جناب شاہد حمید کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ آج کے کالم میں ان کی چند یاد داشتیں لکھ رہا ہوں۔ ملاحظہ فرمائیے: ٭ ایک کتاب کی کمپوزنگ کی تکمیل کے بعد جب پروف ریڈنگ کا مرحلہ آیا تو مصنف شاہد حمید کمپوزر کی ناسمجھی پر حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ لکھنا تھا : ’’اگر گوئی دعوت دے تو اُسے قبول کرنا چاہیے۔‘‘ خدا جانے کمپوزر کن خیالوں میں تھا۔۔۔۔ ’دعوت‘ کی جگہ ’عورت‘ لکھ بیٹھا۔ ٭ ایک بار ایک بزرگ بک کارنر شوروم پر تشریف لائے اور شاہد حمید سے کہنے لگے کہ وہ ’اقوامِ پاکستان کا انسائکلو پیڈیاـ‘‘ کے مصنف انجم سلطان شہباز سے ملنا چاہتے ہیں۔ شاہد حمید نے بغور نحیف و نزار بزرگ کو دیکھا اور بولے: ’’ اس جنم میں تو آپ کی ملاقات ان سے ناممکن ہے۔ ‘‘ ’’ بھلا وہ کیوں کر؟‘‘ بزرگ حیرانی سے بولے۔ شاہد حمید مذاق بھرے انداز میں کہنے لگے: ’’ باباجی وہ پہاڑی کی چوٹی پر رہتے ہیں، وہ نیچے آنہیں سکتے اور آپ کی صحت سے لگتا ہے کہ آپ پہاڑی کے اوپر جانہیں پائیں گے۔ اس لیے ملاقات ممکن نہیں۔‘‘ ٭ ایسے ہی ایک روز انجم سلطان شہباز اور شاہد حمید بک کارنر پر محوِ گفتگو تھے کہ ایک صاحب آئے اور انجم صاحب سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ انجم صاحب اپنا تعارف کرانے ہی لگے تھے کہ شاہد حمید بول اُٹھے: ’’ جناب ! اُن کو تو اس دُنیا سے گزرے پچیس سال ہوگئے۔‘‘ انجم صاحب چہک اُٹھے تھے۔۔۔۔۔ ٹھپ سے بیٹھ گئے۔ ٭ ایک دِن ایک صاحب آئے اور کہنے لگے، ’’ میں نے تھوڑی بہت جرمن زبان سیکھ لی ہے، اب میں گوئٹے کا ترجمہ کروں گا۔‘‘ شاہد حمید نے کہا، ’’ بڑا مبارک خیال ہے، لیکن پہلے وہ زبان بھی تھوڑی بہت سیکھ لو جس میں ترجمہ کرنے کا خیال ہے۔‘‘ ٭ راجہ طارق محمود نعمانی نے دیکھا کہ شاہد حمید ایک کتاب کی نظر ثانی میں مصروف ہیں۔ پوچھا کون سی کتاب پڑھ رہے ہو؟ شاہد حمید کہنے لگے ، ’’حضرت امام جعفر صادق کی شخصیت پر ایک کتاب ہے۔‘‘ راجہ طارق محمود نعمانی کہنے لگے: ’’ اگر کہیں تو اِس کتاب پر ایک مقدمہ لکھ دوں؟‘‘ جی ضرور ! ۔۔۔۔۔شاہد حمید نے کہا: کچھ ہی دنوں میں راجہ صاحب آئے اور ’’ مقدمہ‘‘ کے اوراق میرے سامنے پھیلاتے ہوئے بولے: ’’ لیجئے ! مقدمہ حاضر ہے، اِسے فوراً کمپوز کروا کر کتا ب میں شامل کر دیجیے! ‘‘ شاہد حمید کاغذوں کا ڈھیر دیکھ کر سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ موصوف تین سو صفحات کی کتاب کا’’ مقدمہ‘‘ چھے سو صفحات پر مشتمل لکھ لائے تھے۔ ٭ ایک شاعر نے اپنا مجموعہ کلام شاہد حمید کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے کہا، ’’میں نے اپنا آدھا کلام ردّ کر دیا ہے اور آدھا اس مجموعے میں شامل کیا جائے۔‘‘ شاہد حمید نے مجموعے کی ورق گردانی کرتے ہوئے کہا، ’’ یہ آپ نے بہت اچھا کیا۔ پڑھنے والوں کو اس سے بڑی سہولت ہوگی کہ انہیں بھی آپ کا آدھا کلام ہی رد کرنا پڑے گا۔‘‘ ٭ شاہد حمید اپنی آنے والی خود نوشت قلمبند کرنے میں مصروف تھے کہ پاس کھڑے ایک شاعر نے دیکھا اور کہا، آپ نے اتنا عمدہ کاغذ ضائع کر دیا۔ اگر یہ کتاب سادہ اوراق پر مشتمل ہوتی تو میں اس پر اپنا کچھ کلام لکھ لیتا ۔ ‘‘ شاہد حمید نے جواب دیا: ’’ کاغذ تو اِس صورت میں بھی ضائع ہو جاتا‘‘ ٭ ایک غیر معروف شاعر شاہد حمید کے آگے اپنی بے وزن شاعری کی تعریفوں کے پُل باندھے جا رہا تھا اور بضد تھا کہ وہ اپنے خرچے پر اُن کی کتاب شائع کریں۔ شاہد حمید نے کہا:’’ جناب آج کل شاعری کوئی نہیں پڑھتا، بہتر ہوگا آپ اس کی اشاعت سے پرہیز ہی کریں۔" مگر وہ شاعر پھر سے شروع ہوگیا: ’’ یقین کرو میرے شعری مجوعے کے ایک ایک لفظ کو پَرکھا جائے گا۔ وہ بھی بڑے دھیان سے۔‘‘ شاہد حمید اس کی یہ باتیں سُن کر تنگ آگئے اور بولے: ـ’’ میں مانتا ہوں تمہارا شعری مجوعہ چھپنے سے پہلے پروف ریڈر پڑھے گا۔ ایک ایک لفظ غور سے پڑھے گا۔۔۔۔ اور اس کے بعد۔۔۔۔۔ چھپ جانے کے بعد ۔۔۔ ۔ کوئی بھی نہیں پڑھے گا۔‘‘ ٭ ایک گاہک دوکان میں داخل ہوا اور کسی شخص پر جادو کرنے والی کتاب مانگنے لگا۔ شاہد حمید نے ایم اے راحت کا مشہور زمانہ ناول ’’ کالا جادو‘‘ تھماتے ہوئے کہا: ’’ یہ جادو پر ایک بہترین کتاب ہے، اسے یہا ں مت کھولنا ورنہ تم پر بھی جادو ہو جائے گا۔‘‘ ٭ شاہد حمید نے اپنی دوکان پر نئے ملازم عمران کو بھرتی کیا جو ہر وقت کتابوں سے واقفیت سے اپنی قابلیت ظاہر کرنے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔ ایک دن ایک کھلنڈرا سا نو جوان دوکان پر آیا اور بولا’’ بھائی ! مجھے ’’ کوک شاستر‘‘ کی طرح کی کوئی دوسری کتاب دکھائو!‘‘ عمران دوڑتا ہوا گیا اور ’’ارتھ شاستر‘‘ کتاب اُٹھا لایا اور بولا یہ اس کا پارٹ 2 آیا ہے، ضرور پڑھیں! شاہد حمید، کو تلیہ چانکیہ کی قدیم ہندوستانی تمدن پر مبنی اس عظیم کتاب کا یوں مذاق بناتے دیکھ کر سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ ٭ ایک صاحب دوکان پر کتابیں دیکھتے دیکھتے یوں گویا ہوئے: ’’شاہد صاحب ! آپ کبھی مجھے کتابیں یونہی پڑھنے کے لیے بھی دے دیا کریں۔ وہ فلاں کتابوں کی دوکان والا تو مجھے رسالے مفت میں ہی دے دیا کرتا ہے۔‘‘ شاہد حمید نے برجستہ کہا:’’آپ یقینا کسی اونچی پوسٹ پر ہوں گے۔‘‘ ٭ شاہد حمید کے دوست بینک منیجر عمران قریشی صاحب تشریف لائے تو شاہد صاحب کھلے ڈھلے انداز میں شاہانہ بیٹھے تھے۔ عمران صاحب بولے: ’’ شاہد صاحب ! بڑی بے تکلفی سے تشریف فرما ہیں۔‘‘ ’’ جناب ! مالک ہیں اپنی دوکان کے، کوئی منیجر تھوڑی ہیں۔‘‘ شاہد حمید ہی روانی میں کہہ گئے۔ ٭ ایک مشاعرے میں شاہد حمید نے شرکت نہ کی جبکہ ان کے ایک قریبی دوست وہاں موجود تھے۔ ایک شاعر دوست کہنے لگے کہ یہ اَن پڑھ بندہ ہر مشاعرے میں موجود ہوتا ہے جبکہ تم ایسی محفلوں میں کبھی شریک نہیں ہوتے۔ شاہد حمید نے جواباً کہا: ’’ وہ خود باذوق نہ سہی۔۔۔۔۔ شاعری اس کے گھر کی لونڈی ہے۔ـ" موصوف کی بیگم معروف شاعرہ تھیں۔