حالیہ بحران کے حوالے سے وزیر اعظم نے پچھلے ہفتے بہت مصروف دن گزارے۔ ہنگامی طور پر لاہور تشریف لائے اور پنجاب کابینہ کے اجلاس کی صدارت کی۔ آپ نے وزیر اعلیٰ کو بھی انہی کے دفتر میں طلب کیا اور ان کی کرسی پر بیٹھ کر (وزیر اعلیٰ کو سامنے والی یعنی ملاقاتی کرسی پر بیٹھا کر) کارکردگی کی رپورٹ طلب کی۔ وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ انہوں نے لاہور کے حسن کو ’’نظر پروف‘‘ بنایا ہے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے ’’نظر بٹّو‘‘ کے طور پر جابجا کوڑے کے ڈھیر لگوا دیے ہیں‘ اس طرح لاہور کے حسن کو اب کبھی زوال نہیں آئے گا۔ وزیر اعظم نے وزیر اعلیٰ کی اس سفارتی کامیابی کو خراج تحسین پیش کیا اور ہدایت کی کہ ’’نظر بٹو ڈاکٹرائن‘ ‘ صوبے کے دوسرے بڑے شہروں میں بھی نافذ کیا جائے۔ وزیر اعلیٰ نے انہیں خوشخبری دی کہ دوسرے شہروں میں بھی نظر بٹو ڈاکٹرائن کا نفاذ شروع ہو چکا ہے۔ اس پر وزیر اعظم مزید خوش ہوئے اور وزیر اعلیٰ کو مزید خراج تحسین پیش کیا اور ہدایت کی کہ ماضی کے حکمرانوں کی خرابیاں تلاش کی جائیں تاکہ آئندہ کی بیان بازی کے لئے مزید دو ماہ کا مسالہ مل سکے۔ وزیر اعلیٰ نے ہدایت پر عمل کرنے کی یقین دہانی کرائی جس پر وزیر اعظم نے انہیں پیشگی خراج تحسین پیش کیا۔ بعدازاں وزیر اعظم عالمی سطح کی سفارتی کامیابیوں کے لئے لاہورسے تشریف لے گئے۔ ٭٭٭٭٭ کچھ سیاسی رہنمائو ں نے سوال اٹھایا ہے کہ پاکستان کی حکومت نے اسلامی کانفرنس کے اجلاس میں جا کر بھارتی جارحیت اور دوسرے مسائل پر ملکی موقف کیوں نہیں پیش کیا اور کیوں بھارتی شمولیت کے حوالے سے اپنا کیس نہیں لڑا۔ دراصل پاکستان ان دنوں سفارتی فتوحات میں مصروف تھا۔ بحر اوقیانوس کے پار سے جگت چاچا کا فون آیا جس میں درخواست کی گئی کہ واہگہ بارڈر جا کر ایک دن کے اندر اندر سفارتی کامیابی حاصل کرو۔ وزیر اعظم نے اسی روز قومی اسمبلی میں اعلان کیا کہ انہوں نے کل سفارتی کامیابی حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس پر گو مختلف حلقوں نے اعتراض اٹھایا کہ اتنی جلدی کیا ہے۔ دو چار دن سفارتی کامیابی کو اور روک کے رکھیں لیکن وزیر اعظم اپنے عزم پر قائم رہے۔ ان کے عزم کے قیام کے پیچھے اوقیانوس پار سے آنے والے فون کی حوصلہ بندھائی جو تھی۔ چنانچہ اگلی شام واہگہ پر ایک سادہ مگر رنگین تقریب میں سفارتی کامیابی تکمیل کو پہنچی اور قیدی پائلٹ سپرد بھارت کر دیا گیا۔ ان رہنمائوں نے بھارتی شمولیت پر جو تشویش ظاہر کی ہے‘ وہ بے جا ہے۔ بھارت ہمیں تنہا کرنے کی مذموم کوشش کر رہا تھا۔ پاکستان نے شاندار سفارتی کامیابی حاصل کرتے ہوئے الٹا بھارت کو اسلامی وزرائے خارجہ کانفرنس سمیت تنہا کر ڈالا اسے کہتے ہیں لیڈر شپ ‘ یہ ہوتا ہے وژن اور ایسی ہوتی ہے سفارتی فتح۔ ٭٭٭٭٭ ایک رات پہلے وفاقی وزیر مسمی واڈیا نے وزیر اعظم کی شان میں شاندار فقرے کہے جو غیر معمولی حد تک شاندار تھے۔ کئی ناظرین چونک اٹھے بعدازاں مسمی واڈیا نے وضاحت کی کہ میرا مطلب وہ نہیں تھا۔ وضاحت کے باوجود شانداری بدستور برقرار رہی۔ فقرے نقل نہیں کئے جا سکتے لیکن مفہوم کچھ یوں تھا کہ خیر سے ان کے قائد اب بس بھگوان سمان ہو چکے ہیں۔ امن کے دیوتا تو وہ پہلے ہی بن چکے۔ دیوتا اور بھگوان میں چنداں فرق نہیں بس مجاز اور حقیقت کے درمیان والا معاملہ ہے اور لگتا ہے کہ فرق مٹانے کی تمنا خاصی جلد بازی میں ہے۔ بدھائی ہو۔ ادھر وزیر اعظم کو نوبل پرائز دلانے کی قرار داد بھی ایک وزیر نے پیش کر دی ہے جس سے اصولی اختلاف کیا جانا چاہیے یہ کہ نوبل انعام بہت چھوٹا اور وزیر اعظم کا مقام بہت اونچا ہے جو بھگوان سمان ہو‘ اسے نوبل انعام دلانے کی کوشش ایسے ہی ہے جیسے کسی بڑھیا نے خوش ہو کر آئی جی کو دی تھی کہ جا پتر‘ رب تینوں تھانیدار بنائے۔ مناسب ہے کہ قرار داد پیش کرنے والے وزیر فی الحال نوبل انعام امین گنڈا پور‘نعیم الحق‘ فیض چوہان اور بزدار صاحب کو دلوا دیں۔ آئی جی کو تھانیدار بنانے سے گریز کریں۔ ٭٭٭٭٭ پانچ چار مہینے پہلے مہنگائی کے دو سونامی آئے۔ ساری قوم ان میں ڈبکیاں لگانے لگی اور اب تک لگا رہی ہے۔ تب کسی نے کہا کہ ابھی سے کیوں روتے ہو۔ یہ تو محض ٹریلر ہے اصل سونامی کی فلم تو ابھی چلنی ہے۔ چنانچہ مبارک ہو۔ دو بڑے سونامیوں اور تین چار چھوٹے ٹارپیڈو چلنے کے بعد اس ہفتے پیش گوئی پوری ہونی شروع ہو گئی ہے۔ پہلے بجلی کے نرخ فی یونٹ ایک روپیہ 80پیسے بڑھا دیے گئے۔ پھر تیل اور ڈیزل مہنگا ہوا اور اس کے بعد قدرتی گیس 120روپے فی یونٹ مہنگی ہو رہی ہے۔ صارفین سے 75ارب نکلوائے جائیں گے۔ گیس کا سلنڈر بھی خیر سے 1522روپے تک جا پہنچا ہے۔ اگلے ماہ بل دیکھ کر لوگوں کا کیا حال ہو گا۔ خاں صاحب کو اس سے کیا غرض ؎ دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے خاں صاحب سے تو یہ بنتی کرنے کا حوصلہ بھی کسی میں نہیں کہ حضور کس لئے آپ بجھاتے ہو غریبوں کے چراغ۔ یہ تو شہ رگ کا لہو دے کے جلاتے ہیں چراغ۔ خیر اسے ایک طرف رکھیے حساب کا ایک سوال حل کیجیے۔ حالیہ سونامی سے پہلے حکومت 190ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگا چکی ہے۔ تیل بجلی گیس کے نرخ اضافہ کر کے جو اربوں وصول کئے گئے وہ الگ سے ملا کر کھربوں بن جاتے ہیں پھر بھی اس ششماہی میں ریونیو کے گھاٹے کی مالیت 235ارب روپے ہو چکی ہے۔ حساب کا سوال یہ ہے کہ یہ ارب ہا ارب کی وصولی آخر گئی کہاں؟ دیانتداری کے کس ’’کھوہ‘‘ میں جا پڑی؟ اور یہ جو ارب ہا ارب اس مہینے سے مزید وصول کئے جانے ہیں‘ وہ کس صاف ندی شفاف ندی کے پانیوں کی نذر ہوں گے۔ بہرحال قصر ظلمت کے تخت نشینوں کو یہ ’’شاندار سفارتی کامیابی‘‘ بھی مبارک ہو۔