علامہ اقبال نے مجاہدین اسلا م کے مزاج خدا پر ستی کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا۔ یہ غازی تیرے پُر اسرار بندے جنھیں تُو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا سِمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی اسلام میں شہادت فی سبیل اللہ کو وہ مقام حاصل ہے کہ نبوّت و صدیقیت کے بعد کوئی بڑے سے بڑا عمل بھی اس کی گرد کو نہیں پاسکتا۔ اسلام کے مثالی دور میں اسلام اور مسلمانوں کو جو ترقی نصیب ہوئی وہ ان شہداء کی جاں نثاری و جانبازی کا فیض تھا، جنھوں نے اللہ رَبّ العزّت کی خوشنودی اور کلمۂ اِسلام کی سربلندی کے لئے اپنے خون سے اسلام کے سدا بہار چمن کو سیراب کیا۔ شہادت سے ایک ایسی پائیدار زندگی نصیب ہوتی ہے ، جس کا نقشِ دوام جریدۂ عالم پر ثبت رہتا ہے ، جسے صدیوں کا گرد و غبار بھی نہیں دُھندلا سکتا، اور جس کے نتائج و ثمرات انسانی معاشرے میں رہتی دُنیا تک قائم و دائم رہتے ہیں۔ کتاب اللہ کی آیات اور رسول اللہ صلی اللہ علی وآلہ وسلم کی احادیث میں شہادت اور شہید کے اس قدر فضائل بیان ہوئے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے اور مقامِ شہید کی فضیلت میں شک و شبہ کی ادنیٰ گنجائش باقی ہی نہیں رہتی۔ شہید کے فضائل اور مقامات بے شمار ہیں،سورۂ بقرہ کی آیت154میں فرمایا گیا ہے جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں ان کے بارے میں یہ نہ کہو کہ وہ مردہ ہیں؛بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تمہیں خبر نہیں۔سورۂ آل عمران کی آیت 169تا171میں شہداء کی حیات برزخی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیاہے کہ ان کو مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ تو زندہ ہیں، اپنے پروردگار کے مقرب ہیں، کھاتے پیتے ہیں،وہ خوش ہیں ۔۔۔ ان پر بھی کسی طرح کا خوف واقع ہونے والا نہیں اور نہ وہ مغموم ہوں گے ۔وہ اللہ کی نعمت اور فضل سے خوش ہوتے ہیں اور اس بات سے کہ اللہ تعالی ایمان والوں کا اجر ضائع نہیں فرماتے ۔اس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ اللہ کے نزدیک شہید کا مقام و مرتبہ کس درجہ بلند و بالا اور ارفع و اعلی ٰہے ۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہادت کی تمنا کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، میری آرزو ہے کہ میں اللہ کے راستے میں جنگ کروں اور قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں۔‘‘(بخاری)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ شہداء جنت کے دروازے پر دریا کے کنارے ایک محل میں رہتے ہیں اور ان کے لیے صبح شام جنت سے رزق لایا جاتا ہے ۔ ‘‘(مسنداحمد، مصنف ابن ابی شیبہ) صحابہ کرام کا ذوق شہادت: حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہ صرف آقا ئے رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں دس سال جنگیں لڑیں بلکہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرما لینے کے بعد بھی یہ مبارک ہستیاں اللہ کے راستے میں جہاد کرتی رہیں۔ ان حضرات کا شوقِ شہادت و جہاد اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنے جان و مال کی قربانی دینا قیامت تک کیلئے عدیم المثال ہے ۔ ان حضرات نے اسلام اورپیغمبر اسلام کے لئے جو قربانیاں دیں تاریخ کے اوراق ان واقعات سے بھرے پڑے ہیں۔ ان کے مرد، عورتیں اور بچے غرض ہر کوئی ایک سے بڑھ کر ایک قربانی دینے والااور اللہ تعالیٰ کے راستے میں بڑھ چڑھ کر اپنے جان و مال سے جہاد کرنے والا تھا،چند واقعات ملاحظہ فرمائیں۔ حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ خاندان نجار کے رئیس تھے ، جد رسول حضرت عبدالمطلب کی والدہ سلمہ بنت عمرو رشتہ میں حضرت انس بن نضر کی پھوپھی ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خدمت گار خصوصی حضرت انس بن مالک آپ کے سگے بھتیجے ہیں۔ انہی کے نام پر آپ کا نام انس رکھا گیا،کسی وجہ سے غزوہ بدر میں شریک نہیں ہوسکے تھے ۔ اس غیر حاضری پر انہیں بڑا ملال رہتا تھا۔ فرمایاکرتے تھے : یہ حق وباطل کے درمیان پہلا معرکہ تھا جس میں جناب رسول اللہ نے شرکت فرمائی اور میں اس سعادت سے محروم رہ گیا، اگر اللہ تعالیٰ نے پھر ایسا موقع عنایت فرمایا تو اللہ دیکھے گا کہ دین حق کو سربلند کرنے کیلئے میں کیا کارنامے سرانجام دیتا ہوں۔ غزوہ احد میں بڑے ہی ذوق وشوق سے شریک ہوئے ، بڑی جرأت سے مصروف پیکار رہے یہاں تک کہ جام شہادت نوش کیا،ان کے جسم پر نیزوں، تیروں اور تلواروں کے اَسّی سے زیادہ زخم تھے ۔ کربلا کا واقعہ تاریخ اسلام کانہایت افسوسناک سانحہ ہے ، اس حادثے کی خبر اللہ رب العالمین نے اپنے محبوب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کر دی تھی۔ غالباً اسلامی تاریخ کو کسی اور واقعہ نے اس قدر اور اس طرح متاثر نہیں کیا جیسے سانحہ کربلا نے متاثر کیا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفائے راشدین نے جو اسلامی حکومت قائم کی، اس کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے اصول پر رکھی گئی۔ اس نظام کی روح شورائیت میں پنہاں تھی۔ اسلامی تعلیمات کا بنیادی مقصد بنی نوع انسان کو شخصی غلامی سے نکال کر خداپرستی، حریت فکر، انسان دوستی، مساوات اور اخوت و محبت کا درس دینا تھا۔ خلفائے راشدین کے دور تک اسلامی حکومت کی یہ حیثیت برقرار رہی۔ یزید کی حکومت چونکہ ان اصولوں سے ہٹ کر شخصی بادشاہت کے تصور پر قائم کی گئی تھی۔لہٰذا جمہور مسلمان اس تبدیلی کواسلامی نظام شریعت پر ایک کاری ضرب سمجھتے تھے اس لیے امام حسین علیہ السلام نے محض ان اسلامی اصولوں اور قدروں کی بقا و بحالی کے لیے میدان عمل میں اترے ، راہ حق پر چلنے والوں پر جو کچھ میدان کربلا میں گزری وہ جور جفا، بے رحمی اور استبداد کی بدترین مثال ہے ۔نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو میدان کربلا میں بھوکا پیاسا رکھ کر جس بے دردی سے شہید کرکے ان کے جسم اورسرمبارک کی بے حرمتی کی گئی اخلاقی لحاظ سے بھی تاریخ اسلام میں اولین اور بدترین مثال ہے ۔ دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن نہ مالِ غنیمت نہ کِشور کشائی