طبیعت میں ہر وقت کچھ نہ کچھ کرنے کی دھن سوار رہتی ہے۔ چنانچہ ایک نئی اسائئنمنٹ پر، استاد محترم سے راہنمائی کا طالبگار ہوا۔ جواب ملا ’’تمہاری Personality Type کے لیے موزوں نہیں، البتہ کوشش کرکے دیکھ لو، تاکہ کبھی پچھتاوا نہ رہے۔ ‘‘ میں حیران ، اس ساری گفتگو میں نئی اور مختلف بات "personality type" تھی۔ اس پیرائے میں پہلی بار بات ہو رہی تھی۔ پوچھا کہ سر اس سے کیا مراد ہے ۔۔۔۔ تو گفتگو کا نیاافق روشن ہوا۔ موضوع کا نام MBTI (Myers-Briggs Type Indicator) تھا۔ کچھ عرصہ قبل ایک کتاب زیر ِ مطالعہ رہی، کتاب کا نام "Was that really me?" ۔ اس کی مصنفہ نیومی کوئینک Naomi) (Quenk نے مایہ ناز ماہر نفسیات کارل یونگ (Karl Jung) کی بیان کردہ سولہ فطرتی اقسام پر بحث کی ۔ اُـس وقت تو کچھ خاص پلے نہ پڑا ، البتہ استادِ محترم کے ساتھ اس پر کی گئی گفتگو اور انہیں کے بتائے گئے پاکستان کے نام ور ماہر نفسیات ڈاکٹر قمر الحسن کے لیکچر سننے کے بعد اس کتاب سے جڑی بہت سی گتھیاں سلجھنے لگیں۔ بقول کارل یونگ ، اس کائناتِ انسانی کو اگر آپ شخصیت کی بناوٹ کے پیرائے میں جانچیں اور سمجھیں تو آپ کو کُل ۱۶ مختلف اقسام کی شخصیا ت روز مرہ کی زندگی میں ملیں گی۔ہر قسم کی اپنی خصوصیات ہیں جو اپنے طرز کے سانچے میں ڈھلی ہیں اور پھر انہیںکی بنیاد پر وہ مختلف بھی ٹھہرتی ہیں۔یہی اقسام آپ کی فطرت کے رنگ اور ڈھنگ کو عیاں کرتی ہیں۔ اپنی اور اپنے ساتھ جڑے لوگوں کی شخصیات کو سمجھنے کا سب سے آسان اور بہترین ذریعہ یہی ہے۔ شخصیات میں سب سے پہلا اور بنیادی فرق جسے یونگ زیرِ غور لاتا ہے وہ Introvert (I) اور (E) Extrovert ۔ انٹروورٹ شخص اپنے اندر کی دنیا کی طرف جھکائو رکھتا ہے، اور ایکسٹرورٹ باہر کی دنیا کی جانب ۔ اگرچہ ہر انسان کا پالا کہیں نہ کہیں روز مرہ کی زندگی میں دونوں جانب ہی پڑتا ہے ، لیکن رغبت زیادہ کس جانب ہے، آپ کے غالب رویہ کی ترجمانی کرتا ہے۔ میں اپنے آپ سے ہم کلام ہوں، یہ introversion کہلاتا ہے۔ جبکہ میرا لوگوں سے مخاطب ہونا extroversionہے۔ انٹروورٹ شخص بھیڑ میں بھی اپنے اندر ہی کی دنیا سے سرشار رہتا ہے ۔ Extrovert ہمیشہ بہ نسبت تنہائی کے، لوگوں کے بیچ اپنے آپ کو متحرک محسوس کرتا ہے۔ شخصیات میں تفریق کی دوسری بنیا د اس امر پر واقع ہے کہ آپ معلومات کو کیسے سمجھتے اور مختلف محرکات کا ادراک کیسے کرتے ہیں۔ ایک اندازِ فکرSensing ــ (S) کہلاتا ہے اور دوسرا Intuition (N)۔ Sensing سے کام لینے والے ٹھوس چیزوں کی بنیاد پر سیکھتے اور اپنے فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ لوگ صرف انہیں عناصر سے معلومات اخز کرتے ہیں جنہیں اپنے پانچ حواس کے ذریعے محسوس کر سکتے ہوں۔دوسری جانب Intuition سے کام لینے والے لوگ اپنی چھٹی حس پر انحصار کرتے ہیں۔ جن کی ٹائپ Sensing ہو وہ آج میں جیتے ہیں ، جبکہ Intuition سے کام لینے والے آنے والے وقت پر نظر رکھتے ہوئے قدم اٹھاتے ہیں۔ پہلی ٹائپ کے دما غ میں کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے ’’کیا اورکیسے کرنا ہے؟‘‘ جیسے سوالات زیر ِ غور رہتے ہیں۔دوسری جانب ’’کیوں کرنا ہے، اور اس سے پہنچیں گے کہاں؟‘‘سوالات دماغ میں رہتے ہیں۔ اگلی تقسیم کی بنیاد "Judging Function" کہلاتی ہے۔ یعنی آپ صحیح اور غلط فیصلہ کا تعین کیسے کرتے ہیں، آپ کی فیصلہ سازی کی بنیاد کیا ہے ، وغیرہ وغیرہ ۔ ایک قسم ان کی ہے جو Thinking (T) یعنی سوچ سمجھ کر، ناپ تول کر اور نفع ونقصان سوچ کر ہر فیصلہ کرتے ہیں۔ دوسری قسم ان کی ہے جو Feeling (F) کی بنیاد پر قدم اٹھاتے ہیں۔ یعنی وہ جیسا محسوس کر رہے ہوں ، جہاں ان کی فیلینگ ہو کہ یہ ٹھیک ، اس جانب فیصلہ کرتے ہیں۔ یونگ کے مطابق چوتھی اور آخری تفریق کی بنیادآپ کا طرز ِ زندگی ہے۔ایک قسم Judging (J)اور دوسری قسم Percieving (P) کہلاتی ہے۔ پہلی قسم کی حامل لوگ بر وقت کام کرنے اور ہر عمل ، ہر چیز میں ترتیب کا رجحان رکھتے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ مقررہ وقت سے پہلے، مختلف امور کوکر گزرنے کے متمنی اوراپنے آس پاس کے ماحول میں بے ترتیبی سے الجھائو محسوس کرتے ہیں۔ جبکہ اس سے بر عکس دوسری طبیعت کے حامل لو گ جب جی چاہے کام کرتے ہیں۔ آسان الفاظ میں کہوں تو یہ لوگ مقررہ وقت پر کام نہیں کرتے ، بلکہ ڈیڈلائن سے آدھ منٹ پہلے یک دم اپنا کام مکمل کرنے کا چلن رکھتے ہیں۔ ان کی خاصیت یہ ہے کہ یہ اپنے ارد گرد مسائل کا حل ڈھونڈنے کے متلاشی اور خواہاں رہتے ہیں۔ پہلی قسم بہترین آرگنائزرز کی ہے جب کہ دوسری بہترین پرابلم سولورز کی ۔ ایک ریسرچ کے مطابق دنیا کی آدھی آبادی J اور بقیہ P ٹائپ کی حامل ہے۔ جب ان شخصی اوصاف کے پیشِ نظر آپ اپنی شخصیت کی ٹائپ معلوم کرلیتے ہیں تو آپ کے سامنے چار ہندسوں پر مشتمل اپنی ٹائپ کا نام واضح ہو جاتا ہے ، مثلا, ENFJ, ISTP INFP وغیرہ وغیرہ۔ آپ حیران ہوں گے کہ ہر Personality Typeپر انٹرنیٹ پر بیش بہا مضامین اور ویڈیوز موجود ہیں،جس میں کیریر گائڈنس سے لیکر زندگی کے مختلف امور پر بات کی گئی ہے ۔ استادِ محترم کہتے ہیں جو انسان اپنے ساتھ مخلص ہو ، وہ کبھی ناکام نہیں ہوتا۔ ہمارے معاشرے میں دن بدن بڑھتی ہوئی ذہنی بیماریوں کی بڑی وجہ دوسرے کی شخصیت کو سمجھے بغیر ، اس کی طبیعت کے برعکس فیصلے کرنا ہے۔ معاشرہ پھلتا پھولتا تب ہے جب اس میں موجود ہر شخص کو اپنی شخصیت کے مطابق جینے کی اجازت ہو۔ جہاں لوگ اپنی شخصیت کو سمجھنے سے قاصر ہوں، وہ اپنے ساتھ موجود لوگوں کو کیسے سمجھ پائیں گے؟ جو اپنے ہی ساتھ مخلص نہ ہوں، وہ دوسروں کے ساتھ مخلص کیسے ہو سکیں گے؟