معزز قارئین!۔ پرسوں( 19 جولائی کو ) اڈیالہ جیل میں سزا یافتہ مجرمان ۔ نااہل وزیراعظم نواز شریف ، اُن کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن(ر) محمد صفدر سے خاندان ِ شریفاں کے 17 افراد اور مسلم لیگ (ن) کے 23 لیڈروں کی ملاقاتوں کی خبریں ، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی زینت بنی رہیںتو، مجھے پہلی بار اُس مغربی مفکر کا یہ مقولہ اچھا لگا کہ ’’بدترین جمہوریت بھی ، بہترین آمریت سے اچھی ہوتی ہے ‘‘۔ خدانخواستہ اگر ہمارے پاکستان میں ، کسی بادشاہ یا فوجی جرنیل کی آمریت ہوتی تو، کیا پاکستان کے عوام کو ، کرپشن کے الزامات کے تحت ، احتساب عدالت سے ، 10 سال ، 7 سال اور 1 سال قید با مشقت کی سزا پانے والے مجرمان ، نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن(ر) محمد صفدر کو اڈیالہ جیل میں ’’عید مِلن پارٹی‘‘ کے مناظر دیکھنے کو مِلتے؟۔ 

25 جولائی کے عام انتخابات میں ، اپنے پسند کی سیاسی پارٹی کے امیدوار کو ووٹ ڈالنے کے مشتاق ووٹروں کو، صدر ممنون حسین ، نگران وزیراعظم جسٹس (ر) ناصر اُلملک ، گورنر پنجاب محمد رفیق رجوانہ ،’’ اُستادِ اعلیٰـ‘‘نگران وزیراعلیٰ پروفیسر حسن عسکری رضوی اور آئی جی جیل خانہ جات کا تہہ دِل سے شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ اُنہوں نے نواز شریف، اور اُن کی "jailmate" دُختر مریم نواز کا کم از کم یہ نعرہ اور مطالبہ تو،تسلیم کرلِیا ہے کہ’’ ووٹ کو عزّت دو اور ووٹروں کو بھی ! ‘‘ ۔ 

عجیب اِتفاق ہے کہ ’’ ہندوستان کے مُغل بادشاہ مرزا شہاب اُلدین شاہجہاں ؔکے بعد نواز شریف پہلے حکمران (سابق وزیراعظم ) ہیں جن، کے ساتھ اُن کی بڑی بیٹی مریم نواز بھی جیل میں اُن کے ساتھ قید ہیں ۔ اپنے شہنشاہ والد نور اُلدین جہانگیر کی وفات کے بعد شاہجہاں 1628ء میں تخت نشین ہُوا۔1928ء ہی میں اُس کی شادی ارجمند بانو سے ہُوئی۔ جسے اُس نے، ’’ممتاز محل ‘‘ کا خطاب دِیا۔ ملکہ ممتاز محل نے شاہجہاں کے 14 بچوں کو جنم دِیا۔ 14 ویں بچے کی پیدائش پر اُسے سخت تکلیف ہُوئی جسے، ملکہ برداشت نہ کرسکیں؟ اور 1631ء میں اُس کا انتقال ہوگیا۔ 

یہ امر قابل ذِکر ہے کہ ’’ شہنشاہ نور اُلدّین جہانگیر کے دَور میں ہندوستان کے بادشاہ جیمز اوّل میں برطانیہ کے سلطنت مُغلیہ سے سفارتی تعلقات قائم ہوگئے تھے اور برطانوی سفیر "Sir Thomas Roe" کئی سال تک جہانگیر بادشاہ کے دربار میں رہا اور اُس نے سورت ۔ کھمبا یت، گوا اور احمد آباد میں تجارتی کوٹھیاں قائم کرنے کی اجازت حاصل کرلی تھی۔ اِس طرح انگریزوں کو محصول ادا کئے بغیرتجارت کا موقع مل گیا اور اُسی تجارت کی بدولت ہندوستان میں اُنہوں نے اپنی حکومت قائم کرلی تھی۔ معزز قارئین! ۔مَیں حیران ہُوں کہ ’’ اپنی ملکہ کے علاج کے لئے شاہجہاں ؔنے اُسے لندن کے کسی جدید ترین ہسپتال میں علاج کے لئے کیوں نہیں بھجوایا؟ اور ہندوستان کے ہسپتالوں یا شفاء خانوں پر ہی اعتماد کا اظہار کیوں کِیا؟۔ 

غور طلب بات یہ بھی ہے کہ شاہجہاں کے دَور میں برطانیہ کی "East India Company" نے ہندوستان میں اتنے پیر نہیں پھیلائے تھے کہ ’’ ہندوستان کے کئی سیاستدان اور تاجر ان ، اپنی اولاد کو لندن میں مستقل آباد کر دیتے اور اُنہیں آف شور کمپنیاں بنا کر "Money Laundering"  میں مہارت / تجربہ حاصل کرنے مواقع فراہم کرتے؟۔ مَیں حیران ہُوںکہ ’’ تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونے والے میاں نواز شریف ، اپنی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کے لئے علاج کے لئے پاکستان کے کسی ہسپتال پر اعتماد کرنے کے بجائے انہیں لندن کے ہسپتال میںداخل کرا نے پر مجبور کیوں ہُوئے؟۔ کیا اِس لئے کہ اُن کے دو ، ’’فرزندانِ ارجمند ‘‘ کئی سال پہلے ہی ، برطانیہ کے شہری بن چکے تھے ؟۔

 ملکہ ممتاز محل کے انتقال کے بعد شاہجہاں  ؔاُسی کے خیال میں رہتا تھا ۔ اُس نے اپنی ملکہ کی یاد میں آگرہ میں ’’ تاج محل‘‘ کی تعمیر شروع کرادِی۔ 1658ء میں ، شاہجہاںؔ کے چھوٹے بیٹے محی اُلدّین ؔنے تاج و تخت پر قبضہ کِیا اور ’’اورنگ زیب عالمگیر ‘‘ کا لقب اختیار کر کے اپنے ’’ابا حضور ‘‘ بادشاہ کو آگرہ کے شاہی قلعے میں نظر بند کردِیا۔ شاہجہاں کے ساتھ اُس کی سب سے بڑی بیٹی جہاں آراء ؔبیگم بھی اپنے ابا حضور کے ساتھ نظر بند رہی۔ معزز قارئین!۔ مَیں نے کئی سال پہلے ایک بھارتی فلم دیکھی جِس ، میں جہاں آراء ؔبیگم اپنے چھوٹے بھائی بادشاہ اورنگزیب ؔعالمگیر سے درخواست کر رہی تھی کہ ’’بادشاہ سلامت!۔ مجھے بھی میرے ابا حضور کے ساتھ آگرہ کے شاہی قلعے نظر بند کردِیا جائے‘‘۔ بادشاہ اورنگزیب نے اپنی بڑی بہن کی یہ درخواست قبول کرلی تھی۔ 

شاہجہاں نے اپنے بیٹے اورنگزیب عالمگیر کے دَور میں 1658ء سے 1666ء (انتقال تک ) نظر بندی (Confinement) میں گزارے اور اُس کے ساتھ بادشاہ کی بیٹی جہاں آراء بیگم نے بھی ۔ جہاں آرا ء کئی صفات کی مالکہ تھی۔ وہ کئی کتابوں کی مصنفہ تھی۔ اُس کی تصانیف میں خواجہ غریب نواز حضرت معین اُلدین چشتی ؒ کی سوانح عمری  ’’مونس اُلارواح ‘‘ بہت مقبول ہے ۔ مَیں نے دو بار اپنے دورۂ دہلی کے دَوران خواجہ نظام اُلدّین اولیاء کے مزار کے احاطے میں جہاں آرا ء بیگم کا مقبرہ دیکھا ہے جو، اُس نے انتقال سے پہلے خُود بنوایا تھا۔ مقبرے کی لوح پر اُن کا یہ شعر لِکھا ہے کہ …

بغیر سبزہ نہ ، پوشد کسے مزار مرا!

کہ قبر پوش غریباں ہمیں گیاہ و بس است!

یعنی۔’’ کوئی میری قبر کو سبزہ کے سوا نہ ڈھانپے، اِس لئے کہ ، غریبوں کی قبر کو ڈھانپنے کے لئے سبزہ ہی کافی ہے ‘‘۔ 

معزز قارئین!۔ 19 جولائی کو اڈیالہ جیل میں نواز شریف ، مریم نواز اورکیپٹن( ر) محمد صفدر سے ملاقاتوں کی خبروں میں ایک خبر یہ بھی ہے کہ ’’ مریم نواز ، اِن دِنوں اِنسانی حقوق کے علمبردار اور جنوبی افریقہ کے آنجہانی لیڈر "Nelson Mandela" کی سوانح عمری پڑھ رہی ہیں ‘‘۔ اچھی بات ہے لیکن، کیا ہی اچھا ہو کہ ’’ موصوفہ اِس سے پہلے ’’ قائداعظم ثانی‘‘ کہلانے والے اپنے والد ِ محترم میاں نواز شریف کو ، ’’ بانی پاکستان‘‘ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی سوانح عمری بھی پڑھنے کا مشورہ دیں اور خُود بھی پڑھیں۔ پھر باپ، بیٹی دونوں کو پتہ چلے گا کہ ’’ گورنر جنرل پاکستان کا منصب سنبھالنے کے فوراً بعد قائداعظمؒ نے قیام پاکستان کے لئے اپنے شانہ بشانہ جدوجہد کرنے والے اپنی ہمشیرہ ’’ مادرِ ملّت‘‘  محترمہ فاطمہ جناح ؒ کو پاکستان مسلم لیگ اور حکومت میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا‘‘۔ 

قائداعظمؒ نے تو، اپنے چھوٹے بھائی احمد علی جناح کو بھی بہت مایوس کردِیا تھا جب ، اُس نے بمبئی سے کراچی آ کر اپنے بڑے بھائی سے ملاقات کی تھی اور پوچھا تھا کہ ’’ بھائی جان! اگر مَیں اپنا کاروبار پاکستان میں منتقل کرلوں تو ، آپ میری کیا مدد کریں گے ؟‘‘ ۔ قائداعظم ؒ نے کہا تھا کہ ’’ احمد علی جناح ! مَیں تمہاری کوئی مدد نہیں کروں گا ۔ تُم فوراً بمبئی واپس چلے جائو‘‘۔ معزز قارئین اُس کے بعد قائداعظم اور احمد علی جناح کی کوئی ملاقات نہیں ہُوئی ۔دیکھنا یہ ہے کہ بڑے بھائی نواز شریف کی محبت کی وجہ سے میاں شہباز شریف کئی سال وزیراعلیٰ پنجاب رہے لیکن، کیا اب بھی میاں شہباز شریف بڑے بھائی پر جان نچھار کرنے کو تیار ہیں؟۔

سوال یہ ہے کہ ’’ اگر اورنگزیب عالمگیر ۔ ملکہ برطانیہ کی طرح "Titular Sovereign" (برائے نام بادشاہ) ہوتا تو کیا وہ اپنے باپ بادشاہ کو ’’ تا حکم ثانی نظر بندی ‘‘ رکھ سکتا تھا؟ اور اپنے بھائیوں کو قتل کراسکتا تھا؟۔ اُس نے تو، اپنے بھتیجے (اور داماد) سلیمان شکوہ کو بھی قتل کرادِیا تھا ۔اللہ تعالیٰ کا شُکر ہے کہ ’’ بدترین جمہوریت ‘‘ ہی سہی۔ اِس میں ، اعلیٰ عدلیہ کے طفیل ۔ سزا یافتہ نواز شریف کے سزا یافتہ داماد کو قانون کے مطابق ، اڈیالہ جیل میں پوری سہولتیں حاصل ہیں ۔ بے شک مسلم لیگ (ن) کے ’’ لوہے کے چنے ‘‘ مریم نواز کی اپنے والد ۔ میاں نواز شریف کی محبت کو جہاں آرائؔ بیگم کی محبت کا درجہ دیتے رہیں ۔معزز قارئین!۔ دو دِن پہلے ایک ’’اخبار ی انتخابی اشتہار ‘‘ میںمریم نواز کو "Iron Lady" کا خطاب بھی دِیا گیا ہے ۔ 

جو چاہے ، آپ کا ، حُسن ِ کرشمہ ساز ، کرے!