بھیڑ چال میں ہمارا کوئی ثانی نہیں‘ ہم مکھی پر مکھی مارنے والی قوم ہیں۔ ہماری تخلیقی صلاحیتوں کی تان ریپلیکا پر آ کرٹوٹتی ہے۔ ہم سے ماہر نقل خور قوم شاید ہی روئے زمین پر کوئی اور ہو۔ ہم انفرادیت کی چادر اتار کر پھینک چکے‘ اب ٹرینڈز کی ٹاپ اورجینز پہنے اترائے پھرتے ہیں۔ ہمسائے کا منہ لال دیکھ کراپنا منہ ’’چپیڑ‘‘ مار کر لال کرنے کو ہم طعنہ نہیں بلکہ اپنا فخر سمجھتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری کوئی روایت نہیں تھی۔ کوئی ماضی نہیں تھا‘ ہماری جڑیں کسی زمین پر پیوست نہ تھیں۔ ہم گلدان میں سجے ہوئے پلاسٹک کے نقلی پھولوں جیسے بے قیمت سے لوگ ہیں۔ ہماری ناک بھی موم کی نہیں پورے کا پورا وجود موم کا مجسمہ ہے۔ جدھر چاہو موڑ دو‘ جیسا چاہو‘ پگھلا کر نیا ڈھال لو۔ سوشل میڈیا کی آن لائن زندگی سے لے کر اصلی والی آف لائن زندگی کے منظر نامے پر نگاہ ڈالیں‘ آپ کو ہر جگہ ٹرینڈ کے ڈھیر اور ہیش ٹیگ کے انبار نظر آئیں گے۔ آپ کو انفرادیت کی جھلک کم کم ہی دکھائی دے گی۔ سوشل میڈیا پر ایک ٹرینڈ آتا ہے تو اچھے بھلے لوگ اس ٹرینڈ میں بہہ جاتے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے ایک عجیب سی ’’پیلی تصویر‘‘ کاٹرینڈ آیا کہ سب نے اپنی اچھی بھلی شکلوں کو اس ٹرینڈ کی پیلاہٹ میں لتھیڑ لیا۔ اس سے پہلے ایک ٹرینڈ چلا کہ اپنی 20 سال کی عمر والی تصویر لگائیں تو بس ہر دوسری پوسٹ پر اسی ٹرینڈ کی حکمرانی نظر آئی۔ مجھے تو اس لفظ ’’ٹرینڈ‘‘ سے چڑ ہونے لگی ہے‘ بہت آسانی سے یہ لوگوں کو ان کی انفرادیت سے محروم کردیتا ہے۔ لوگ بھی اب ’’شخصیات‘‘ نہیں رہے۔ فوٹو کاپیوں کے ڈھیر بن کر رہ گئے ہیں۔ چند روز پہلے ڈاکٹر خورشید رضوی سے میری بات ہوئی تو میں نے ایسے ہی ان کے خیالات جاننے کے لیے سوال کردیا کہ آپ فیس بک پر کیوں نہیں ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’مجھے لگتا ہے کہ فیس بک ایسا سمندر ہے جس میں قطرہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔ وہ سمندر کے بہائو میں بہہ جاتا ہے۔‘‘ پھر کہنے لگے کہ جب انفرادیت ختم ہو جائے تو تخلیقی سوچ کی گہرائی بھی ختم ہو جاتی ہے۔ بات تو یہ سولہ آنے ٹھیک ہے لیکن کیا کریں کہ اب یہ سوشل میڈیا کا نشہ ہمیں بری طرح لگ چکا ہے اور ہم یہ جانتے بوجھتے بھی کہ 24 گھنٹوں میں 18 گھنٹے سکرین پر ٹائم غرق کرنے میں وقت کی بربادی بھی ہے اور وہ تخلیقی تنہائی جس کی حفاظت تخلیق کار کبھی کیا کرتا تھا‘ اس کی تباہی بھی ہے۔ پھر سب سے بڑھ کر جن بحثوں او رخیالات کی جگالی سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر ہمہ وقت ہورہی ہوتی ہے وہ ہماری سوچ پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ پاکستانیوں میں بھیڑ چال کی عادت کچھ زیادہ ہی ہے۔ نہ جانے خود سے کچھ انوکھا اور منفرد سوچنے اور کرنے کا حوصلہ ہم میں کیوں نہیں ہے۔ ٹاک شوز دیکھ لیں۔ ایک دوسرے کی نقل‘ فوٹو کاپیاں‘ ایک اینکر چار ایک دوسرے کے مخالف بندے بٹھا کر انہیں لڑوا رہا ہے‘ وہی گرم گفتاری‘ بدتمیزی‘ قطع کلامی کے مظاہرے اور ناظرین کے لیے ناقابل برداشت سمع خراشی ذرا جو کوئی اس طے شدہ رجحان اور پیٹرن سے ہٹا ہو۔ یہ ناممکن ہے کیونکہ منفرد ہونے کے لیے جو حوصلہ اور ہمت چاہیے ناکامی کا ڈر‘ اسے آکاس بیل کی طرح چمٹ چکا ہے۔ ارتغل ڈرامہ مقبول کیا ہوا کہ اب پوری قوم اس کے پیچھے ہے۔ سنا ہے کہ پاکستان میں بھی ایسا ڈرامہ بنانے کی تیاریاں ہیں ضرور بنائیں مگر مجھے ڈر ہے کہ اسی کی کوئی بھونڈی سی فوٹو کاپی بنا کر رکھ دیں گے۔ پاکستان میں آرٹ بھی بھیڑ چال کا شکار ہے۔ ہندوستان سے شیطان کی انت جیسے طویل سوپ اوپیرا ڈرامے پاکستان کے ناظرین تک پہنچے اور فارغ گھریلو عورتوں نے اسے پذیرائی بخشی تو یہی رجحان پاکستان میں شروع ہوگیا۔ پھر عمیرہ احمد کا تصوف کے تڑکے والا کوئی ڈرامہ مقبول ہوا تو اگلے سارے ڈراموں میں تصوف کا تڑکا ضروری ہوگیا۔ ظلم سہتی‘ روتی دھوتی عورتوں کے ڈراموں کا سیلاب اترا تو پتہ کہ ان دنوں ’’ایکسٹرا میرٹیل افیئرز‘‘ پر ڈرامے بنانے کا سونامی آیا ہوا ہے۔ ڈرامہ انڈسٹری کو اب خالص لکھاریوں کی ضرورت نہیں بلکہ اسے انہیں ایسے رپورٹ درکار ہیں جو ان کے دیئے ہوئے پیٹرن پر مکھی پر مکھی مار سکیں۔ پاکستانی چینلوں پر تفریحی پروگراموں کا انداز بھی دیکھ لیں۔ کوئی پروگرام دوسرے سے مختلف نہیں سب ایک جیسے ہیں۔ مارننگ شوز کا تو کیا ہی کہنا‘ عقل اور دانش سے عاری۔ ایک بے تکی بھیڑ چال۔ زمانہ ہوا ٹی وی کی سکرین دس پندرہ منٹ سے زیادہ دیکھ ہی نہیں پاتی کہ خالص آرٹ اور حس جمالیات کاشدید فقدان پایا جاتا ہے۔ بھیڑ چال کا رواج صرف سکرین پر اور سوشل میڈیا پر ہی نہیں۔ ہم اپنی عام زندگیوں میں ہی انفرادیت سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ میں اکثر نوٹ کرتی ہوں کہ گھروں کی سجاوٹ‘ فرنیچر اورآرائش میں بھی ہم ایک نقل خور قوم ہیں۔ ہماری اپنی شخصیت کا عکس ہمارے گھر کے در و دیوار‘ سجاوٹ اور آرائش میں دکھائی دینا چاہیے لیکن ہم ٹھہرے اندھا دھند تقلید کرنے والی قوم‘ منفرد اور الگ دکھائی دینے کا حوصلہ کہاں سے لائیں۔ لان کے بے شمار برانڈز ہیں مگر سب کے سب ایک ہی جیسے پرنٹس‘ ڈیزائن‘ موٹفس‘ کہیں کوئی انفرادیت کا پہلو دکھائی نہیں دیتا۔ اب تو ایک جیسے ڈیزائن دیکھ دیکھ کر دل ان برانڈڈ کپڑوں نے پاکستانی عورتوں کو ان کی انفرادی تخلیقی صلاحیتوں سے محروم کردیا ہے۔ پہلے یہ ہوتا کہ خواتین کپڑوں کو خود ڈیزائن کرتیں۔ گرمیوں کی لمبی دوپہروں میں اپنی قمیضوں پر اپنی حس جمالیات کے مطابق کڑھائی کرتیں‘ سجارتی سنوارتیں مگر پکے پکائے حلوے کی صورت برانڈڈ سوفٹ یا پھر انہی کی نفلچیاں یعنی ایپلیکاز آپ کو اپنی بساط کے مطابق دستیاب ہیں۔ خریدیئے اور پہنیے‘ پھر اپنی شخصیت کے خدوخال کو میک اپ اور سٹائل کے ٹرینڈ میں پھونک کراپنی شخصیت سے دستبردار ہو کر ایک دوسرے کی فوٹو کاپیاں بن جائیے۔ سوشل میڈیا پر ’’ٹرینڈ‘‘ کو فالو کیجئے۔ کبھی سوچیں کہ آپ کون ہیں۔ آپ کی انفرادیت کیا ہے‘ کیا آپ کی کوئی شخصیت بھی ہے یا آپ صرف ایک فوٹو کاپی ہیں۔