آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے نوجوانوں کو خود پر اعتماد کرنے،قانون کی بالا دستی اور میرٹ پر قائم رہنے کی تلقین کی ہے۔ آئی ایس پی آر کے سالانہ انٹرن شپ پروگرام میں شریک طلبا و طالبات کو انہوں نے یہ مشورہ بھی دیا کہ کامیابی کیلئے زندگی میں شارٹ کٹ تلاش نہ کریں ۔ غالباً جنرل باجوہ کے ذہن میں فوج کی مثال ہو گی جہاں ترقی کے لیے کئی کٹھن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے،کئی فوجی جوان اور افسر بے چارے تو اپنے کیرئیر کے شروع میں ہی جام شہادت نوش کر جاتے ہیں ۔جنرل صاحب کا مشورہ تو بڑا صائب ہے لیکن بد قسمتی سے شارٹ کٹ اپنانا قریباً ہمارے تمام شعبہ ہائے زندگی کا لازمی جزو بن چکا ہے ۔سیاست کو ہی لیجئے، اقتدار حاصل کرنے کی دوڑ میں اصولوں کو تج کر کے ہرقسم کے ہتھکنڈے استعمال کر نے اور اقتدار کے ثمرات سے راتوں رات مستفید ہونے کو ہی جائز سمجھا جاتا ہے ۔ شارٹ کٹ کی بہترین مثال جنرل پرویز مشرف کے دور میں وزیراعظم شوکت عزیز تھے جن کا نام ہی ’شارٹ کٹ عزیز‘پڑ گیا تھا ،وہ نیو یارک میں سٹی بینک کی ملازمت چھوڑ کر پاکستان آئے اور راتوں رات وزیر خزانہ بن گئے اور بعدازاں جب 2004ء میںظفر اللہ جمالی بطور وزیراعظم ناکام ہوئے تو جنرل مشرف نے مسلم لیگ (ق) کے صدر چودھری شجاعت کو ہدایت کی کہ شوکت عزیز آئندہ وزیراعظم ہو نگے۔انہیں وزیراعظم بنانے کیلئے رکن قومی اسمبلی منتخب کرانا ضروری تھا۔جمالی صاحب کے استعفے کے بعد مسلم لیگ ق کے صدر چودھری شجاعت حسین جو عبوری دور میں وزیراعظم تھے کی اپنی رال ٹپک گئی اور انہوں نے پریس کانفرنس میں شوکت عزیز کی بطور وزیراعظم نامزدگی کا تذکرہ تک نہیں کیا جس پر مشرف سخت برہم ہوئے اور انہیں دوبارہ پریس کانفرنس میں اعلان کرنا پڑا ۔ظاہر ہے چودھری صاحب بھی ’دا‘لگانا چاہتے تھے ۔شوکت عزیزجو اٹک سے ضمنی انتخاب میں منتخب ہوئے تھے،انتخابی مہم کے دوران ان کے حلقے میں ان پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ معجزانہ طور پر محفوظ رہے جس کے بعد انھوں نے نہ صرف آئندہ الیکشن نہ لڑنے بلکہ سیاست سے ہی تو بہ کرلی اور2008 ء کے عام انتخابات میں ٹکٹ نہ لیا اور پاکستان چھوڑ کر چلے گئے۔جب کسی نے ان کے ایک قریبی عزیز سے پوچھا کہ شوکت عزیز کو نیو یارک واپس جانے کے بجائے پاکستان میںرہنا چاہیے تھا جس نے انہیں وزیراعظم بنایا تو انھوں نے کہا کہ وہ اپنی ٹرم پوری کرنے آئے تھے جو وہ کر کے چلے گئے ۔گویا کہ حلوہ کھانے آئے تھے اور کھا کر چلتے بنے ۔ستم ظریفی ملاحظہ ہوکہ جنرل مشرف بھی اقتدار سے رخصتی کے بعد شوکت عزیز کی طرح لندن پدھار گئے۔ جنرل مشرف کوگلہ تھا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی برطرفی کے سب سے بڑے محرک شوکت عزیز تھے اور بعدازاں ان کی بحالی کے لیے وکلا کی تحریک چلی تو ملک میں ایمرجنسی لگانے کے معید بھی وہی تھے لیکن جب پرویز مشرف پر برا وقت آیا تو وہ ساتھ چھوڑ گئے اور لندن قیام کے دوران ان کی بول چال بھی بند ہو گئی ۔ پاکستان میں سب سے بڑے شارٹ کٹ ماضی کے فوجی سربراہوں نے مارے ہیں۔ جنرل ایوب خان نے 1958ء میںمارشل لا لگا کر دس برس دھڑلے سے حکومت کی۔ ان کا 1962ء میں دیا گیا آئین بھی ایک طرح کا شارٹ کٹ تھا کیونکہ اس کے تحت بنیادی جمہوریت کا نظام لایا گیا اور جس قسم کی مرکزیت قائم کی گئی اس کے حوالے سے کہا جاتا تھا کہ ایوب خان کا آئین لائل پور کے گھنٹہ گھر کی طرح ہے، اس کی تمام شقیں ایسی تھیں کہ جس طرف سے بھی آئیں اختیارات کا منبع ایوب خان ہی نظر آتے تھے۔جب ایوب خان کے اقتدار کا سنگھاسن ڈولا تو وہ اپنے ہی آئین کے تحت پرامن انتقال اقتدار کے بجائے ایک اور جرنیل اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل یحییٰ خان کو عنان اقتدار تھما کر رخصت ہو گئے ۔ جہاں ایوب خان کا’’ تحفہ‘‘ نام نہاد ’عشرہ ترقی‘ تھا وہیں یحییٰ خان کی پالیسیوں کے نتیجے میں بھارت کو کھل کھیلنے کا موقع ملا اور مشرقی پاکستان علیحدہ ہو گیا ۔ بعدازاں چند برسوں کے لیے جمہوریت تو آئی ، 1973ء میں متفقہ آئین بنا لیکن 1977ء میں بھٹو مخالف قوتوںکی آشیر باد سے جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر شب خون مارا ۔وہ بھی نوے روز میں الیکشن کرانے کا وعدہ کر کے گیارہ برس تک اسلام کے نام پر اقتدار سنبھال کرقوم پر سواری کرتے رہے ۔ انھوں نے جو شارٹ کٹ مارے ان کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے تو اتنا بڑا شارٹ کٹ مارا کہ اپنے ہی بنائے ہوئے وزیراعظم محمد خان جونیجو کو فارغ کردیا ۔ بعدازاں میاں نواز شریف بھاری مینڈیٹ سے سرشار ہو کر امیر المومنین بننا چاہتے تھے اور اسلام کے نام پر فوری انصاف دینے کے بہانے اختیارات اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے تھے لیکن اپنے ہی نامزد کردہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف کے ساتھ پنگا لینا ان کے لیے مہنگا ثابت ہوا ۔ دلچسپ بات یہ ہے دونوں آمروں جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کو افغانستان بہت راس آیا ۔1979 ء میں افغانستان میں سوویت یونین کی فوج کشی کے نتیجے میں ضیاء الحق نے پاکستان کو جنگ میں دھکیل کر دنیا سے اربوں ڈالر اینٹھے ۔اس کے بعد توجنرل پرویز مشرف نے’ مدر آف آل شارٹ کٹ‘ مارا۔ ان کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل محمود نائن الیون کو نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے وقت واشنگٹن میں موجود تھے، ان کو جب صدر جارج ڈبلیو بش انتظامیہ کی طرف سے الٹی میٹم دیا گیا کہ اگر ہمارا ساتھ نہیں دیں گے تو آپ کو دشمن کے ساتھ تصور کیا جائے گا اور ہم آپ کو پتھر کے زمانے میں دھکیل دیں گے ، اس دھمکی پر جنرل محمود نے فوری’ ہاں‘ کر دی ۔جب ان سے کہا گیا کہ اپنے باس سے مشورہ تو کر لیں تو انہوں نے فرمایا کہ اس کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔انہیں ان کی ذہنیت خوب معلوم ہے،یہ الگ بات ہے کہ اس پاداش میں انہیں وطن واپس آنے کے تھوڑے دن بعد ہی ہٹا دیا گیا۔ مقام شکر ہے کہ مشرف کے جانے کے بعد آنے والی فوجی قیادت نے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کیا اور بھرپور اثر ونفوذ ہونے کے باوجود سیاسی حکومت پر قبضہ کرنا ان کی ترجیحات میں شامل نہیں رہا ۔ سیاستدانوں کی راتوں رات وفاداریاں تبدیل کرکے اقتدار میں آنا اور مالا مال ہو جانا بھی ہمارے کلچر کا حصہ بن گیا ہے ۔اب وہ دور لد گیا جب سیاست کو سیاست کے طور پر یا عوامی خدمت کے لیے کیا جاتا تھا نہ کہ دولت کے حصول کے لیے ۔یہی وجہ ہے کہ آج جب سیاستدانوں کے خلاف کرپشن ریفرنسز کھلے ہیں تو دوسابق وزرائے اعظم پابند سلاسل ہیں۔ یہ آواز تو لگائی جاتی ہے کہ احتساب کے نام پر انتقام لیا جا رہا ہے لیکن کوئی مائی کا لال دوران اقتدار ان کی ایمانداری اور راست بازی کی ضمانت نہیں دے سکتا ۔ضیاء الحق کے دور سے ایک ایسی ریت چل نکلی تھی کہ زیادہ تر سیاستدان راتوں رات امیرکبیر ہونے کے لیے صنعت کار بن گئے اور صنعت کار جن میں شریف فیملی سرفہرست ہے نے اپنی دولت میں اضافے کے لیے اقتدار کو زینے کے طور پر استعمال کرنے کو قطعا ً معیوب نہیں سمجھا ۔ مقام شکر ہے کہ موجودہ وزیراعظم عمران خان صنعت کار ہیںاور نہ ہی جاگیردار لیکن ان کے ارد گرد ایسے بہروپیوں کا جمگھٹا ہے جو ڈرائی کلین ہونے کے باوجود پرانے پاکستان کی ہی نمائندگی کرتے ہیں ۔بدقسمتی سے اس وقت پاکستان کی دگرگوں اقتصادی صورتحال کی بھی بڑی وجہ ہر جائز اور ناجائز طریقے اور شارٹ کٹ کے ذریعے راتوں رات امیر بننے کی خواہش ہے۔بجائے اس کے کہ ملک میں صنعتیں لگائی جاتیں جائیدادیں بنانا اور زمینوں پر قبضوں کا رجحان سرایت کر گیا۔ وجہ واضح ہے کہ ڈی سی ریٹ پرخریدی ہوئی پراپرٹی کی مارکیٹ ویلیو میں کئی کئی گنا اضافہ ہو گیا اور زیادہ تر رقم کالا دھن ہی تھا جس پر ٹیکس نہیں دیا جاتا ۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی نصیحت غالبا ً صرف نوجوانوں کے لیے نہیں بلکہ اسکا اطلاق تمام شعبہ ہائے زند گی پر بھی ہو تا ہے ۔