سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف بھی گرفتار کر لیے گئے۔ مبصرین کا عمومی خیال یہی رہا ہے کہ وہ گرفتار نہیں ہوں گے لیکن یہ عمومی خیال غلط نکلا۔ کرامات کی بات یہ ہے کہ ان پر اس منصوبے میں حکومت کے خزانے کو کروڑوں یا اربوں کا نقصان پہنچانے کا الزام ہے جو ابھی شروع ہی نہیں ہوا۔ نہ تو حکومت اس کے لیے کوئی اراضی دی نہ فنڈ کے نام پر ایک روپیہ مختص ہوا‘ پھر بھی کرپشن ہو گئی۔ کرامات کی حد لگتی ہے۔ جس روز انہیں پکڑا گیا‘ اس سے ایک دن چھوڑ کر ایک دن پہلے قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا۔ اس میں شہباز شریف نے خطاب کیا تو شہنشاہ معظم بھی ایوان میں موجود تھے۔ وہ شہباز شریف کی طرف بار بار دیکھتے اور بار بار مسکراتے۔ گیلریوں میں موجود مبصرین حیران تھے کہ اس مسکراہٹ کا راز کیا ہے۔ شہباز کی تقریر مزاحیہ نہیں تھی نہ ہی وہ مشاہد اللہ کی طرح مزاحیہ چٹکلے چھوڑتے ہیں۔ پھر وہ کیوں مسکرائے اور وہ بھی بار بار۔ یہ راز گرفتاری کے دن کھل گیا۔ یعنی معاملہ اطلاع غیب کا تھا‘ مردان غیب سے کچھ بات چلی تھی اور شہنشاہ معظم جانتے تھے‘ یہ آخری تقریر ہے‘ پھر ڈاکٹر عاصم کی طرح دو تین سال کے لیے گئے۔ یہ تو اطلاع غیب کا معاملہ تھا۔ ایک ماجرا چھٹی حس کا بھی ہوا کرتا ہے۔ کئی ہفتے پہلے جس روز نیب کے چیئرمین شہنشاہ معظم کے حضور حاضری دینے کے لیے حاضر ہوئے تھے‘ اسی رات ایک تجربہ کار خبر نویس اینکر پرسن نے اپنے پروگرام میں کہا تھا۔ مجھے لگتا ہے ‘شہباز اب جیل میں ہوں گے۔ کئی ہفتے پہلے اطلاع مل جانے کے اس واقعے کا تعلق چھٹی حس ہی سے تھا کہ موصوف کا کوئی دور دور تک تعلق رجال غیب سے نہیں تھا بلکہ ان کے ہاں تو یہ صاحب راندہ درگاہ حضرات کی فہرست میں شامل ہیں۔ ٭٭٭٭٭ ملاقات کی کہانی باخبر ذرائع کو ہو گی اور ہر لکھنے والا باخبر ذرائع میں شامل نہیں ہوتا۔ بہت سوں کو چھٹی حس اور بہت سوں کو قیاس سے کام لینا پڑتا ہے اور قیاس کی کڑیاں کچھ یوں جڑی ہیں کہ بزرگ رجال غیب نے منے میاں سے فرمایا‘ لو منے‘ ہم نے مخالف ٹیم کے ہاتھ پائوں باندھ کر تمہیں بڑا میچ جتوا دیا‘ تخت طائوس بھی دلوا دیا‘ اب آگے اکتوبر میں ایک چھوٹا سا میچ پڑ رہا ہے‘ چشم بد دور‘ اب تم بڑے ہو گئے ہو‘ تخت و تاج بھی تمہارے پاس ہے‘ یہ میچ خود ہی جیت لو۔ ہم ذرا آرام کے موڈ میں ہیں۔ یہ سنتے ہی منے میاں دھم سے فرش پر لیٹ گئے۔ ہاتھ پائوں چلانے اور منہ بسورنے لگے‘ ایڑیاں رگڑنے لگے’’ نئیں نئیں میں نئیں‘‘ کی سسکاریاں بھرنے لگے۔ رجال غیب کو ترس آ گیا۔ اور اس کے بعد پھر وہ ملاقات ہوئی جس میں طے ہونے والی باتیں طے ہو گئیں اور اب یعنی 15اکتوبر کو عمل ہو گیا۔ معاف کیجئے گا‘ ابھی جزو اعظم پر عمل ہوا ہے‘ اجزائے دیگر پر بس ہوا چاہتا ہے‘خواجہ برادران ‘ عباسی اور کچھ دوسرے امیدوار کسی اور کیس میں دھر لئے جائیں گے۔ صاف پانی نہ سہی‘ شفاف پانی‘کالا پانی‘ تتہ پانی‘ گیس بنانے کے مسالے کی کمی نہیں۔ پھر باری آئے گی ان کی جو انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ گرفتاری پر احتجاج کی شق موجود ہے‘ بعض پر تو مقدمے درج بھی ہو چکے۔ فرض کیجئے(اور یاد رکھئے کہ فرض کرنے سے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہو گی) کہ سب کچھ کے باوجود بھی ضمنی الیکشن کے نتائج قومی مفاد کے خلاف برآمد ہونے کا خطرہ کم نہ ہوا تو کیا ہو گا؟کچھ بھی نہیں‘ بس شیخ رشید کے فارمولے پر دوبارہ سے عمل کر لیا جائے گا‘ وہی اندر بھی ہم باہر بھی ہم والا فارمولا اور پھر وہ اپنے‘ کیا نام ہے یاد نہیں آ رہا۔ چلئے ایک بار پھر فرض کر لیتے ہیں کہ ان اپنے کا نام راضی برضا خاں ہے‘ وہ تو موجود ہی ہیں‘ فائنل چٹ تو انہیں نے بنانی ہے۔ پھر کیا ڈر گھبراہٹ کیسی؟ ٭٭٭٭٭ ایک لیگی ورکر سے ملاقات ہوئی۔ سینئر ہیں اور تجربہ کار دیکھنے میں بھی سیانے لگتے ہیں لیکن بات قطعی ’’غیر سیانی‘‘ کی۔ زیادہ اس بار فارمولے نہیں چلیں گے۔ ووٹوں کا فرق اتنا زیادہ ہو گا کہ ہماری جیت یقینی ہے۔ عرض کیا‘ ووٹوں کا فرق کتنا زیادہ ہو گا؟ فرض کریں آپ کو ایک لاکھ بیس ہزار ووٹ ملتے ہیں(کتنے ملتے ہیں یہ پتہ نہیں لیکن فرض کر لیجیے) اور آپ کے مخالف کو بہت کم ملتے ہیں‘ مثلاً صرف 14ہزار تو اتنے کم تو نہیں ہوں گے لیکن فرض کرنے میں کیا برائی ہے) گویا آپ کا امیدوار ایک لاکھ چھ ہزار ووٹوں سے جیت جائے گا۔(اتنی لیڈ ہو گی نہیں لیکن یاد رہے‘ معاملہ فرض کرنے کا ہے) فرض کرتے چلے جائیے‘ معاملہ اسی حضرت کے پاس جاتا ہے جنہوں نے فائنل چٹ جاری کرنی ہے۔ وہ چودہ ہزار کی گنتی کے دائیں طرف ایک صفر یا کسی بھی ایک عدد کا اضافہ کر دیتے ہیں اور آپ کے ووٹ ایک لاکھ بیس ہزار‘ مدمقابل کے ایک لاکھ چالیس ہزار ہو جاتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ شہباز کے گرفتار ہوتے ہی مرکز اور پنجاب کے وزرائے اطلاعات نے بلا تاخیر اندر کی مزید خبریں دینا شروع کر دی۔ بتایا کہ مزید گرفتاریاں ہونے والی ہیں۔ یہ سوال کسی سے مت کیجئے گا کہ نیب کی خبریں انہیں کون دیتا ہے۔ پوچھیں گے تو لوگ ہنسیں گے اور آپ کو بھولے شاہ کا خطاب دیں گے۔ شہباز کا دس روز کا ریمانڈ ہوا ہے اور حکمران جماعت کے اشارے ہیں کہ 90روز‘ پھر 90روز کا سلسلہ چلتا رہے گا اور ڈاکٹر عاصم کیس کا۔ ری پلے‘ ہو گا۔ ابھی شہباز پر کوئی ریفرنس بنا نہیں ہے اور ریفرنس تو احد چیمہ پر بھی نہیں ہے جنہیں آشیانہ کیس میں گرفتار ہوئے چھ سات مہینے ہو گئے۔ احد چیمہ جس دن پکڑے گئے تھے‘ قصور کے قاتل کے 37فارن کرنسی اکائونٹس اور ان میں اربوں ڈالر موجود ہونے کی پوری ذمہ داری سے اطلاع دینے والے اینکر پرسن اور ان کے دیگر ہم قافیہ اینکر پرسنز بہت دور کی کوڑیاں لائے تھے۔ پوری ذمہ داری سے یہ اطلاع ان لوگوں نے اپنے پروگراموں میں دی تھی اور کئی ہفتے تک دیتے چلے گئے تھے کہ احد چیمہ نے طوطے کی طرح فرفر ساری کہانی بتا دی ہے۔ اربوں کھربوں کا سراغ مل گیا ہے مزید اربوں کھربوں کا ملنے والا ہے۔ سات ماہ ہو گئے‘ انتظار ہے کہ مبلغ سات روپے ہی کا سراغ مل جائے۔ امید ہے‘ ایک نہ ایک دن مل جائیں گے۔ ابھی تو سات ماہ ہی ہوئے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ گرفتاری کی ایک وجہ اور بتائی جاتی ہے۔ جس ٹھیکیدار کو شہباز شریف نے ٹھیکے سے محروم کیا تھا‘ وہ تو زبردست لاڈلا نکلا۔ کچھ اس کا غصہ بھی تھا۔ یہ لاڈلا ٹھیکیدار صاف و امین حضرات نے پشاور میٹرو پر لگا دیا۔ بہرحال‘ یہ اضافی غصہ تھا‘ بنیادی نہیں۔ افسوس‘ شہباز شریف نے ’’جوہر قابل‘‘ کی بے قدری کی۔ اس بے قدری کا صلہ پشاور والے ستر ارب روپے مالیت سے’’تعمیر‘‘ کئے جانے والے کھڈوں کھائیوں کی صورت میں وصول کر رہے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ وزیر خزانہ اسد عمر نے اپنی اس بات کو دہرایا ہے کہ سعودی عرب کو سی پیک میں شمولیت کی دعوت چین کو اعتماد میں لے کر دی۔ یہ بات متنازعہ کب تھی۔ پچھلے دور ہی میں یہ دعوت سعودی عرب کو دی گئی تھی۔ متنازعہ بات وہ تھی جس میں آپ لوگوں نے سعودی عرب کو سی پیک کا تیسرا فریق بنایا تھا۔ اس پر سنا ہے‘ چین یک لخت اتنا’’گرم جوش‘‘ ہو گیا تھا کہ ’’گرم جوشی‘‘ کم کرنے کے لیے کسی اور کو چین جانا پڑا۔ اس کے بعد آپ کو اپنا پیشکش نما دعویٰ واپس لینا پڑا۔ پھرتیوں سے بھری اس مہم میں سعودی عرب سے آنے والے دس ارب ڈالر کی نقدی بھی لاپتہ ہو گئی اور ہنوز لاپتہ ہے۔ اسی دوران آپ حضرات نے سعودی عرب سے پانچ سال تک تیل کی ادھار فراہمی کی خوشخبری بھی سنا دی۔ سنا ہے اس پر چین کی طرح سعودی عرب بھی’’گرم جوش‘ ہو گیا اور آپ کے وزیر پٹرولیم کو پریس کانفرنس میں کہنا پڑا کہ ہمیں یہ بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔ اس دوران زرمبادلہ کے ذخائر جو دو ماہ پہلے سولہ سترہ ارب ڈالر تھے‘ اب آدھے رہ گئے ہیں۔ باقی کہاں گئے؟ روحانیات والے یہ بتا سکتے ہیں۔ بچت پروگرام کے تحت وزیر اعظم ہائوس کی بھینسیں بیچ دی گئی ہیں کہ ہر ماہ کئی ہزار روپے کا چارہ کھا جاتی تھیں۔ہاں‘ مزید پانچ کے اضافے کے ساتھ وفاقی کابینہ کے ارکان کی تعداد خیر سے 36ہو گئی ہے جو سنا ہے‘ نومبر تک چالیس ہو جائے گی۔بھینسیں ہرگز نہیں رکھنا چاہیں‘ ہزاروں روپے ہر مہینے ان پر اٹھ جاتے ہیں۔