یہ شخص امریکی سفارت کار ہے اور انگریزی کے علاوہ عربی، فرانسیسی، ترکی اور جرمن زبانوں پر عبور رکھتا ہے۔ اس کیبنیادی تعلیم کا مرکز و محور، مشرقِ وسطیٰ کی سیاست، معاشرت اور معیشت رہی ہے ۔ اس نے جانز ہوپکنز (Johns Hopkins University) سے مشرقِ وسطیٰ کی معاشرت و معیشت میں ایم اے کیا اور پھرقاہرہ کی امریکی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب کی تعلیم حاصل کی۔ اس نے اپنی تمام سفارت کاری کی نوکری مشرقِ وسطیٰ میں گذاری۔ جب عراق میں امریکی افواج داخل ہوئیں تو یہ ازمیر، قاہرہ، الجزائر، کیمرون اور بحرین میں سفارت کا تجربہ رکھتاتھا۔ اسی لیے جب 16مئی 2003ء کو امریکہ نے’’ عراق‘‘ میں ایک عارضی اتحادی حکومت (Coalition Provisional Authority) بنائی تو اسے سینئر ایڈوائزر بنا دیا گیا۔ عرب بہار کا آغاز ہوا تو باراک اوبامہ نے اسے دسمبر 2010ء میں ’’شام ‘‘میں سفیر لگا دیا۔ اوبامہ کو اسے سفیر لگانے کی اتنی جلدی تھی کہ اس نے سینٹ سے بھی منظوری نہ لی بلکہ اسے خصوصی اختیارات کے تحت ان دنوں میں ’’شام‘‘ بھیجا جب سینٹ کی چھٹیاں تھیں۔لیکن اسے ڈیڑھ سال بعد ہی شام سے واپس بلا لیا گیا۔اس کہ وجہ یہ تھی کی بشار الاسد کی اقلیتی علوی حکومت نے اس پر الزام عائد کیاکہ یہ اس حکومت کے خلاف اٹھنے والی اسّی فیصد سنی اکثریت کی تحریک کی حمایت کرتا ہے۔ اس پر حکومت نے اپنے حمایتی مسلح افراد کے ذریعے حملہ بھی کروایااور شام کے سرکاری ٹیلی ویژن پر روزانہ اس کے خلاف پراپیگنڈہ کیا جاتارہا۔ شام کی حکومت کے صبح و شام پراپیگنڈے کی وجہ سے حکومت مخالف ہونے والے ہنگاموں اورجلوسوںمیں اس کے حق میں اسقدرنرم گوشہ بیدار ہواکہ جب وہ ایک دن ’’حمہ‘‘ گیا تو بشار الاسد کے خلاف نکلنے والے جلوس میں عوام نے اسے گھیر کراس کے حق میں نعرے لگائے۔ ایک دن وہ مشہور کیمونسٹ رہنما ’’حسان عبدالعظیم‘‘ سے ملنے چلا گیا، جو مدتوں سے شام میں ایک جمہوری حکومت کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہاتھا تو وہاں موجود حکومتی گروہ کے افراد نے اس پر انڈے اور ٹماٹر پھینکے۔امریکہ نے اسے واپس بلا کر اس کی نامزدگی مصر میں سفیر کی حیثیت سے کر دی، لیکن امریکی اسٹبلشمنٹ یا ڈیپ سٹیٹ (Deep State) نے اسے عوام دوستی کی یہ سزا دی کہ اسے مصر نہ جانے دیا گیااور 4فروری 2014ء کو اسے 56سال کی عمر میں ہی جبری ریٹائر کر دیا گیا۔ ریٹائرمنٹ کے چار سال بعد جب دسمبر2018ء میں ڈونلڈ ٹرمپ نے شام سے اپنی افواج واپس بلائیںتو اس نے اس ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا اور اسے بہترین اقدام قرار دیا۔ ’’رابرٹ فورڈ‘‘ ان دنوں ییل(Yale) یونیورسٹی کے شعبہ عالمی معاملات (Global Affairs) میں مشرقِ وسطیٰ کے انسٹیٹوٹ کا سینئر فیلو ہے اور اپنے غیرجانبدارا نہ اور بے لاگ روّیے کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔ رابرٹ فورڈ اگرچہ ڈیموکریٹک امریکی صدور کا منظورِ نظر رہا ہے ، لیکن یہ اپنی غیر جانبدار سوچ اور تیس سالہ سفارتی زندگی میں امریکہ کی مشرقِ وسطیٰ اور دیگر علاقوں میں گندی فوجی مداخلت پر ہمیشہ نکتہ چین رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے ڈونلڈ ٹرمپ کے دو اقدامات کو بہت سراہا، ایک یہ کہ اس نے عراق اور افغانستان سے امریکی افواج کو واپس بلایا اورایسا کرتے ہوئے اس نے امریکی اسٹبلشمنٹ کی ایک بھی نہ سنی اور دوسرا اہم قدم یہ کہ امریکی حکومت دنیا بھر کے ممالک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے ایک سرمایہ فراہم کرتی تھی جسے (Democracy Promotion Funding) کہتے تھے، ٹرمپ نے اس میںسے ایک ارب ڈالر کی کمی کر دی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان سمیت کئی ممالک کی کاسہ لیس این جی اوز پسِ پردہ چلی گئی تھیں اور ٹرمپ کو گالیاں دیتی رہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے چار سالہ دور حکومت میں بار بار یہ بات دہرائی کہ ہم ان نہ ختم ہونے والی جنگوں کو مزید جاری نہیں رکھیں گے۔ اس نے اپنے دور میںیہ پالیسی بھی بنائی کہ ان جنگ زدہ ممالک میں امریکہ جمہوریت، انسانی حقوق اور ماحولیات کے نام پربھی مزید تعلق نہیں رکھے گا۔ اب یہ تمام ممالک اپنی زندگی آزادانہ گزاریں اور اپنے حالات کواپنی مرضی سے خود ٹھیک کریں۔ ٹرمپ کے مطابق امریکہ جب ان ملکوں میں ترقیاتی کاموں پر اپنا سرمایہ لگاتاہے تو پھرامریکی سینٹر چاہتے ہیں کہ ان ملکوں میں امریکہ جیسی جمہوریت، آزادی اور معاشرتی ماحول ہونا چاہیے۔ رابرٹ فورڈنے جوبائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد25جنوری2021ء کو شام میں امریکی حکمتِ عملی کی ناکامی پر ایک طویل مضمون لکھاہے۔ جس کا عنوان ہے "US Strategy in Syria has failed"۔ اس طویل مضمون میں اس نے شام کے معاملے میں امریکہ، روس، عراق اور ایران کے خفیہ اور واضح گٹھ جوڑ کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔عالمی اور علاقائی قوتوں کے اس اتحاد کی وجہ سے ’’شام‘‘ کا عام شہری برباد ہوگیاہے۔وہ لکھتا ہے کہ روس اور ایران کئی دہائیوںسے شام میں موجود تھے اور دونوں ملکوں کے بشار الاسد اور اس کے باپ حافظ الاسد کی افواج اور دس فیصد اقلیتی علویوں سے مضبوط روابط تھے۔ جب عرب بہار کے دوران شام میں ہنگامے شروع ہوئے تو اس کے پڑوس عراق میں ایک ایسی حکومت قائم تھی جسے بیک وقت امریکہ اور ایران کی حمایت حاصل تھی اور امریکہ عراق جیسی کیفیت شام میں بھی چاہتا تھا۔ اس راستے میںرکاوٹ صرف ایک تھی کہ جن کردوں کو امریکہ نے ’’قوات سوریا الدیمقراطیہ‘‘ (Syrian Democratic Forces) کے نام پر منظم کیا تھا، ان کا کیا کیاجائے۔ عراق کے کردوں کو تو ایک جانب داعش سے لڑا دیا گیا اور ساتھ ہی ان پرترکی اور قطر کے ذریعے مزید کمزور کیا گیا، اور اب یہی فارمولہ شام میں بھی چل سکتا تھا۔ داعش کو پہلے امریکی مدد سے منظم کیا گیاتھا لیکن اسے ایک عفریت بننے سے روکنے کے لیے اس کے خلاف ایران اور سعودی عرب سمیت سب کو ہی اکٹھا کیا گیا اوریوںداعش سے جتنا کام لینا تھا لے کر اس تباہ شدہ عراق و شام کے علاقے کی تھانیداری روس، ایران، امریکہ اور بشار الاسد میں باہم تقسیم ہوگئی ۔ رابرٹ فورڈ لکھتاہے کہ ’’جب میںشام میں سفیر تھا تو میرے ماتحت کام کرنے والے امریکی سفارت کار اور ایران کے قاسم سلیمانی کے پاسدارانِ انقلاب کے کئی کمانڈر ایک ساتھ اپارٹمنٹ میں رہتے تھے۔ اس دوران مجھے اندازہ ہوا کہ شام میں عوام کے خلاف ایک بدترین اتحاد قائم ہوچکا ہے، جو ایک دن یہاں کے شہروں کو تباہ اور عوام کو دربدر کر دے گا۔‘‘ رابرٹ فورڈ کے مضمون سے چند دن پہلے ایران کے سابق صدر اور آیت اللہ خمینی کے ساتھی علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کی بیٹی فائزہ ہاشمی نے اپنے والد کی ایک آڈیو ریکارڈنگ سنوائی ہے جس میں اس نے بشارالاسد پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے شام کے شہریوں پر کیمیائی ہتھیار استعمال کئے ہیں۔ فائزہ ہاشمی نے بتایا کہ پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ قاسم سلیمانی میرے والد کے پاس آئے اور شام میں ایرانی مداخلت کے لیے مشورہ مانگا اور میرے والد نے کہا ایرانی کسی طور بھی شام میںنہ جائیں، ورنہ وہاں بہت خون خرابہ ہوگا۔ فائزہ ہاشمی نے کہا کہ انہوں نے میرے والد کی بات نہ مانی اور میں سمجھتی ہوں کہ ایرانی حکومت شام کے پانچ لاکھ شہریوں کی موت کی ذمہ دار ہے ۔ شام کی اس دس سالہ جنگ میں آپ کوبشارالاسد کے علویوں کا دنیا بھر میںکوئی مہاجر کیمپ نظر نہیں آئے گا۔ آج وہ سب چین سے ہیں کیونکہ تمام عالمی اور علاقائی طاقتیں ان کے ساتھ تھیں،لیکن0 6لاکھ شامی مہاجر ہو کردربدر ہیں، دس لاکھ یتیم ہوچکے ہیں اور چھ لاکھ جاں بحق۔ ترکی اردن اور یورپ کے ممالک میں شامی مہاجرین میں سے آپ کو کوئی ایک بھی بشار الاسدکا حامی نہیں ملے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ ایک سال سے اس آگ کو ٹھنڈا کیا تھااور شام میں امن نظر آرہا تھا،لیکن جوبائیڈن کے اقتدار میں آنے کے اگلے ہی روز الولیدکے بارڈر سے عراق میں موجود امریکی افواج کے چالیس ٹرک اور بکتر بند گاڑیاں شام کے ’’دیرالزور‘‘ اور ’’حساکہ‘‘ کے علاقے میں داخل ہو گئیں ہیں۔شام میںایک بار پھر جنگ چھانے والی ہے۔ خون بہنے والا ہے۔ عام آدمی کا خون۔ بے یار و مددگار انسانوں کا خون۔