مجھ سا کوئی جہان میں نادان بھی نہ ہو کر کے جو عشق کہتا ہے نقصان بھی نہ ہو کچھ بھی نہیں ہوں میں مگر اتنا ضرور ہے بن میرے شاید آپ کی پہچان بھی نہ ہو میرے پیارے قارئین!بات آپ کے زاویۂ نگاہ سے بدل جاتی ہے اور پھر جب وہ نقطہ نظر بن جاتا ہے تو آپ اس کو اسی حوالے سے دیکھتے ہیں۔ بات ساری انداز فکر اور سوچ کی ہے جس کے پیچھے آپ کی نیت کارفرما ہوتی ہے۔ میرے پیش نظر مندرجہ بالا پہلا شعر ہے کہ جب کسی نے اس پر روشنی ڈالی اور کہا کہ واہ شاہ جی واقعتاً جب کوئی کہیں لو لگا لیتا ہے اور اس میں فنا ہو جاتا ہے تو وہ ہر نقصان سے گزر جاتا ہے اور وہ کسی کی رضا ٹھہرتی ہے‘ سنتے ہی میری آنکھیں روشن ہو گئیں۔ مجاز عشق حقیقی میں تبدیل ہوتا نظر آیا پہلے اقبال یاد آیا کہ: یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا آج جب میں گستاخانہ خاکوں کے ردعمل میں مسلمانوں کا ردعمل دیکھتا ہوں تو اس عشق کی تازگی محسوس ہو رہی۔ میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ چاند پر تھوکنے والوں کے چہرے گندگی سے اٹ جاتے ہیں۔ چمگادڑ کو اگر سورج نظر نہیں آتا تو اس کی کو کو رنگا ہی ہے سورج کا کوئی قصور نہیں۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ ناپاک جسارت حسد‘ بغض اور عداوت کا شاخسانہ ہے کہ وہ اس فقید المثال محمدیؐ نظام حیات کا نعمل البدل نہیں رکھتے اور وہ اس کی اثر پذیری سے خوف زدہ ہیں۔ یہ کام کب سے شروع ہے اور ان کی خواہش اور آرزو کبھی پوری نہیں ہو سکتی کہ وہ شیطانی منصوبہ رکھتے ہیں: وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا روح محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو ایک گیا گزرا مسلمان بھی اس محمدیؐ رمق کو ’’ متاع حیات‘‘ سمجھتا اور کسی کو ایک حرف بھی اس حوالے سے نہیں کہنے دیتا یعنی ’’باخدا دیوانہ باشد بامحمدؐ ہوشیار‘‘ بات بڑی سیدھی مولانا ظفر علی خاں نے کر دی تھی: نہ جب تک کٹ مروں میں خواجۂ یثرب کی عزت پر خدا شاہد ہے کامل مرا ایماں ہو نہیں سکتا حکومت کو جو کرنا چاہیے تھا اس سے کم کیا گیا ہے کہ فرانسیسی سفیر کو طلب کر کے احتجاج کیا گیا۔ کم ترین تقاضا تھا کہ ان سے سفارتی تعلقات ختم کر لئے جاتے۔ یہ لوگ بار بار ہمارے ایمان کو آزما رہے ہیں کہ کس حد تک ان کی حمیت باقی ہے اور ہم ہیں کہ فسق و فجور میں پڑے ہوئے ہیں۔ امریکہ کے غلام بنے بیٹھے ہیں اور کچھ متحدہ عرب امارات جیسے تو بالکل غیرت سے تہی ہو کر اسرائیل سے پینگیں بڑھا رہے ہیں۔ شیطان ان کی خوشحالی دکھا کر ان کو روز جزا سے بھی غافل کر چکا ہے۔ زندگی کی آسائشیں ان کا دین بن چکا ہے۔ مگر ابھی بہت لوگ ہیں جو آقاؐ پر جانیں نچھاور کر سکتے ہیں: ہیں ابھی شہر میں ناموس پہ مرنے والے جینے والوں کے لئے اتنا سہارا ہی سہی یہ سب کچھ قدرت ہمیں جھنجھوڑنے کے لئے کر رہی ہے۔فرانس کے صدر کی ہرزہ سرائی اسلام پر حملہ ہے۔ ترک صدر اردوان نے درست کہا ہے کہ یورپی ممالک گلوبل سسٹم میں اپنی حیثیت برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ اسلام دشمنی ختم کریں۔نبی پاک ﷺ سے محبت ہی تو ایمان ہے۔ دشمن کو پتہ ہونا چاہیے کہ محمدؐ کائنات کی تخلیق کا باعث ہیں اور مسلمان آپؐ کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے ہیں تو مومن بنتے ہیں۔ تبھی تو ایک ہندو شاعر نے اس حقیقت کو جان کر شعر کہا: زندہ ہو جاتے ہیں جو مرتے ہیں اس کے نام پر اللہ اللہ موت کو کس نے مسیحا کر دیا یہ جو فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے تو یہ مسلمانوں کا فطری ردعمل ہے۔ یورپ کو سوچنا چاہیے کہ ان کے یہ گھٹیا اور گھنائونے ہتھکنڈے ان کے باطن کی بدصورتی عیاں کر رہے ہیں۔ جب دلیل ختم ہوتی ہے تو ایسی قبیح صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ یہ اسلامو فوبیا ان کی کمزوری کو ظاہر کر رہا ہے۔ اصل میں جہاں سے ان کی جان جاتی ہے اور افسوس اس بات کا ہے کہ ہم اس کو فراموش کر چکے ہیں۔ وہ کتنے برسوں سے کبھی قادیانیوں کا پودا لگا کر اس شعلہ کو بجھا دینا چاہتے ہیں ۔ اقبال نے کہا تھا: صحبت پیر روم سے مجھ پر ہوا یہ راز فاش لاکھ حکیم سربجیب ایک کلیم سربکف اور اس غزل کا مطلع بھی تو ہمارے حکمرانوں کا نوحہ ہے کہ وہ ’’او آئی سی‘‘ قسم کی چیز رکھتے ہیں جسے OICکہتے ہیں: میر سپاہ ناسزا لشکریاں شکستہ صف آہ وہ تیرنیم باز جس کا نہ ہو کوئی ہدف اور ادھر تو اگر ہدف ہے تو اپنے ہی مسلمان آپس میں لڑتے ہیں اور پارہ پارہ ہو جاتے ہیں۔ فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں گستانہ خاکوں جیسی ناپاک جسارت کا جواب ہے کہ ہم حضورؐ سے محبت میں خود کوسچا اور پکا مسلمان بنا لیں۔ ان کی سیرت کو اپنائیں ان کی تعلیمات کو عام کریں۔اس رنگ میں رنگ جائیں: اے سعد محمدؐ سے لازم ہے محبت یوں ہر شخص کہے تجھ کو دیوانہ ہے دیوانہ کفار کی اسلام دشمنی بہت کچھ ظاہر کر رہی ہے ان کی خباثت اسی وقت ختم ہو گی جب ہم حضرت محمد ﷺ کے بتائے طریقے اپنا لیں گے۔ اپنے شعائر اپنائیں گے۔ اپنی شناخت اور اپنی پہچان اس کے سوا کوئی نہیں۔ آخر میں محمد عباس مرزا کی نعت کا شعر: تیریؐ تعظیم میں جب بال برابر ہو کمی سارے ہی شہر کے چہرے پہ لہو بولتا ہے ٭٭٭٭٭