تقریر کون سی پراثر ہوتی ہے؟ تقریر وہ موثر اور جاندار سمجھی جاتی ہے جو مختصر مگر جامع ہو اور دلوں میں اتر جانے والی ہو۔ پیغام کون سا بھر پور ہوتا ہے؟ پیغام وہ زبردست سمجھا جاتا ہے جو واضح اور دوٹوک ہو۔ اس اعتبار سے عمران خان کا خطاب بے مثال تھا۔ اس خطاب میں وزیر اعظم نے پاکستانی قوم کی ترجمانی کا حق ادا کر دیا ہے۔ تبھی تو پاکستان کا ہر شخص یہ محسوس کر رہا ہے کہ۔ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے 6منٹ کے اس خطاب میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی شعلے اگلتی زہر افشانی کا جواب عمران خان نے یہ دیا کہ اگر بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو پھر پاکستان جواب دینے کا سوچے گا نہیں بلکہ فوری طور پر بھر پور جوابی وار کرے گا۔ اس کے ساتھ ہی عمران خان نے ایک حکمت آمیز جملہ بولا جس میں اشارہ جنگی تاریخ کی طرف تھا۔ عمران خان نے کہا کہ جنگ تو آپ شروع کر سکتے ہیں مگر پھر یہ کہاں تک جائے گی اور کیا رخ اختیار کرے گی یہ اللہ ہی جانتا ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم کی طرف سے بھارتی سیاسی و عسکری قیادت کے سنگ بستہ دلوں اور عقل و دانش کے بند کواڑوں پر دی گئی دستک کتنی کامیاب رہتی ہے اس کے بارے میں ہم کوئی زیادہ پرامید نہیں۔نریندر سنگھ مودی کے بارے میں کہا تھا: پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر مردناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر پلوامہ حملے میں بھارتی ریزرو فورس کے 44جوان ہلاک ہوئے ہیں۔ اکال تخت امرتسر کے سربراہ جتھے دار گیانی ہرپریت سنگھ نے جرأت اظہار سے کام لیتے ہوئے دل لگتی بات کہی کہ پلوامہ حملے اگر قابل مذمت ہیں تو اسی طرح کشمیریوں پر ہونے والے حملے بھی قابل مذمت ہیں۔ قومیں جب اس طرح کے کسی المیے سے دوچار ہوتی ہیں تو ان کی دانشمند قیادتیں فوری طور پر یہ کوشش کرتی ہیں کہ بھڑکتی آگ پر پانی ڈالا جائے۔ یہ کیسی بھارتی قیادت ہے کہ جو آگ پر پانی کی بجائے پٹرول چھڑک رہی ہے اور پاکستان کو سبق سکھانے کی دھمکی دے رہی ہے۔ عمران خان نے جنگ کا جواب جنگ سے دینے کے بعد بھارتی قیادت کو ایک بار پھر باور کرایا ہے کہ تنازعات جنگوں سے نہیں مذاکرات سے حل ہوتے ہیں۔ انہوں نے افغانستان کی مثال دی کہ دنیا کی سپر پاور بالآخر اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ افغانستان کی تقریباً دو دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے اور معاملات کے حل کے لئے مذاکرات کا راستہ ہی درست راستہ ہے۔ عمران خان نے اگست 2018ء میں برسر اقتدار آتے ہی بھارت کی طرف شاخ زیتون لہرائی اور خیر سگالی کا پیغام بھیجا۔ انہوں نے اپنی تقریب حلف برداری میں بھارت میں اپنے کرکٹر کھلاڑیوں کو مدعو کیا مگر بھارت نے اس تقریب میں شرکت کی خواہش رکھنے والے اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے حوصلہ شکنی کی۔ ایک نوجوت سنگھ سندھو آئے اور انہوں نے بھر پور شرکت کی اور اپنی طرف سے پیغام امن دیتے ہوئے وہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے گلے بھی ملے۔ پاکستان نے سکھ برادری کے لئے کرتار پور بارڈر کھولنے اور دربار صاحب گوردوارہ تک براہ راست رسائی بغیر ویزہ کا اعلان کر دیا۔ اس تاریخی اقدام اور وہاں سڑک کی تعمیر کے لئے منعقد کی جانے والی افتتاحی تقریب میں بھارت کو دعوت دی گئی مگر وہاں بھی مرکزی بھارتی قیادت نے آنے سے اجتناب کیا۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر نیو یارک میں شاہ محمود قریشی سے طے شدہ ملاقات منسوخ کر دی۔ نریندر سنگھ مودی مذاکرات سے اس لئے گریزاں ہیں کیونکہ ان کی سیاست کی بنیاد پاکستان دشمنی ہے۔ اب آئندہ چند ماہ میں بھارتی لوک سبھا کے انتخابات ہونے والے ہیں اس موقع پر بی جے پی کی قیادت پاکستان کے خلاف شعلے اگلتی انتخابی مہم کے لئے پلوامہ جیسے واقعات بطور ایندھن استعمال کرے گی۔ اس واقعے کو بنیاد بناکر بھارتی میڈیا کا ایک بڑا حصہ اور بھارتی انتہا پسند پاکستان کے خلاف جنگی جنون کو ہوا دینے میں رات دن مشغول ہیں۔اس تمام جنگی اورجنونی فضا کے باوجود بھارت میں ایسے بھی ہوش مند دانشور ہیں جو بھارت کو مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ سیندھیدرا کلکرنی ممبئی سے تعلق رکھنے والے معروف کالم نگار اور سماجی رہنما ہیں۔ انہوں نے گزشتہ رات ایک ٹی وی ٹاک میں کہا کہ بھارت کو پاکستانی وزیر اعظم کی مذاکراتی پیشکش کا مثبت جواب دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کو اپنا اپنا انداز فکر بدلنا ہو گا۔ دونوں ملکوں کے درمیان چارجنگیں ہو چکی ہیں اور معاملات پہلے سے زیادہ بگڑ گئے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر سمیت تمام تنازعات گولی سے نہیں بولی سے حل ہوں گے۔ ہمیں حیرت ہے کہ قیام پاکستان کے روز اول سے بھارت ‘ پاکستان کی تاریخی حقیقت کو تسلیم کرنے پرتیار نہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے تو یہ کہا تھا کہ پاکستان و ہندوستان امریکہ کینیڈا جیسے دو پڑوسی ملک ہوں گے۔ مگر بھارت نے روز اول سے دوستی کے بجائے دشمنی کو اپنا وتیرہ بنایا۔ پاکستان کو اس کے اثاثے حق کے مطابق ادا نہ کئے‘ پھر پاکستان میں بہنے والے دریائوں کا پانی بند کر دیا۔ 1965ء کی جنگ شروع کر دی‘ 1971ء میں مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کے لئے پہلے خفیہ سازش اور پھر علانیہ جنگ مسلط کر دی۔ جب 1998ء کے بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے بھی ایٹمی دھماکے کر دیے بلکہ بھارت سے کچھ زیادہ ہی کر دیے تب بھارت کی سوچ کچھ بدلی اور فروری 1999ء میں بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی میاں نواز شریف کی دعوت پر پاکستان بس میں بیٹھ کر آئے اور انہوں نے مینار پاکستان پر حاضری بھی دی۔ اس موقع پر ہمارے کچھ زاہدوں کے عرفان سے بھی کچھ بھول ہوئی اور یوں ’’بس ڈپلومیسی‘‘ مطلوبہ مثبت نتائج نہ لا سکی۔ باقی ساری تاریخ آپ کے سامنے ہے۔ بھارتی قیادت اپنا مائنڈ سیٹ بدلے۔ کشمیر میں انسانیت سوز مظالم بند کرے اور سوچے کہ پاکستان دشمنی اور جنگی جنون کی بھارتی عوام بدحالی کی صورت میں کتنی بڑی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ نریندر مودی پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی پیشکش قبول کریں اور کشمیر سمیت تمام معاملات مذاکرات کی ٹیبل پر حل کریں۔