جس وقت آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہونگے ، وطن عزیزمیں عام انتخابات کے انعقاد میں بس ایک ہی دن درمیان ہوگا۔ پھر وہ دن بھی آئے گا جس کے بارے میں پیشن گوئی کی جاتی رہی کہ وہ نہیں آئے گا ۔ یہ پیشن گوئیاں کرنے والے وہ تھے جنہیں پاکستان کا مستقبل اپنے بغیر تاریک نظر آتا ہے۔ ایسے بزرجمہروں کو ایمان کی حد تک یقین ہوتا ہے کہ ایک دن آئے گا جب پاکستان میں ہر شے اپنا مقام اور سمت بدل لے گی، قطب نما کی سوئی شمال کی بجائے تھرتھراتی ہوئی، جنوب کی سمت تھم جائے گی،ہر پتھر الٹ دیا جائے گا، زمین کشش ثقل کھودے گی ، آسمان سے خون کی برسات ہوگی غرض پاکستان میں انقلاب روس و فرانس رونما ہوگا پھر خلق خدا ان کے دانش بھرے سروں پہ تاج پادشاہی رکھے گی اور ان کے ہاتھوں میں زمام کار تھما کر اپنی پشت ان کی سمت کرکے بیٹھ جائے گی جس سے وہ کوڑا جمال شاہی کھیلیں گے اور رہتی دنیا تک راوی ان کی عملداری میں چین ہی چین لکھے گا۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔پاکستان میں انتخابات ہوئے اور باری باری دو جماعتوں نے عوام پہ سواری گانٹھی۔ جب عوام دونوں سے تنگ آگئے تو ان دانشوروں کی پھر سے امید بندھی کہ شاید چھینکا ٹوٹے اور وہ اپنے سوکھے ہوئے گلوں میں رنگ بھر سکیں۔ ایسا پھر نہیں ہوا۔ ایک تیسری قوت ابھری اور ان کی امیدوں پہ پانی پھیر گئی۔ ساری دنیا میں انقلاب کا دف انتخابات سے مارا جاتا ہے۔رائج مغربی جمہوریت میں انتخابات ایک مخصوص نظام حیات کو دنیا بھر میں رائج کرنے کے لئے پریشر ککر کی گھنڈی کا کام کرتے ہیں۔ تیسری دنیا کے سماجی ڈھانچے میں بالخصوص ان کی حیثیت بس اتنی ہے کہ عوام کو یہ احساس دلایا جاتا رہے کہ حق حکمرانی ان کا ہے ۔ مغرب میں بھی جہاں انتخابات مسلسل کئی دہائیوں سے ایک مستقل پالیسی کی حیثیت سے منعقد ہوتے ہیں، عوام کا یہی کام ہے ۔ وہاں بھی پالیسیاں عوام نہیں بناتے، نہ ہی عوامی نمائندے بناتے ہیں بلکہ چند مخصوص پریشر گروپ اور تھنک ٹینک یہ کام انجام دیتے ہیں ۔ امریکہ میں پی اے سی یا پولیٹیکل ایکشن کمیٹیاں بیسویں صدی کے وسط سے کام کررہی ہیں جن کا مقصد اپنے پسندیدہ امیدواروں کے لئے فنڈ اکھٹا کرنا ہوتا ہے۔سب سے پہلے سی آئی او یا کانگریس آف انڈسٹریل آرگنائزیشن نے جو امریکہ اور کینیڈا کی ایک متحدہ ٹریڈ یونین تھی، 1944 ء میں امریکی صدر روزویلٹ کو دوبارہ صدر بنوانے کے لئے فنڈ ریزنگ کی۔یعنی بندہ مزدور کے خون پسنے کی کمائی ایک سرمایہ دار کے حوالے کردی گئی تاکہ وہ برسر اقتدار آکر مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ اب ان پولیٹیکل ایکشن کمیٹیوں کی جگہ ان سرمایہ دار کمپنیوں نے لے لی ہے جن کی آشیر باد کے بغیر کوئی امیدوار الیکشن لڑ نہیں سکتا، جیتنا تو دور کی بات ہے۔ اب یہ سپر پی اے سی کہلاتی ہیں۔ ان سپر پی اے سی میں اسلحہ ساز کمپنیاں جیسے لاک ہیڈ مارٹن ، بوئنگ،رے تھون جنرل ڈائنا مکس وغیرہ بھی شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں امریکی فوج نے اودھم مچا رکھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں لاکھوں عوام کے احتجاج کے باوجود عراق پہ حملہ ضرور ہوتا ہے ۔ اس وقت کسی کو عوامی رائے کا احترام یاد نہیں رہتا اورمقصد حاصل کرنے کے بعد بس وزیراعظم ٹونی بلئیر کا یہ کہنا کافی ہوتا ہے کہ ان سے غلطی ہوگئی تھی۔یہی وہ جمہوریت ہے جسے انتخابات کے ذریعے عوام تک رسائی دی جاتی ہے تاکہ انہیں محکومی کا احساس نہ ہو اور ان میں باغیانہ اور انقلابی خیالات نہ پلنے لگیں۔اس کے ساتھ ہی یورپ اور امریکہ میں عوامی فلاح و بہبود کا خاص خیال رکھا جاتا ہے ۔ ایسا وہ اپنی آئینی ذمہ داری سمجھ کر کرتے ہیں اور اس لئے بھی کہ وہ سکون سے دنیا بھر میں اپنی خارجہ پالیسیاں نافذ کرسکیں۔ اکتائی اور بپھری ہوئی عوام تیسری دنیا کے حصے میں آتی ہے جہاں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی پالیسیاں چلتی ہیں اور یا تو طویل آمریت مسلط ہوتی ہے یا مسلسل انارکی کی صورتحال سے سابقہ پڑتا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ دس سالوں سے مسلسل جمہوری عمل جاری ہے۔ غالبا ًبارہ اکتوبر کے بعد ہی فیصلہ کرلیا گیا تھا کہ فوج اب مداخلت نہیں کرے گی اور گزشتہ پانچ سالوں میں کئی بار ایسا وقت آیا جب بوٹوں کی چاپ سنائی دی لیکن ایسا ہوا نہیں۔ ان دس سالوں میں اگر باری باری حکومت کرنے والے واقعی جمہوریت سے، مغربی ہی سہی، مخلص ہوتے تو پاکستان کے عوام کی حالت بدل سکتی تھی لیکن دونوں جماعتوں یعنی پیپلز پارٹی اور نون لیگ اور ان کی طفیلی جماعتوں کے لاشعور میں یہ خوف ہوتا ہے کہ شاید یہ حکومت کرنے کا آخری موقع ہو ۔ اسی خوف نے نہ خود ان جماعتوں کے اندر جمہوری رویہ پنپنے دیا نہ اپنی نسل کے سوانئی قیادت کو آگے آنے دیا کہ کہیں بادشاہت کسی اور کے ہاتھ میں نہ چلی جائے اور لوٹ مار کے سلسلے کسی اور خاندان کو مستفید نہ کرنے لگیں۔ آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ شریف خاندان نے جس کے ساتھ مل کر لوٹ مار کا بازار گرم کرنے کی ٹھانی پہلے اسے اپنے خاندان میں شامل کرلیا۔ اس سارے عمل میں پاکستان میں صدیوں سے رائج جاگیرداری اور ڈیرے بازی کے کلچر نے مہمیز کا کام کیا جہاں ووٹ بکتا بھی ہے اور دھونس دھاندلی کے ذریعے ہتھیا بھی لیا جاتا ہے۔ دوسری پارٹی میں بھی اللہ رکھے ایک خاندان کے بھائی بہن کی کرپشن سب پہ بھاری ہے۔جب لوٹ مار کرنے والوں پہ ہاتھ ڈالا جاتا ہے تو جمہوریت اور اسٹیبلشمنٹ کی دہائیاں اس لئے نہیں دی جاتیں کہ انہیں اس جمہوری عمل سے کوئی عشق ہے بلکہ اس لئے کہ اس جمہوری عمل میں لوٹ مار کی کھلی آزادی ہے۔اس سارے اجمالی پس منظر میں اہل وطن کے سامنے ایک ہی راستہ ہے۔اس دستیاب منظر نامے میں بہتر پارٹی کو ووٹ۔ میں نے بہترامیدوار اس لئے نہیں کہا کہ جو پارلیمانی نظام پاکستان میں رائج ہے اس کی بنیاد سیاسی پارٹی پہ ہے۔ آپ کا ووٹ امیدوار کو نہیں اس کی سیاسی پارٹی کو جاتا ہے ۔ اسی لئے چھوٹی پارٹیاں بہتر امیدوار کھڑے کر کے عوام کو اخلاقی دباو میں لانے کی کوشش کرتی ہیں تاکہ پریشر گروپ بنا سکیں۔ ہم ایک ایسے تشکیلی دور سے گزر رہے ہیں جہاں وہ مغربی جمہوریت رائج نہیں ہے جس میں عوام کے بنیادی حقوق کی پاسداری ہو نہ وہ خلافت رائج ہے جہاں امیر المومنین عوام کے ساتھ فاقے کرتا ہو۔ ایک بار عوام کو بنیادی حقوق، انصاف ، صحت، روزگار کے یکساں مواقع اور عالمی برادری میں عزت مل جائے اس کے بعد یہ اسٹیبلشمنٹ اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ کا کھیل ہم خود آپ کے ساتھ مل کر کھیلیں گے۔ فی الوقت ہم نہ سماجی طور پہ اس ذہنی بلوغت کو پہنچے ہیں نہ مہنگائی اور بیروزگاری سے تنگ آئے عوام اس موڈ میں ہیں۔ حال یہ ہے کہ مجرم شریف خاندان پکڑے جانے پہ ساری دنیا میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہی نہیں خالص اینٹی آرمی بیانیہ کا بین ڈال رہا ہے۔ حیرت انگیز طور پہ بھارت میں شریف خاندان کے لئے نرم ہی نہیں گرم گوشہ بھی موجود ہے اور ان کے حریف عمران خان کے لئے واضح نفرت اور خوف پایا جاتا ہے۔بھارتی اخبارڈی این اے میں شائع شدہ آئی بی چیف اور ڈی جی پولیس اویناش موہانانے کا مضمون اس خوف کا گواہ ہے جس میں وہ انتخابات میں پاک فوج کی کھلی مداخلت کے نتیجے میں بننے والی عمران خان کی حکومت کا یقینی اور کھلم کھلا اظہار کرتا ہے۔یہی الزام آج کل زور شور سے نون لیگ پاک فوج پہ لگا رہی ہے۔ عوام خود فیصلہ کرلیں کہ کس کی ڈوریں کہاں بندھی ہیں۔ ووٹ ڈالنے سے قبل یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ آنے والا مہنگائی کا طوفان بھی اسی خاندان کا مرہون منت ہے۔گزشتہ پانچ سالوں میں بیرونی قرضوں کا حجم ترانوے ارب ڈالر ہوچکا ہے۔برامدات میں چھ ارب ڈالر کی کمی ہوئی ہے، گردشی قرضے ایک ہزار ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ ہر سال دس ارب سے زائد روپوں کی منی لانڈرنگ ہوتی ہے۔شریف ہی نہیں زرداری خاندان بھی اس میں ملوث ہے۔ پنجاب میں جہاں چھوٹے میاں کی حکومت تھی کرپشن کا الگ ہی رنگ ہے۔ملکی خزانہ لوٹ کر اپنی تجوریاں بھری جاتی رہیں اور ملکی معیشت کو آئی ایم ایف کے قرضوں کے انجیکشن لگا کر مصنوعی تنفس پہ زندہ رکھا ۔یہ افسانے نہیں حقائق ہیں اور عمران خان جسے یہ قوم کے مجرم یو ٹرن کا طعنہ دیتے نہیں تھکتے گزشتہ بائیس سالوں سے یہی شعور دینے کی کوشش کررہا ہے۔ اس کے دامن پہ کرپشن کا کوئی داغ نہیں ۔ جس نے عوام کو روٹی کپڑا ور مکان کے خیراتی نعرے سے تعلیم صحت اور انصاف کے مطالبے کا شعور دیا ہے۔فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ اگلے پانچ سال کرپشن اور معاشی بدحالی کے اندھیروں میں گزارنے ہیں یا ظلم ناانصافی اور بدعنوانی کے خلاف جو مشعل ایک شخص نے اٹھارہ برس قبل روشن کی تھی اسے تابناک سورج بنانا ہے۔