شاہ محمود قریشی صاحب کا غیر معمولی بیان میرے سامنے رکھا ہے اور میں اسے سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ آپ بھی اس مشق کا حصہ بن سکتے ہیں۔ یہ ذہن میں رکھیے یہ مراد سعید یا شیخ رشید کا بیان نہیں ہے، یہ پاکستان کے وزیر خارجہ کا بیان ہے۔ یہ کسی جلسہ عام میں اچھالا گیا فقرہ بھی نہیں ہے، یہ بات آزاد کشمیر میں کھڑے ہو کر کہی گئی ہے۔ غیر ذمہ دار اور غیر سنجیدہ فقرے بازی شاہ محمود قریشی کا عمومی مزاج بھی نہیں ہے۔ انہیں خوب احساس ہو گا کہ وہ یہ بیان کس حیثیت میں دے رہے ہیں اور کہاں کھڑے ہو کر دے رہے ہیں۔ یہ رد عمل یا جھنجھلاہٹ کی کسی وقتی کیفیت میں دیا گیا بیان نہیں ہے ،یہ ایک غیر معمولی اور انتہائی سنجیدہ بیان ہے جس میں جہانِ معنی پوشیدہ ہے۔لٹھ لے کر شاہ محمود قریشی کا ہانکا کرنا مقصود ہو تو بلاشبہ یہ ایک مثالی صورت حال ہے ۔ غداری سے لے کر ملت فروشی تک سب کچھ برآمد کیا جا سکتا ہے لیکن اگر کسی کے پیش نظر معاملے کی تفہیم ہے تو اسے پوری سنجیدگی سے اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ہماری نفسیاتی گرہوں میں ایک بڑی گرہ’ امت‘ کا سیاسی مفہوم ہے۔شاہ محمود قریشی نے اس گرہ کو کھولنے کی کوشش کی ہے۔امت کے لیے ہمارے ہاں بہت گرمی جذبات پائی جاتی ہے۔سادہ لوحی کا خام مال اتنا زیادہ ہے کہ امت کے بڑوں نے اپنے گندے کپڑے ہمارے صحن میں دھوئے اور ہم نے عالم ِ شوق میں اپنا معاشرہ میدان جنگ بنا دیا۔ برادران اسلام نے اپنی پراکسیز ہمارے ہاں لڑیں۔ہماری سادہ لوحی کو ہمارا جرم بنا دیا گیا۔ ہمارا استحصال کیا گیا۔شاہ محمود قریشی نے قوم کے ساتھ بڑی سیدھی بات کی ہے کہ امت نام کا کوئی مسیحا اس مرتی مارتی دنیا میں موجود نہیں۔امت کے یہ جتنے علمبردار ممالک ہیں ،یہ سب اصل میں خالصتا نیشن سٹیٹ ہیں۔ جب تک امت کا تصور ان نیشن سٹیٹس کے مفاد سے ہم آہنگ رہتا ہے یہ امت کا پرچم اٹھائے رکھتی ہیں اور جیسے ہی ان نیشن سٹیٹس کا مفاد کسی اور چیز کا تقاضا کرتا ہے یہ امت کا پرچم رکھ کر نیشن سٹیٹ کے مفاد کا پرچم اٹھا لیتے ہیں۔شاہ محمود قریشی نے اس گرہ پر ہاتھ ڈالا ہے اور بتایا ہے کہ اپنی جنگ خود لڑنا ہوتی ہے اور اپنی آگ میں خود جلنا ہوتا ہے۔میں نے ان کا پورا بیان پڑھا ہے ، اس میں کہیں پسپائی نہیں ہے۔ وہ صرف یہ بتا رہے ہیں کہ حقائق یہ ہیں۔ وہ خبر دے رہے ہیں کہ یہ جدوجہد طویل بھی ہو گی اور اعصاب شکن بھی۔ ان کا کہنا صرف یہ ہے کہ اس جدوجہد میں اترنے سے پہلے سرابوں سے نکل آئیے اور حقائق کی تمازت کو محسوس کر لیجیے۔ وزیر خارجہ جب کوئی بات کرتا ہے تو اس کا مخاطب محض اس کا اپنا سماج نہیں ہوتا۔ عالمی برادری بھی ہوتی ہے۔الفاظ قابل غور ہیں۔ ’’ ہم تو امہ کی بات کرتے ہیں لیکن امہ کے محافظوں نے بھارت میں سرمایہ کاری کی ہوئی ہے‘‘۔ سفارت کاری کی دنیا میں وزیر خارجہ کے ایک ایک لفظ کے معنی ہوتی ہیں اور اسلوب کے بھی۔امت کے جن محافظوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان سے پاکستان کے آج بھی مفادات وابستہ ہیں ۔لیکن اس سب کے باوجود ہمارا وزیر خارجہ اس برہمی کا یوں اعلانیہ اظہار کر رہا ہے تو یہ صرف ان کے اپنے جذبات کا اظہار نہیں ، یہ ریاست کے جذبات کا اظہار بھی ہے۔ یہ کشمیر کے لیے پاکستان کی حساسیت کا ایک اظہار ہے ۔ یہ امت کے لیے ایک پیغام بھی ہے کہ ہم عجمی بھی امت ہیں اور منہ میں زباں رکھتے ہیں۔ اور ایسا پیغام اس انداز سے پاکستان نے پہلی بار دیا ہے۔ امت کے نام پر آج تک جو بھی پالیسی بنی اس کا محور عرب دنیا رہی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عرب لیگ کا بجٹ او آئی سی کے بجٹ سے زیادہ ہوتا ہے۔کشمیر ہو یا فلسطین ، یہ مسلمانوں کے مسائل ہیں لیکن بنیادی طور پر فلسطین عربوں کا مسئلہ اور کشمیر ہمارا۔ ہم نے فلسطین کی خاطر اسرائیل سے آج تک تعلق قائم نہیں کیا۔ لیکن عرب دنیا نے ہمارے کشمیر کے لیے کیا کیا؟ سعودی عرب اور یو اے ای کے بھارت سے غیر معمولی تعلقات ہیں۔معاملہ صرف یہ نہیں کہ سعودی عرب نے بھارت میں بیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق وہ یہاں ایک سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا سوچ رہا ہے،یہی حال یو اے ای کا ہے۔ خلیج ٹائمز کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان یہ معاہدہ ہو چکا ہے کہ اگلے مالی سال تک باہمی تجارت کا حجم ایک سو ارب ڈالر تک پہنچانا ہے۔ بھارت کے معاملے میں ’’ امت‘‘ کی وارفتگیاں تھمنے کا نام نہیں لے رہیں۔ اسے Looking beyond Pakistan پالیسی کا نام دیا جا رہا ہے۔اب اگردوسری نیشن سٹیٹس کو اپنے معاشی امکانات تلاش کرنے کی آزادی ہے تو ظاہر ہے پاکستان کو بھی یہ حق حاصل ہے۔ایک دشمن بھارت کیا کم ہے کہ ہم اسرائیل کو بھی دشمن بنائے رکھیں اور بھارت کو ’’ واک اوور‘‘ دیے رکھیں۔مجھے محسوس ہو رہا ہے پاکستان نے ایک اشارہ دے دیا ہے کہ امت اور نیشن سٹیٹ کے تصورات میں توازن پیدا کرنے کا وقت آ گیا ہے۔آگے چل کر مشرق وسطی اور اسرائیل کے بارے میں پاکستانی پالیسی میں تبدیلی کے آثار نمایاں ہو جائیں تو کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ شاہ محمود قریشی درست کہتے ہیں ہمیں احمقوں کی جنت سے نکل کر حقائق کا سامنا کرنا ہو گا۔ ہمیں سمجھنا ہو گا ہمیں ہر محاذ پر یہ جنگ خود لڑنی ہے اور اپنے بل بوتے پر۔ ہمیں امت اور نیشن سٹیٹ کے تصورات میں اعتدال لانا ہو گا۔ ہمیں اپنے مفادات کی روشنی میں اپنی خارجہ پالیسی کو استوار کرنا ہو گا۔ ہمیں اپنی تعمیر کرنا ہو گی۔ ہمیں خوش فہمیوں سے نکلنا ہو گا۔ ہمیں اپنے لیے نئے امکانات تلاش کرنا ہوں گے۔عزت سے زندہ رہنا ہے تو اس وادی پر خار میں آبلہ پا چلنے کی عادت ڈالنا ہو گی۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے شاہراہ حیات پر نہ کوئی بیساکھی کام آئے گی نہ کسی امید موہوم کے بر آنے کا امکان ہے۔استقامت ، جرأت ، محنت، یکسوئی اور طویل جدوجہد۔بس یہی ہمارا زادِ راہ ہے۔