آج اگست کی سترہ تاریخ ہے‘ ضیاء الحق شہید کی چونتیسویں برسی ۔اتنے برس بیت گئے لیکن یہ ابھی کل کی بات ہے‘ دل اور یاد میں بالکل تازہ‘ اس دن کا پورا منظر آنکھوں میں ہے‘ یوں کہ ابھی سامنے لگی سکرین پر دیکھ رہا ہوں۔ ضیاء الحق کی شہادت کے دن سے پہلے فوج کے سپہ سالار‘ مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر‘ صدر پاکستان ضیاء الحق سے پہلی ملاقات کا دن اور اس دن بلکہ رات کو ہونے والی گفتگو ایسی ہے کہ کبھی بھلائے نہیں بھولے گی۔ وہ ایسے تاریخی لمحات اور صدیوں پر اثر انداز ہونے والے فیصلے تھے جن سے ہم اس دن باخبر ہوئے۔ بالکل تازہ بہ تازہ مگر تہذیبوں کی اتھل پتھل اور بگڑنے‘ سنورنے کے دنوں کی شروعات‘ پرانی سپر پاور کے منہدم ہونے اور نئی سپر پاور کے پیدا ہونے کے ابتدائی لمحے‘ ابتدائی ایام ۔ 29 دسمبر 1979ء ہفتے کا دن تھا‘ اگلے دن اتوار کی چھٹی ہونے کی وجہ سے ضیاء الحق نے ہم چار لوگوں کو رات کے کھانے پر مدعو کر رکھا تھا‘ ہم دو ایک دن ان کے گھر آرمی ہائوس میں رکنے والے تھے‘ ہمارے سب سے بڑے بھائی یٰسین لندن سے آئے ہوتے تھے‘ اسلم خان بھی‘ ان کے ماموں زاد بھائی اور برادر نسبتی ڈاکٹر بشارت الٰہی۔ ضیاء الحق رات بھر جاگنے اور گپ لگانے کے موڈ میں تھے‘ اس رت جگے کا ذکر وہ پہلے ہی کر چکے تھے‘ یٰسین بھائی‘ ڈاکٹر بشارت الٰہی اور راقم ایک ہی کار میں لاہور سے آئے تھے‘ شام چار پانچ بجے کے درمیان اور اسلم خان الگ سے آئے‘ ہم لوگ آرمی ہائوس کی انیکسی میں ٹھہر گئے۔ ضیاء الحق گھر میں نہیں تھے‘ ان کا چھوٹا بیٹا انوارالحق تھا لیکن اپنے میڈیکل کے امتحانات کی وجہ سے مصروف تھا۔ بیگم صاحبہ شفیقہ ضیاء چائے کے لوازمات کے ساتھ آئیں اور ہلکی پھلکی بات چیت کرتی رہیں‘ ان کی زبانی معلوم ہوا کہ آرمی ہیڈ کوارٹر میں کسی ہنگامی مٹنگ کی وجہ سے ضیاء الحق گھر میں نہیں ہیں۔ امید ہے وہ رات کے کھانے تک آ جائیں گے۔ دیر تک ضیاء الحق نہیں آئے‘ بیگم صاحبہ نے کھانے کے لیے بلاوا بھیجا‘ وہ خود کھانے کے کمرے میں منتظر تھیں۔ خالص جالندھری بزرگ خواتین کی سادہ اور بے تکلف۔مگر کھانا پر تکلف تھا۔ تازہ بہ تازہ باربی کیو‘ اشتہا انگیز خوشبو کے ساتھ اٹھتا ہوا دھواں‘ ساگ اور مکئی کی روٹی‘ کھانے کے بعد قہوے کا دور‘ دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ ضیاء الحق ابھی تک واپس نہیں آئے تھے۔ ہم لوگ انیکسی میں اٹھ آئے۔ رات ایک ڈیڑھ بجے ہوں گے جب صاحب خانہ ہمارے پاس تشریف لائے اور کہا‘ آئیے کھانا کھاتے ہیں۔ ہم تو کھا چکے‘ اچھا تو آپ چائے کافی پئیں۔ میں کھانا کھائوں گا اور ساتھ گپ شپ ہوتی رہے گی۔ آج 29 دسمبر تھا‘ افغانستان میں روسی افواج کو داخل ہوئے ایک دن گزر چکا تھا۔ ابھی تک اس کی کچھ زیادہ خیر خبر نہیں تھی مگر یٰسین بھائی تازہ ترین صورت حال سے باخبر تھے‘ انہوں نے فوراً ہی بات شروع کردی‘ ضیاء الحق سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہو کر کابل میں اپنا حکم نافذ کر چکی ہیں‘ اب کیا ہوگا؟ ہم کیا کریں گے؟ ہاں اسی وجہ سے جی ایچ کیو میں افواج پاکستان کی سینئر کمانڈ کی میٹنگ تھی‘ امریکہ کے صدر کارٹر کا پیغام بھی آیا ہے انہوں نے پرامن ،محتاط رہنے اور حالات کا جائزہ لینے کا مشورہ دیا ہے کہ روس کو مشتعل کرنا پاکستان کے مفاد میں نہیں ہوگا ۔مگر روس تو آ گیا ہے‘ اپنی مرضی کی حکومت بنانے افغانستان پر مکمل قبضہ کرنے‘ وہ ہمیں امن سے رہنے دے گا؟ یہ ڈاکٹر بشارت الٰہی تھے جو ضیاء الحق صاحب سے مخاطب ہوئے سب کی توجہ کھانے اور قہوے سے ہٹ کر افغانستان میں آئی روسی افواج کی طرف تھی‘ جنرل صاحب بولے ہاں یہی وجہ ہے کہ ہم رات گئے جی ایچ کیو میں تھے‘ امریکی صدر کے پیغام اور روس کے اقدام پر سنجیدگی سے غور کیا گیا ہے‘ اب محفل کا ماحول بہت سنجیدہ ہو گیا تھا ساری توجہ روسی حملے‘ افغانستان میں اقدامات اور پاکستان کے لیے مستقبل میں خطرات پر مرتکز تھی‘ ضیاء الحق نے روس کی بادشاہت جسے زار کے لقب سے پکارا جاتا تھا، ان کے سنٹرل ایشیا پر قبضے کی روداد‘ افغانستان پر قبضے کی خواہش‘ دریائے سندھ کے مغرب پر اجارہ داری کے عزائم اس پس منظر میں روس‘ برطانیہ‘ کشمکش‘ بعد ازکمیونسٹ انقلاب کے منظر نامے پر بات کی ۔پھر کہا کہ کمیونسٹوں نے بھی توسیع پسندی کی پرانی روش اختیار کرلی اور روس سنٹرل ایشیائی مسلم ریاستوں کو اپنی یونین کا حصہ بنانے کے بعد افغانستان میں اپنے گماشتوں کے ذریعے راہ ہموار کرتے ہوئے اپنی آخری منزل کی طرف آیا ہے۔ روس نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں اندرا گاندھی کی جارحیت میں پورا پورا ساتھ دیا۔ وہ اندرا کی محبت میں نہیں بلکہ پاکستان کو کمزور کرنے اور ہندوستان کے ساتھ مل کر ایک مکمل منصوبہ تھا جس میں دریائے سندھ کے مشرق میں ہندوستان اور مغرب روس کے حوالے کرنا تھا تاکہ وہ بلوچستان کے ساتھ ساتھ گوادر کو استعمال میں لا سکے۔ انہوں نے پورے یقین سے کہا کہ آپ دیکھ لیں انڈیا افغانستان کے مسئلے پر روس کی مکمل حمایت کرے گا۔ افغانستان کے کمیونسٹوں کے تعاون سے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرے گا تاکہ ہم افغانستان پر روسی قبضے میں مزاحم نہ ہو سکیں۔ جنرل صاحب آپ کا تجزیہ اور تاریخی حوالہ بالکل درست ہے لیکن ان حالات میں ہم کیاکریں گے اور کر بھی کیا سکتے ہیں‘ ادھر سے سوال پوچھا گیا‘ ہمیں کریں گے، ہم کریں گے‘ افغانستان کی مدد اور اپنے وطن کی حفاظت۔ روس ہمارے لیے انڈیا سے بھی بڑا اور فوری خطرہ بن گیا ہے‘ ہم مزاحمت کریں گے‘ ہم نے آج ہی یہ فیصلہ کیا ہے‘ ہم انتظار نہیں کرسکتے‘ یہ ہماری سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے لیکن اس خطرے کو بہت بڑا ہونے سے پہلے اس کے خلاف مزاحمت کے امکانات‘ افغانستان میں روسی افوج کی سہولیات کی تفصیلات‘ رسل و رسائل‘ اسلحہ کی مقدار و تعداد‘ روسی افواج کے لیے رہائش وغیرہ اور سپلائی کے مسائل اور ممکن حد تک روسی افواج کی تعداد پر گفتگو۔ ان کا خیال تھا کہ افغانستان میں فی الوقت روس ایک لاکھ سے زیادہ فوج نہیں رکھ سکتا‘ افغانستان میں اس سے زیادہ غیر ملکی سپاہ کے لیے وسائل‘ سہولیات اور سپلائی کے امکانات فی الوقت موجود نہیں۔ ایک فوج کے ساتھ افغانستان میں امن قائم کر کے اسے کم از کم دس برس کا عرصہ درکار ہے کہ وہ چھائونیاں بنائے‘ ایئرپورٹس تعمیر کرے‘ ٹینک‘ توپیں‘ اسلحہ جات کے لیے اسلحہ خانے مقامی سطح پر گولہ بارود سارے انتظام مکمل کر کے وہ کم از کم دس لاکھ فوج کھڑی کر کے ہماری طرف اور ایران کی جانب آئے گا۔ دس برس‘ دس لاکھ افواج دریائے سندھ کے مغرب میں جنگ۔یہ تو اس کا منصوبہ ہے مگر ہم اس کو ہرگز ایسا کرنے کا وقت دیں گے نہ موقع۔ ہم دس لاکھ روسیوں کے خلاف پاکستان میں لڑنے کی بجائے ایک لاکھ بلکہ اس سے بھی کم کے خلاف افغانستان میں لڑیں گے‘ ہم انہیں امن قائم کر کے اپنی سپاہ کے لئے سہولیات کی تعمیر کی اجازت نہیں دیں گے۔ افغانستان کے پہاڑوں میں چند ہزار کا مقابلہ ہماری ترجیح ہے۔ ہم ان کا وہ حشر کریں گے، انشاء اللہ انہیں بھاگتے ہی بنے گی۔ ان کا حشر وہی ہو گا جو برطانوی فوجیوں کا ہوا۔ اپنی زندگی میں ہم انہیں ایسا کچھ کرنے نہیں دیں گے۔ جب ہم نہیں ہوں گے پھر ذمہ داری بھی ہماری نہیں ہے۔ فکر مت کریں‘ سب ٹھیک رہے گا۔