میں تقریباً آٹھ دس روز تو سیاست سے دور پہاڑی علاقوں میں حسن فطرت کے نظاروں میں مگن رہا۔ واپسی پر دو روز کے لئے شہر اقتدار اسلام آباد میں اپنے آپ کو اپ ڈیٹ کرنے کے لئے رکا۔ اسی دوران چند ملاقاتیں بھی ہوئیں جن میں کچھ آن دی ریکارڈ اور کچھ آف دی ریکارڈ ہیں۔ اسلام آباد سے واپسی پر دوست احباب پوچھتے ہیں ہو کیا رہاہے؟وہ اس انداز سے پوچھتے ہیں جیسے میں سیدھا بنی گالہ کے مکین اعلیٰ سے ملاقات کر کے آ رہا ہوں جناب عمران خان سے کبھی دو چار بے تکلف ملاقاتیں ہوئی تھیں مگر اب بقول غالب ع راہ میں ہم ملیں کہاں بزم میں وہ بلائے کیوں اسلام آباد کی ملاقاتوں کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر طرف کنفیوژن ہی کنفیوژن ہے۔ حکومت سے معیشت سنبھل رہی ہے نہ پارلیمنٹ۔ معیشت کی نبضیں ڈوبنے لگتی ہیں تو حکومت کوئی سکیم لے کر آ جاتی ہے اور اس سے بڑی دلفریب امیدیں وابستہ کر لیتی ہے۔ جب وہ امیدیں پوری ہوتی نظر نہیں آتیں تو حکومت کوئی اور دھمکی آمیز قدم اٹھا لیتی ہے حکومت آئی ایم ایف کی ہدایت پر ایسا بجٹ لے کر آئی ہے جس سے کاروبار پھیلنے کے بجائے سکڑے گا۔ روزگار بڑھنے کی بجائے اور کم ہو گا۔ روپے کی قدر بہتر ہونے کی بجائے ابتر ہو گی۔ یوں روپیہ ڈوبتا اور ٹکیسوں کا بوجھ بڑھتا جائے گا۔ قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کی ملک واپسی پر جناب نعیم الحق نے سنجیدگی کے ساتھ ملکی مفاد کے لئے کام کرنے اور معیشت کو سیاست سے ماوراء سمجھنے کی ضرورت پر زوردیا تھا اور بین السطور معاشی مفاہمت کی اہمیت کو اجاگر کیا تھا۔ قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے اپنی پارٹی کی داخلی مخالفت کے باوجود میثاق معیشت کی بات کی تو اسے مراد سعید جیسے جوش سے معمور نوجوانوں نے اسمبلی میں ایک گالی بنا دیا۔سٹاک مارکیٹ بعض شعبوں میں نچلی ترین سطح پر آ چکی ہے۔ گاہکوں سے ہر چھوٹی بڑی ڈیل کے لئے شناختی کارڈ کی طلبی نہایت ہی پیچیدہ اور قابل اعتراض ہے۔ سیمنٹ کے ڈیلرز اس حوالے سے سیخ پا ہیں سیمنٹ کے کاروبار کو گزشتہ روز شدید دھچکا لگا ہے اور ان کے سٹاک اپنی انتہائی نچلی سطح پر آ گئے ہیں ڈالر اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ ریٹ 157کے بعد اب 162ہو چکا ہے۔ حکومت کو ایمنسٹی سکیم سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوئے اس لئے وزیر اعظم آئے۔ روز ایمنسٹی اسکیم کے فضائل دھمکی آمیز طریقے سے بیان کرتے ہیں اور اس سکیم سے فیض یاب نہ ہونے کی صورت میں بھیانک انجام سے ڈراتے ہیں۔ مگر ان دھمکیوں کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آ رہا اور شہر اقتدار کی خبر بھی یہی ہے۔ موجودہ کنفیوژن کی نوعیت سمجھنے اور اس سے نجات حاصل کرنے کی ممکنہ صورت جاننے کے لئے ہم نے بنی گالہ کی طرف رجوع کیا۔ بنی گالہ کے پہاڑ کی چوٹی پر جناب عمران خان کا محل ہے مگر اس پہاڑ کے دامن میں سابق سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود کا کاشانہ بھی ہے۔ ہماری ڈاکٹر صاحب سے یاداللہ ہے۔ انہیں اسلام آباد کی اطلاع دی تو انہوں بااصرار گھر آنے کی دعوت دی۔ میں شام کو حاضر ہو گیا۔ یوں تو ڈاکٹر صاحب علم و ادب کا خزانہ ہیں اورمعیشت کے علاوہ تاریخ اور عالمی حالات پرگہری نظر رکھتے ہیں تاہم نے اپنی گفتگو کو صرف ملکی معیشت تک محدود رکھا۔ ڈاکٹر صاحب نے تقریباً ہر حکومت کے ساتھ سیکرٹری خزانہ یا ماہر معیشت کی حیثیت سے کام کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے امریکہ سے اقتصادیات میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ ڈاکٹر وقار مسعود محترمہ بے نظیر بھٹو کی ذہانت اور علمیت سے بطور خاص بہت متاثر ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ معاشی حالات کی مجبوریاں اپنی جگہ مگر بے نظیر بھٹو معیشت کی پیچیدگیوں اور باریکیوں کو خوب سمجھتی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ دسمبر 2007ء کو بے نظیر بھٹو کی شہادت سے غالباً دو ہفتے قبل میری ان سے اسلام آباد ایئر پورٹ پر تقریباً دو گھنٹے طویل ملاقات ہوئی۔ میری اور بے نظیر بھٹو کی پروازیں چھوٹ گئیں تھیں لہٰذا مفصل بات چیت کا موقع مل گیا۔ بے نظیر بھٹو اپنی اگلی سیاسی کامیابی کے لئے بہت پر امید تھیں۔ بے نظیر بھٹو نے ڈاکٹر وقار مسعود کو اگلی ٹرم کے لئے معاشی ایجنڈا تیار کرنے کو کہا جسمیں عام آدمی کو زبانی کلامی نہیں حقیقی طور پر خوش حال معیشت کے ثمرات سے بہرہ مند کرنے کے مواقع فراہم کئے جائیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ لگتا یہ تھا کہ بے نظیر بھٹو نے ماضی کی معاشی ناکامیوں سے سبق سیکھا تھا اور اس مرتبہ وہ بہت کچھ کرنے کا ارادہ رکھتی تھیں مگر قدرت نے انہیں اس کا موقع نہ دیا اور وہ 27دسمبر 2007ء کو ایک دارفانی سے کوچ کر گئیں۔ ڈاکٹر وقار مسعود نے میاں نواز شریف کے بارے میں بھی بڑے خوشگوار تاثرات کا اظہارکیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میاں صاحب نہایت گداز طبیعت رکھتے ہیں۔ وہ بالعموم گفتگو اور بحث مباحثے میں دھیمے پن کا ثبوت دیتے ہیں مگر نہ جانے کیوں وہ خواہی ناخواہی بعض اداروں سے جا ٹکراتے ہیں یہ ’’تصادم‘‘ نہ صرف ان کی ذات کے لئے بلکہ معیشت کے سفر کی سبک رفتاری کے لئے بھی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کے پہلے تین سالوں کو ڈاکٹر صاحب نے معاشی طور پر بہت مثبت اورپروفیشنل قرار دیا اور پھر ان کے ہاں بھی سیاست معیشت پر سبقت لے گئی۔ میں نے موجودہ حکومت کے بارے میں ڈاکٹر صاحب سے پوچھا تو ان کا کہنا یہ تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے خود سب کچھ غلط ملط کر رکھاہے۔ ان کے اپنے ذہن میں ترجیحات واضح نہیں۔ معیشت اسی وقت پھلتی پھولتی ہے جب سیاسی درجہ حرارت کنٹرول میں ہو۔ خوف و ہراس پھیلانے اور ڈرانے دھمکانے سے معیشت پھیلتی نہیں سکڑتی ہے۔ اس حکومت کو ترہیب کی بجائے ترغیب کا رویہ اپنانا چاہیے۔ برادرم اعجاز الحق حسب سابق نہایت محبت سے پیش آئے ان کا مشاہدہ اور تجزیہ یہ ہے کہ حکومت کے ہاں کنفیوژن ہی کنفیوژن ہے۔ اسے کوئی واضح راستہ سجھائی نہیں دے رہا۔ جناب اعجاز الحق نے کسی لگی لپٹی کے بغیر کہا کہ 10ماہ کی معاشی بدحالی کی سو فیصد ذمہ داری موجودہ حکومت پر ہے مگر وہ نیشنل اکنامک کونسل کی موجودگی میں نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل بنا کر اور اس میں آرمی چیف کو شامل کر کے اپنی معاشی ناکامی میں فوج کو بھی حصہ دار بنانا چاہتی ہے۔ فوج کو اس کمیٹی میں شمولیت سے اجتناب کرنا چاہیے۔ آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد مولانا فضل الرحمن کی کامیابی ہے مگر حکومت کے ساتھ مزاحمت کے بارے میں مولانا فضل الرحمن کے علاوہ کوئی اور یکسو نہیں۔ ہر پارٹی کا اپنا اپنا ایجنڈا ہے۔ معیشت کے ساتھ ساتھ داخلی استحکام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے مگر عمران خان ہر چیز سے بے نیاز ہو کر ابھی تک اپنی تمام تر توانائیاں اپوزیشن کو لتاڑنے اور للکارنے پر صرف کر رہے ہیں۔ اس پر ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کرنے کی دھمکی دے دی ہے جو بہت تشویش ناک ہے۔ سردست تو شہر اقتدار کی بڑی خبر کنفیوژن ہے۔ حکومت میں کنفیوژن ‘ اپوزیشن میں کنفیوژن‘ بزنس مینوں اور صنعت کاروں میں کنفیوژن۔ اسلام آباد سے پنڈی ہمارا جانا نہیں ہوا۔ اس لئے پنڈی والوں کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا کہ ان کے ہاںکنفیوژن ہے یا نہیں۔