فلم کی دنیا میں بڑے نامی گرامی ولن گزرے ہیں، انکے کردار سے زیادہ انکا ہر فلم میں کوئی مخصوص ڈائیلاگ اصل شہرت کا باعث ہو تا ہے۔اپنی فلمی صنعت کی بات کریں تو مصطفیٰ قریشی جیسا دبنگ ولن اور انکا زبان زد خاص و عام ڈائیلاگ " نواں آیا ایں سوہنیا" کسے یاد نہیں ہے۔پھر اس سے پہلے معروف ولن مظہر شاہ ہوا کرتے تھے۔انکے ڈائیلاگ"میں ٹبر کھا جاں تے ڈکار نہ ماراں"اور "نبوں وانگوں پھہ کے رکھ دیا گاں"بہت مشہور ہوئے۔اسی طرح سے ہر فلم میں ایک ایسا کردار ہوتا ہے جو لڑائی کے دوران کسی کونے یا بیڈ کے نیچے چھپ جاتا ہے اور خطرہ ٹلتے ہی باہر نکل کر نعرہ لگاتا ہے "لیا او میری بندوق، مکئی وانگوں بھن کے رکھ دیا گاں " (لائو میری بندوق ، مکئی کی طرح بھون دونگا)۔ جب میاں شہباز شریف کے آصف زرداری کے حوالے سے پیٹ پھاڑ کر پیسے نکالنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے اور لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے حوالے سے دعوے اور نام بدل دینے کی بات سنتا تھاتو مجھے مظہر شاہ اور مصطفیٰ قریشی بہت یاد آتے تھے۔خادم اعلیٰ کے دعووئوں کا بھی وہی انجام ہوتا رہا جو ہماری فلموں میں تمام تر دبنگ ڈائیلاگ بولنے کے باوجودولن کا ہوتا ہے۔لیکن میاں نواز شریف کی وطن واپسی کی پرواز جب جمعہ کے روز لاہور ائیر پورٹ پر اتری تو انکا کردار وہی تھا جو لڑائی کے بعد بندوق مانگنے والے کا ہوتا ہے۔تمام تر دعوئوں اور انتظامیہ کو دھمکیوں کے باوجود ائر پورٹ پرپہنچنا تو دور کی بات ہے وہ اس راستے پر گامزن بھی نہ ہو پائے تھے کہ میاں نواز شریف اور مریم صفدر کو نیب کے افسران گرفتار کر کے اسلام آباد لے آئے۔مسلم لیگ (ن) کے پورے ملک کے سربراہ ہونے کے ناطے یہ انکا تیسرا امتحان تھا جس میں وہ بری طرح ناکام ہوئے۔پہلا مرحلہ وہ تھا جب ان تمام امیدواروں کو وہ روکنے میں ناکام رہے جو الیکٹیبلز کہلاتے ہیں اور پھر ٹکٹیں ملنے کے بعد بھی انکے امیدوار انہیں چھوڑتے رہے اور وہ کچھ نہ کر پائے۔ دوسرا امتحان چوہدری نثار جیسے ساتھی کی میاں نواز شریف کی ناراضگی تھی۔بجائے اسکے کہ وہ یہ ناراضگی ختم کراتے انہوں نے خود سے بھی چوہدری نثار کو دور کر دیا۔تیسرا مرحلہ میاں نواز شریف کی وطن واپسی کا تھا جس کے لئے انکے پاس معقول وقت تھا۔ اگر وہ صرف لاہور شہر میں ہی اپنا اثرو نفوذ استعمال کرتے تو جہاں سے انہیں 2013 ء کے انتخابات میں تیرہ لاکھ ووٹ ملے تھے پچیس تیس ہزار لوگ تو نکال ہی سکتے تھے۔ لیکن تیاری تو درکنار انہوں نے ایک پھس پھسی سی پریس کانفرنس کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ یہی صورتحال رہی تو 2018 ء کے انتخابات کے میاں شہباز شریف کی قیادت میں نتائج کے بارے میں پیش گوئی کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔کم از کم اس صورتحال کو دیکھنے کے بعد ایک بات کا اندازہ ہو رہا ہے کہ میاں نوازشریف جماعت کی قیادت اپنے چھوٹے بھائی کو دینے سے کیوں گریزاں تھے۔ان سے بہتر کون جانتا ہے کہ شہباز شریف ایک مقلد کے طور پر تو بہت کامیاب ہیں لیکن اگر انکو قیادت کی ذمہ داری سونپی گئی تو بہت امید نہیں رکھی جا سکتی۔اگرچہ انکے حامیوں میں گھرے ہوئے ایک مربی نے اپنے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے مسلم لیگ (ن) کے حامیوں کو یہ یقین دلانے کی بھرپور کوشش کی کہ لاہوری گیٹ پر وہ اپنی آنکھوں سے پچاس ہزار لوگوں کا اجتماع دیکھ کر آ رہے ہیں۔جبکہ انکو دو چیزوں کا شاید ادراک نہیں رہا کہ لاہوری گیٹ پر اتنے لوگوں کے جمع ہونے کی گنجائش نہیں ہے دوسرا یہ کہ وہ اتنے رش میں وہاں سے نکل کیسے آئے۔پھر انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے بیتاب ورکروں کے اصرار پر کہ آپ یہ ٹی وی پر ضرور بتائیں انہوں نے فرمایا کہ"ایہہ خبر چلان دین گے تے چلے گی"(یہ خبر چلانے کی اجازت ہو گی تو چلے گی)۔ تا ہم انہوں نے یہ تسلی ضرور دی کہ اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس پر انہوں نے یہ خبر جاری کر دی ہے۔انکے دعوے کے ثبوت کے طور پر آپ انکی لاہوری گیٹ کی کوریج والی فوٹیج انکے ٹوئٹر اکائونٹ پر دیکھ سکتے ہیں۔خیر دیکھنے والی آنکھ ہو تو سب نظر آتا ہے۔ اب کچھ ذکر میاں نواز شریف کی وطن واپسی کا جسکے بارے میں کئی چہ مہ گوئیاں ہو رہی ہیں۔کوئی ڈیل کا حصہ قرار دے رہا ہے تو کوئی اسے جوانمردی کی ایک لازوا ل تاریخ رقم کرنیکے مترادف کہہ رہا ہے۔اگر ڈیل کی بات کریں توسوال یہ ہے کہ ڈیل کیا ہو سکتی ہے اور کیوں ہو گی۔ڈیل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ میاں نواز شریف خود ہیں ۔اب تک کا انکا ٹریک ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ ان پر اعتبار کرنا آسان نہیں ہے۔ چاہے وہ جدہ جانے کی 2000 میں کی گئی ڈیل ہو،میثاق جمہوریت ہو، آصف زرداری کے ساتھ مل کر چلنے کی ڈیل ہو۔ جدہ دس سال کی ڈیل پر گئے لیکن اسکی خلاف ورزی کرنے پر آئے تو اپنے سعودی مہربانوں کی بھی نہ سنی اور با لآخراس وقت کے سعودی انٹیلی جنس چیف پرنس مقرن اور لبنان کے مرحوم وزیر اعظم رفیق حریری(جنہوں نے یہ ڈیل کرائی تھی)کے صاحبزادے کو پاکستان آ کر وہ ڈیل لوگوں کو بتانی پڑی۔میثاق جمہوریت کا انجام بھی سب کو معلوم ہے اور پھر آصف زرداری تو اب تک اپنے زخم چاٹ رہے ہیں کہ کس طرح انکے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھا کر میمو گیٹ میں انکی پیٹھ میں خنجر گھونپا۔انکی واپسی کی واحد وجہ مقررہ مدت میں اپیل دائر کرنا ہے اور وہ یہ دائر کر کے ضمانت حاصل کرنے کی کوشش کرینگے۔ اسکے بعد شاید انہیں انتخابی مہم چلانے کا موقع بھی ملے۔لیکن انکی جوانمردی کا امتحان تب ہو گا جب وہ آخری اپیل بھی بھگتا چکیں گے اور انہیں احتساب عدالت سے ملی پوری سزا کاٹنا پڑے گی۔انکا اصل سیاسی کیرئر تب شروع ہوگااور وہ کندن بن کر نکلیں گے۔ لیکن اس مرحلے تک پہنچنے کے لئے ابھی اور بہت سے امتحان باقی ہیں، جس میں سب سے اہم 2018ء کے انتخابات کے نتائج ہونگے۔ حضرت میاں محمد بخش نے کیا خوب کہا ہے: پھس گئی جان شکنجے اند ر جیوں ویلن وچ گناّ روح نے کہہ ہن روے محمد ہن جے رہوے تے مناّں