سکا۔ نور عالم خان نے خود بھی قانون کی کتاب منگوا لی اور مختلف آرٹیکلز پڑھنے شروع کر دیے۔ بڑی مشکل سے انہیں ملتے جلتے کچھ آرٹیکلز ملے، آرٹیکل 5 اور آرٹیکل8 اے3 ۔ ان آرٹیکل میں ریاست سے وفاداری نہ کرنے والے کے بارے میں ذکر تھا۔ نور عالم خان نے سیکرٹری الیکشن کمیشن سے کہا کہ ان آرٹیکلز کے تحت عمران خان کو نوٹسز جاری کیے جائیں۔ سیکرٹری صاحب نے بات ختم کرنے کے لیے کہا کہ میں یہ تمام نکات اپنے کمیشن کے سامنے رکھوں گا اور قانون کے مطابق جو کچھ بھی ممکن ہوا وہ کیا جائے گا۔ نور عالم خان کو یہ بات بھی پسند نہ آئی اور سخت لہجے میں کہا یہ پبلک اکائونٹس کمیٹی آپ کو حکم دیتی ہے کہ آپ عمران خان کو نوٹسز جاری کریں۔ چودھری برجیس طاہر نے یہ تجویز بھی دی کہ اب اگر نو حلقوں میں عمران خان کے کاغذات نامزدگی منظور ہو ہی چکے ہیں تو ان حلقوں میں انتخابی نتائج کا اعلان نہ کیا جائے اور پہلے عمران خان کے ہیلی کاپٹر کیس میں نا دہندگی کا فیصلہ کیا جائے۔ ایک معزز فاضل ممبر نے سیکرٹری الیکشن کمیشن سے نہایت سخت لہجے میں سوال کیاکہ ایک شخص کو آپ ایک سے زیادہ حلقوں سے الیکشن لڑنے ہی کیوں دیتے ہیں، آپ کو نہیں معلوم کہ اس سے قوم کا پیسہ اور وقت برباد ہوتا ہے۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن عمر حمید نے دھیمے لہجے میں کہا کہ میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں مگر قانون سازی تو پارلیمنٹ نے کرنی ہے ۔ اگر یہ قانون بنا دیا جائے کہ ایک شخص ایک سے زیادہ حلقوں سے الیکشن نہیں لڑ سکتا تو اس قانون پر من و عن عمل ہو گا۔ مختصر یہ کہ پبلک اکائونٹس کمیٹی میں دو گھنٹے تک عمران خان کی نا اہلی کے لیے مختلف آپشنز پر غور وغوض ہوتا رہا۔ممبران کمیٹی کی کوشش تھی کہ کسی طرح عمران خان کو نو حلقوں میں ضمنی انتخابات میں حصہ لینے سے روکا جائے۔اس سلسلے میں سیکرٹری الیکشن کمیشن کو دبائو میں لانے کی حد درجہ کوشش کی گئی ۔ سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اگر خود مختار ادارہ ہے تو کیا ایک مخصوص جماعت کے ممبران اسمبلی اس خود مختار ادارے کے ایک نمائندے کو ایک فورم پر بلا کر اُس کے ساتھ ایسا رویہ اپنائیں گے اورکیا اس پر ایک مخصوص عمل کروانے کے لیے دبائو ڈال سکتے ہیں؟عمران خان مخالف قوتوں کی پوری کوشش ہے کہ میدان میں تو اس کا مقابلہ کرنا مشکل ہے کسی طرح اسے کھیل کے میدان سے ہی باہر کر دیا جائے۔ دیکھئے اس میں انہیں کامیابی ملتی ہے یا نہیں ۔