لاہور میں روایتی طور پر ’’شبِ معراج‘‘کا سب سے بڑا اجتماع داتا دربار میں ہوتا ہے ، گذشتہ شب بھی ایسا ہی تھا، بلکہ معمول اور روایت سے بھی ذرا بڑھ کر ۔۔۔۔ وہ اس لئے کہ اس مرتبہ، یہ بابرکت شب اورشبِ جمعہ یعنی جمعرات اکٹھے ہوگئے، اور یوں اس’’قِرانُ السّعدَین‘‘یعنی دو اچھے ستاروں کا سنجوگ ، دو اچھی شخصیات کا اجتماع ۔۔۔ بلکہ ان دو سعادتوں کے اتصال سے زائرین اور عامۃُ المسلمین کو استفادے کا خوب موقع میسر آیا۔انفرادی اور اجتماعی سطح پر عبادت کا خوب اہتمام ہوا،شیرینی،تبرک اور لنگر بھی نہایت وافر انداز میں تقسیم ہوا،نوافل اور ذکر و اذکار کے دائرے اور زاویے آراستہ ہوئے،بھرپور چراغاں اور دینی و ایمانی ولولوں کی پھوار۔۔۔۔لیکن کیا اس شب کی حقیقت انہی چند رسومات کی ادائیگی تک محدود تھی یا یہ رات ہم سے اپنی عملی اور معاشرتی زندگی میں کچھ تبدیلیوں کا بھی تقاضہ کرتی ہے۔حضرت اقبال نے ضرب کلیم میں’’معراج ‘‘کے عنوان سے جو اشعار کہے ، اس کا معنی اور مفہوم بھی یہی تھا: دے ولولہ شوق جسے لذت پرواز کر سکتا ہے وہ ذرہ مہ و مہر کو تاراج! مشکل نہیں یاران چمن! معرکہ باز پر سوز اگر ہو نفس سینہ دراج ناوک ہے مسلماں، ہدف اس کا ہے ثریا ہے سر سرا پردۂ جاں نکتہ معراج تو معنی والنجم نہ سمجھا تو عجب کیا ہے تیرا مد و جزر ابھی چاند کا محتاج یعنی اگر کسی معمولی مسلمان میں بھی عشقِ رسالتماب ﷺ کا جذبہ پیدا ہو جائے تو وہ اس جذبے کی بدولت دنیا میں انقلاب پیدا کر سکتا ہے اور حیرت انگیز کارنامے سرانجام دے سکتا ہے ۔ مسلمان تیر ہے،جس کا نشانہ ثریا ہے،یعنی یہ تیر ان بلند ستاروں کو نشانہ کئے بغیر نہیں رہتا،اقبال فرماتے ہیں کہ میں نے معراج نبوی سے یہ سبق اخذ کیا ہے کہ مسلمان میں اگر محبت رسول کا جذبہ کارفرما ہو تو زمین کیا،کائنات بھی زیرنگین ہو سکتی ہے ۔لیکن اے مسلمان! تیرا مدو جزر ابھی چاند کا محتاج ہے ،یعنی تو ابھی تک عناصر اربعہ کی قید اور پھر شعبہ مادی اسباب کا محتاج ہے ۔تم نے عشقِ رسول ﷺ سے حاصل ہونے والی قوت سے خود کو مرتبہ کمال تک نہیں پہنچایا، ابھی تیری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ سرور کائنات اس جسم کے ساتھ کس طرح آسمان پر تشریف لے گئے ، اے مسلمانو! مانا کہ تم کمزور ہو ، لیکن اگر تمہارے سینے میں عشقِ رسول ﷺ کا سوز پیدا ہو جائے ،تو تم طاقتور دشمن کو بھی مغلوب کر سکتے ہو۔بہرحال ۔۔۔ بلاشبہ یہی وہ بابرکت رات ہے ،جب اللہ نے اپنی مادی ، معنوی اور روحانی برکتوں اور خزانوں کے منہ کھول دیئے ،نور ذات سے صفات کے پردے اُٹھائے، اپنے عبدِ خاص کے لیے بیکراں مسافتیں سمیٹ دی اور اپنے بندۂ کامل و اکمل کو حریم قدس میں "دَنَا فَتَدَلّٰی"کی منزلیں طے کروا کے ،قرب و حضوری کے اس مقام رفیع پر فائز کیا،جس کی تعبیر زبانِ قدرت نے "فَکَانَ قَابَ قَوسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی"کے محبت آمیز کلمات سے فرمائی۔اس سے مزید قرب کا تصوّر محال اور اس سے بڑھ کر دلنشین اسلوب کا اختیار کیا جانا ناممکن ۔اس سفر مقدس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم ﷺ کو اپنی قدرت کی کچھ "آیاتِ کُبری"کا مشاہدہ اور چند اعمال پر مرتب ہونے والے اثرات اور عواقب کو محسوس پیکر میں پیش بھی کیا، تاکہ اُمّتِ محمدیہ ﷺ ان سے عبرت حاصل کر کے،اپنی معمول کی معاشرتی زندگی کو ان برائیوں سے پاک کر سکے ۔نبی اکرم ﷺ نے سفرِ معراج کے دوران ایک قوم کو دیکھا جو کھیتی باڑی کرتی ہے،وہ لوگ جو آج فصل بوتے ہیں،دوسرے دن وہ فصل پک کر تیار ہو جاتی ہے،وہ اسے کاٹ لیتے ہیں،کچھ دیر کے بعد وہ فصل از سرِ نو لہلہانے لگتی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا! اے جبرئیل یہ کیا ہے ! جبرئیلؑ نے عرض کی یہ اللہ کے مجاہد ہیں، جن کی نیکیوں کو سات سو گناہ کر دیا گیا ہے، وہ جو خرچ کرتے ہیں، انکی جگہ،ان کو اسی وقت مزید عطا کر دیا جاتا ہے۔حضور ﷺ کا گزر ایک ایسی قوم کے پاس سے ہوا، جن کے سروں کو ضربیں مار مار کر کوٹا جا رہا تھا،ان کے سر کچلے جاتے ،وہ پھر از سرِ نو درست ہو جاتے،یہ سلسلہ لگاتار جاری رہتا ،حضور ﷺ نے پوچھا!اے جبرئیل یہ کون لوگ ہیں،عرض کیا گیا یہ وہ لوگ ہیں جو فرض نماز کی ادائیگی میں غفلت کرتے ہیں، پھر ایسی قوم دیکھی گئی جن کے آگے پیچھے چیتھڑے تھے،اور ان کو ایسے چر رہے تھے، جیسے اونٹ اور بکریاں چرتی ہیں، بتایا گیا یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مالوں کی زکوٰۃ نہیں دیتے۔آپ ﷺ نے ایک ایسی قوم کو دیکھا جن کے پاس ایک ہانڈی میں پکا ہوا لذیذ گوشت ہے اور دوسری میں بدبودار گوشت ، یہ لوگ پاکیزہ اور لذیذ گوشت چھوڑ کر ،گندا اور بدبودار گوشت کھانے کے شوقین ہیں۔ حضور ﷺ کو عرض کیا گیا یہ آپ ﷺ کی امت کے وہ لوگ ہیں،جن کے پاس حلال اور طیب بیویاں تھیں، لیکن وہ بدکار عورتوں کے ساتھ رات گذارتے۔یہی حال اس عورت کا ہوگا ، جو حلال اور طیب خاوند کو چھوڑ کر خبیث آدمی کی طرف رجوع کرے گی۔ آپ ﷺ نے راستہ میں ایک لکڑی دیکھی ، جس کے پاس سے،جو چیز گزرتی وہ اسکو نقصان پہنچاتی اور پھاڑ دیتی۔ بتایا گیا یہ آپ ﷺ کی امت کے وہ لوگ ہیں جو راستوں میں منڈلیاں جمع کر کے اور کچہریاں لگا کر بیٹھیں گے اور لوگوں کے راستے کاٹے گے۔پھر ایک آدمی کو دیکھا جو خون کی ایک نہر میں تیر رہا ہے،اسکے منہ میں پتھر ڈالے جا رہے ہیں،عرض کیا گیا یہ سود خور ہے۔ پھر ایک ایسا آدمی دیکھا گیا جس نے بڑی بھاری گٹھڑی باندھی ہوئی ہے،لیکن وہ اس کو اُٹھا نہیں پا رہا،اور اس میں سامان اور بوجھ کا مزید اضافہ کرتا جاتا ہے،بتایا گیا حضور ﷺ یہ آپ کی امت کا وہ آدمی ہے جس کے پاس لوگوں کی امانتیں ہیں اور وہ ان کی ادائیگی کا صحیح اہتمام نہیں کر پائے گا اور مزید امانتوں اور ذمہ داریوں کے حصول کا خواہشمند ہوگا۔پھر ایک اور ہیبت ناک اور تکلیف دہ منظر دیکھا گیا کہ قینچی کے ساتھ ایک گروہ کی زبانیں اور ہونٹ کاٹے جا رہے ہیں، وہ زبانیں اور ہونٹ کٹنے کے بعد دوبارہ درست حالت میں جوں کے توں ہو جاتے ہیں، یہ سلسلہ یونہی جاری رہتا ہے ، حضور ﷺ کو بتایا گیا کہ یہ حضور ﷺ کی امت کے فتنہ باز خطیب ہیں، جو دوسروں کو کہتے ہیں ، خود اس پر عمل نہیں کرتے۔ پھر ایسا گروہ نظر آئے گا ، جن کے ناخن تانبے کے ہیں، اور وہ اپنے چہرے اور سینوں کو اس سے کھرچ رہے ہیں،جبرئیل ؑ نے ان کے بارے میں بتایا یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے،عزتیں پائمال کرتے، ان کی غیبت کرتے اور ہمہ وقت دوسروں کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے ہیں۔