اس کی لکھی ہوئی نعت پڑھی۔ویرانہ آباد ہونے لگا۔ ٹنڈ منڈ درختوں پہ کونپلیں پھوٹنے لگیں۔ ایک چمن جاگ اٹھا اور چہار سمت لہرانے لگا۔ قلب و جاں میں اور خیال و فکر کی وسعتوں میں بادِ بہاری۔ یہ دل اس دن کے لیے شاعر کا ہمیشہ شکر گزار رہے گا۔ فیض احمد فیض، انتظار حسین اور دیباچہ نگار اشفاق حسین سمیت سبھی متفق ہیں کہ رثائی ادب میں افتخار عارف کے تیور دوسروں سے مختلف ہیں۔ اس کے ہاں کربلا کا لہکتا ہو ااستعارہ درد و احساس اور خیال و فکر کی نئی جہات تخلیق کرتاہے۔یہ چند برس پہلے مرتب کی جانے والی کتاب ہے ’’شہرِ علم کے دروازے پر‘‘ اب اس کا نیا ایڈیشن چھپا ہے۔ افتخار عارف ان محبوب اور مقبول شاعروں میں سے ایک ہیں، جو ایک بار افق پر نمودار ہوں تو مستقل جگمگاتے ہیں۔ افتخار کے بعض اشعار ضرب المثل ہو گئے ہیں۔ مثلاً یہ کہ ’’چراغ سب کے بجھیں گے، ہوا کسی کی نہیں۔‘‘ فیض احمد فیض نے لکھا ہے: شاعر نے جدید مضامین و مطالب کی ادائیگی میں روایت کے خزینے سے یوں کسبِ فیض کیا ہے کہ تلمیح کو علامت اور علامت کو استعارے کا روپ دے کر نظم اور غزل دونوں کے لیے رمز و کنایہ کا نیا ساماں پیدا کیا ہے۔ اب سے پہلے عشق و طلب، ایثار و جاں فروشی، جبر و تعدی کا بیان، صرف منصور و قیس اور فرہاد و جم کے حوالے سے کیا جاتا۔ پھر جب گھر میں دارورسن کی بات چلی تو مسیح و صلیب کے حوالے بھی آگئے، لیکن المیہ ء کربلا کے محترم کرداروں کا ذکر بیشتر سلام اور مرثیے تک محدود رہا۔ صرف اقبال کی نگاہ وہاں تک پہنچی۔ خونِ حسین ؓ باز دہ کوفہ و شام خویش را۔۔۔یا قافلہ ء حجاز میں ایک حسین ؓ بھی نہیں۔ انتظار حسین نے اس پر صاد کیا ہے۔ ’’افتخار عارف کی جیت یہ ہے کہ ان کے یہاں واقعہ ء کربلا مجلس اور رسمی مرثیے کے حوالے سے موضوعِ شعر نہیں بنا۔ یہ شاعری ان کے باطن سے اٹھی ہے۔ سو یہاں عقیدت کا جذبہ رسمی اصناف کے واسطے سے نہیں آیا۔ تخلیقی تجربہ کی صورت طلوع ہوا ہے۔ پہلی بار اقبال کے یہاں کربلا نے تخلیقی سطح پر استعاراتی شکل پائی تھی۔ دوسری مرتبہ یہ واقعہ افتخار عارف کی شاعری میں گزرا ہے۔ مکان کو وہ گھر بنانے کی دعا کرتاہے تو یہ فرد کے المیے سے بڑھ کر ایک تہذیبی المیہ بنتا نظر آتا ہے۔ وہ ایک تہذیب تھی، جب آدمی من جملہ اور چیزوں کے، اپنے گھر سے پہچانا جاتا تھا۔ اب ہم مکانوں میں رہتے ہیں، فلیٹوں میں، اپارٹمنٹوں میں، کوٹھیوں میں۔ آج یہاں، کل وہاں، گھر کہاں ہے؟ مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے یہ محض کربلا کاسانحہ نہیں، جہاں شاعر کی فکر بے حدود پرواز کرتی ہے۔ حمد ہے، نعت اور مسلم تاریخ کے جید کرداروں کی یاد۔ خود اس نے لکھا ہے ’’میں نے بساط بھر ساری زندگی کوشش کی کہ میرے لہو میں گردش کرتی ہوئی جو سچائیاں ہیں، جن کا تعلق میرے عقیدے سے ہو، میرے ایمان اور عبادت سے ہو۔ میں نے آقا ختمی مرتبت، نبی ء رحمت، مصطفیؐ اور ان کے اہلِ بیتؓ سے اپنی غلامی کے رشتے کو امتیاز جانا۔جہاں تک ہو سکا، سچائی سے اپنے تعلق کو قلمبند کیا۔’’شہرِ علم کے دروازے پر، میری شاعری کا وہ انتخاب ہے، جو میرے عقیدہ و عقیدت کی نشاندہی کرتا ہے۔‘‘ کتاب کی پہلی ہی نظم شاعر کے اظہارپر مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہے۔ ’’ہوا کے پردے میں کون ہے، جو چراغ کی لو سے کھیلتا ہے‘‘ کوئی تو ہوگاجو خلعتِ انتساب پہنا کر وقت کی رو سے کھیلتا ہے کوئی تو ہوگا حجاب کو رمزِ نور کہتاہے اور پرتوں سے کھیلتا ہے کوئی تو ہوگا‘‘ ’’کوئی نہیں ہے کہیں نہیں ہے یہ خوش یقینوں کے، خوش گمانوں کے واہمے ہیں جو ہر سوالی سے بیعتِ اعتبار لیتے ہیں اس کو اندر سے مار دیتے ہیں‘‘ ’’تو کون ہے جو لوحِ آبِ رواں پہ سورج کو ثبت کرتا ہے اور بادل اچھالتا ہے جو بادلوں کو سمندروں پہ کشید کرتاہے اور بطنِ صدف میں خورشید ڈھالتا ہے وہ سنگ میں آگ، آگ میں رنگ، رنگ میں روشنی کے امکان رکھنے والا وہ خاک میں صوت، صوت میں حرف، حرف میں زندگی کے سامان رکھنے والا نہیں کوئی ہے کہیں کوئی ہے کوئی تو ہوگا‘‘ زندگی کے ہر نئے موڑ پر آدمی ہیجان اور اندیشوں کی زد میں ہوتا ہے۔ ایسی ہی ایک ساعت میں جنرل حمید گل مرحوم نے ناچیز سے کہا:چند دن کا وقفہ کرو، عمرہ کرنے چلے جاؤ۔معلوم نہیں، کیسے یہ خیال دل میں وارد ہوا کہ افتخار عارف سے ایک التجا کی: اپنی چند نعتوں کی نقول عنایت کر دیجیے۔برادرم جاوید چوہدری کے ہمراہ حجاز کا قصد کیا۔ ایک شب جدّہ میں بتائی۔ تین دن مکّہ مکرمہ میں۔ عشاء کی نماز کے بعد میدانِ عرفات کا رخ کرتے کہ صحرا کی ہوا سے گداز کشید کرنے کی آرزو پالیں۔اتفاق سے حافظ حسین احمد مل گئے؛چنانچہ محفل کا رنگ قدرے ظریفانہ سا ہو گیا۔ جدّہ سے جہاز میں سوار ہو کر مدینہ منورہ کا رخ کیا تو ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔سرکارؐکے دیار میں انہماک کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ انہماک پھیکا پڑنے لگا۔ مدینہ کے ہوائی اڈے پر اترے تو دل کو ویران سا پایا۔ خوف نے آلیا کہ دل میں شہرِ نبیؐ کا احساس جاگزیں نہ تھا،جیسا کہ ہونا چاہئیے۔برستے ہوئے بادلوں میں پیاس ہی پیاس۔ لٹے ہوئے مسافر نے گھبرا کر درود کا ورد شروع کیا۔ قلب و دماغ کچھ سنبھلے تو مگر پوری طرح نہیں۔ گاڑی رکوائی، سامان کھولا۔ افتخار عارف کی عطا کردہ نعتوں کا نسخہ نکالا اور پڑھنے لگا۔ نگاہِ داری ء بہار آرزو کے واسطے ہمارے نخلِ جاں کو بھی کوئی نگاہ دار دے تیرے کرم کی بارشوں سے سارے باغ کھل اٹھیں ہوائے مہر نفرتوں کا سارا زہر مار دے قیامتیں گزر رہی ہیں، کوئی شہسوار بھیج وہ شہسوار جو لہو میں روشنی اتار دے میرے امین آنسوؤں کی نذر ہے، قبول کر میرے کریم اور کیا، تیرا گناہگار دے رفتہ رفتہ دل ٹہرنے لگا۔ اتنے میں گاڑی مسجدِ نبویؐ کے قریب جا پہنچی۔ وہ دیار، جہاں کبھی سرکارؐ نے سجدے کیے تھے۔ اپنی امت کی رہائی کے لیے آخرِ شب آنسو بہائے تھے۔ عمر بھر، جہاں امام مالکؓ ننگے پاؤں چلا کرتے۔عصر کی نماز پڑھی اور دل ٹھکانے پہ آگیا۔ اس کی لکھی ہوئی نعت پڑھی۔ویرانہ آباد ہونے لگا۔ ٹنڈ منڈ درختوں پہ کونپلیں پھوٹنے لگیں۔ ایک چمن جاگ اٹھا اور چہار سمت لہرانے لگا۔ قلب و جاں میں اور خیال و فکر کی وسعتوں میں بادِ بہاری۔ یہ دل اس دن کے لیے شاعر کا ہمیشہ شکر گزار رہے گا۔