شاہنامے لکھنے والے حضرات اب تک تو یہی بتاتے تھے کہ والا حضور کوہ نور ہیں۔ اور ساتھی ان کے سب درخشاں لال اور نگینے ہیں۔ لیکن لگتا ہے برآمد شدہ نتائج کے بعد قصیدوں کے مضمون میں ذرا سی ترمیم کرنا پڑی ہے۔ کچھ دنوں سے وہ یہ بتا رہے ہیں کہ والا حضور خود توبدستور کوہ نور ہیں لیکن ان کے سارے ساتھی نکمے اور نالائق ہیں۔ بعض نے تو انہیں کرپٹ بھی قرار دے دیا ہے اور والا حضور سے کہا ہے کہ انہیں خود سے دور کریں۔ ایک شاہنامہ نویس نے تو اب تک کے قصائد پر معافی بھی مانگ لی ہے۔ ایک حدی خواں اشرافیہ نے لکھا ہے کہ والا حضور کے ساتھی نکمے ہی ہیں۔ رنگیلے بھی ہیں اور ایک دو نہیں‘ سب کے سب۔ رنگیلا بہت وسیع المعنی لفظ ہے اور ارتقا کا ایک مرحلہ ہے۔ کہتے ہیں آدمی پہلے کرپٹ ہوتا ہیں پھر ترقی کر کے رنگیلا بنتا ہے کہ وسائل نہ ہوں تو آدمی اداکار رنگیلا تو بن سکتا ہے‘ اسم بامسمیٰ رنگیلا نہیں بن سکتا۔ خیر‘ اس بحث میں پڑے بغیر ‘ بالفرض برائے بالفرض۔ یہ مان لیا جائے کہ رنگیلا کے معنے خوب کے ہیں تو رنگیلوں کی منڈلی کے میر محفل کے بارے میں کیا رائے رکھی جائے‘ ان کے حسن انتخاب کو خلوص کے کس خانے میں فٹ کیا جائے؟ کچھ جواب اس کا بھی اے مدح گراں ہے کہ نہیں؟ ٭٭٭٭٭ ایک محترم نے عوام کو ہدایت کی ہے کہ وہ موجودہ بحران کے پیش نظر دو کے بجائے ایک روٹی کھایا کریں۔ بحران کم ہو جائے گا۔ اس مشورے پر بعض تجزیہ نگاروں کو طنز و مزاح کا نیا ہدف مل گیا ہے۔ حالانکہ اس مشورے پر کم از کم حقیقت پسندی کی رائے دینا چاہیے تھی۔ انہوں نے ملکہ میری کی طرح عوام کو روٹی کی جگہ کیک کھانے کا مشورہ تو نہیں دیا۔ محترم حکمران جماعت کے اہم قائد ہیں اور دراصل انہوں نے حکومت کی اگلی سیاسی پالیسی کا اعلان کیا ہے اگرچہ قدرے تاخیر سے دیا ہے۔ تاخیر ان معنوں میں کہ عوام پہلے ہی دو کی جگہ ایک ہی روٹی کھا رہے ہیں۔ ہر طرح کے بلوں میں اضافے اور ہمہ قسم مہنگائی کے ہوتے ان کی تنخواہیں اور آمدنی پہلے ہی نصف کر دی ہے‘ دو کی جگہ ایک روٹی کھانے کے سوا چارہی کیا ہے۔ محترم کو مشورہ اب یہ دینا چاہیے تھا کہ ایک کی جگہ آدھی روٹی کھایا کریں۔ یہ مشورہ اگلے چند ہفتوں کے لئے ہے اس کے بعد نئے مشورے کی شکل یوں ہو گی کہ یہ آدھی روٹی بھی ایک دن چھوڑ کر کھایا کریں۔ شعبان شروع ہو گیا۔ مہینے بعد روزے ہیں۔ عوام سحری کھانا چھوڑ دیں‘ صرف افطاری کریں۔ اٹھ پہرے روزے رکھنے کا اپنا ہی ثواب ہے۔ یوں بچت کی بچت ‘ ثواب کا ثواب۔ ڈھونڈلی قوم کے ثواب کی راہ۔ ٭٭٭٭٭ بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہونے والا ہے۔ اضافے کے ساتھ ڈرامہ بھی ہو گا۔ ڈرامہ یہ کہ بظاہر تو اعلان اڑھائی روپیہ فی یونٹ کا ہو گالیکن گیس کے معاملے کی طرح سلیبوں کی تقسیم کچھ اس طرح سے ہو گی کہ عملاً نرخ چالیس فیصد پر ہو جائیں گے۔ ان چالیس فیصد کو اب تک تین چار قسطوں میں ہونے والے اضافے کے ساتھ ملا کر جو بل آیا کریں گے‘ انہیں دیکھ کے لوگ بلبلانا بھی بھول جائیں گے۔ سیدھا ہاتھ دل پر رکھیں گے۔ دھڑکتا رہا تو اگلے مہینے کا بل بھی دیکھ لیں گے ورنہ دم گیا تو غم بھی گیا۔ اللہ خیر‘ کہیں چالیس کے بجائے نرخ 50فیصد تو نہیں بڑھ جائیں گے۔ ٭٭٭٭٭ ’’حجور‘حجور ‘ گجب ہو گیا۔ وہ صاحبزادے میاں ہیں ناں‘ اندر ہی اندر کام ڈال رہے ہیں‘ تین چار ایم پی اے توڑ لئے۔ دو سے ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ کچھ کیجیے حجور‘‘ ’’اوئے اس میں پریشانی کی بات کیا ہے۔ کیس ڈال دو۔ وہ تارا میرا پاور پلانٹ کا ریفرنس بنانے کا بول دو۔ لکھ دو پچاس ارب کا کمشن کھایا۔رات سے پہلے پہلے اندر کر دو‘‘ ’’لیکن حجور‘ تارا میرا پاور پلانٹ تو ابھی شروع ہی نہیں ہوا‘‘ ’’تو پھر وہ کھنڈی پور سڑک کا ریفرنس بنانے کا بول دو‘ستر ارب کا کمشن کھایا ‘‘ ’’حجور ‘وہ تو پانچ کلو میٹر لمبی سڑک ہے چالیس کروڑ کا خرچہ بھی نہیں‘‘ ’’تو پھر کیا کریں‘‘ ’’حجور‘ منی لانڈرنگ کا ریفرنس بنوا دیں۔ دو سو ارب روپے کا‘‘ ’’ہاں‘یہ ٹھیک ہے۔ تارا میرا کھنڈی پور کا جھنجھٹ ہی ختم۔ لیکن دو سو ارب زیادہ ہیں۔ شروع میں رقم کم رکھو‘‘ ’’نہیں‘ یہ بہت کم ہے۔75ارب کر دو۔ چلو ٹھیک ہے۔85ارب کا ریفرنس بنانے کا بول دو۔ بعدمیں ضمنی ریفرنس بنوا لیں گے۔ دو سوارب کی منی لانڈرنگ‘‘ ’’شکریہ حجور‘ آپ جینئس ہیں۔ حجور کا اقبال بلند ہو‘‘(ایک خیالی مکالمہ)