بیگم کے انتقال کے بعد میں گھر میں اکیلا رہ گیا۔میرے علاوہ ایک ڈرائیور تھا جو ایک سرونٹ کوارٹر نما کمرے میں فون پر باتیں کرتا رہتا تھا۔اسے دیکھ کر میرا تنہائی کا احساس بڑھ جایا کرتا تھا گاڑی پر کہیں باہر جانا ہوتا تو میں اسے فون کر کے بلا لیتا۔ اس کے والدین فیصل آباد کے ایک گائوں میں رہتے ہیں۔ وہ شب و روز اسی تلاش میں رہتے کہ کوئی لڑکی مل جائے تو بیٹے کا نکاح کر دیا جائے۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ لڑکی مل گئی اور نکاح کی تاریخ بھی پکی ہو گئی۔ یہ اس سال مارچ کے دوسرے یا تیسرے ہفتے کا واقعہ ہے۔ جب نکاح میں تین چار دن رہ گئے تو وہ پانچ دن کی طویل رخصت لے کر چلا گیا۔ طویل رخصت اس لئے کہہ رہا ہوں کہ وہ آج تک نہیں آیا۔ اس کا فون آ جاتا ہے کہ ہر قسم کی ٹرانسپورٹ بند ہے اور وہ خود بھی بیوی کے ہمراہ ایک کمرے میں بند ہے یعنی کہ قوارٹین (Quartine)میں ہے۔اس نے مجھے بتایا کہ کورونا وائرس اس کے سسرال کے لئے اور خود اس کے لئے نعمت ثابت ہوا ہے۔ میں یہاں اس کے الفاظ دہرا دیتا ہوں:سر جی خرچے کی بڑی بچت ہو گئی۔ قانوناً ہم دس بندوں کی بارات لے کر جا سکتے تھے لیکن کورونا کے خوف سے کوئی بھی ہمارے ساتھ جانے کے لئے تیار نہ ہوا۔ چنانچہ ہم تین لوگ ‘ میں بوبو اور چا چا(والدین) برات کی شکل میں سسرال پہنچے۔ وہاں بھی کوئی مہمان نہ تھا۔ صرف مولوی تھا جو ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ شاید اسے خدشہ تھا کہ کورونا کی وجہ سے بارات نہ آئی تو نکاح پڑھوانے کا سنہری موقع ہاتھ سے نکل جائے گا۔ ہم چنگچی پر آئے تھے۔ اسے فارغ کرنے کے بجائے ہم نے اسے باہر ہی انتظار کرنے کو کہہ دیا تھا۔ نکاح کے بعد ہم نے کوکا کولا کی ایک ایک بوتل پی اور بیوی کو لے کر اسی چنگچی سے واپس آ گئے‘‘ میں نے اسے مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہم دونوں کورونا سے بچ گئے تو ضرور ملاقات ہو گی۔ ڈرائیور کی روداد سن کر میں سوچنے لگا کہ اگر ہم کورونا کی مدد کے بغیر ہی اسی سادگی سے نکاح کرنے لگیں تو کتنا اچھا ہو۔ڈرائیور تو مستقل میرے گھر میں رہتا تھا۔ اس کے علاوہ ایک خاتون تھی جو ایک دن چھوڑ کر آیا کرتی تھی اور دو دن کے لئے ہنڈیا پکا کر فریج میں رکھ دیتی تھی۔ دو چار کپڑے دھونے کے بعد وہ جانے سے پہلے ہنڈیا کا تقریباً 33فیصد ایک پلاسٹک کے ڈبے میں ڈال کر لے جاتی تھی۔ مجھے یہ بات پسند نہیں تھی۔ میں نے ایک بار اسے بتایا بھی تھا کہ گرم سالن پلاسٹک کے برتن میں ڈالنے سے حکیم اور ڈاکٹر منع کرتے ہیں۔ لیکن اس نے سنی ان سنی کر دی۔ جہالت اسی کو کہتے ہیں۔ چنانچہ دوستوں ! اب وہ خاتون بھی نہیں آ رہی۔ وجہ تو آپ سب کو معلوم ہی ہے۔ اس کے جانے سے نہ صرف باورچی خانہ بلکہ فریج بھی ویران ہو گیا ہے۔ فریج سے کبھی کبھی سائیں سائیں کی آوازیں آتی ہیں۔ میں حیران ہوں کہ کھانا تو میرا بند ہوا ہے۔ فریج کیوں سائیں سائیں کرتا ہے۔ پھر یہ سوچ کر مطمئن ہو جاتا ہوں کہ آج کل تو کورونا کی وجہ سے سارا شہر سائیں سائیں کرتا ہے فریج تو شہر کے مقابلے میں چھوٹی سی چیز ہے۔ یہ بھلا کیوں سائیں سائیں نہ کرے گا۔ کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے کہ فریج اس خاتون کی یاد میں آہیں بھرتا ہے۔ فریج کا ساتھ دینے کے لئے میں بھی قبل از کورونا کے عہد کو یاد کر کے آہیں بھرنے لگتا ہوں: آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں تو ہا ئے گل پکار‘ میں چلائوں ہائے دل اب ایک اور خاتون کا ذکر کرنا چاہوں گا جو گزشتہ 30سال سے گھر کی صفائی کے سلسلے میں آ رہی تھی۔ یہ خاتون میری بیگم کی فیورٹ تھی۔ جب وہ آتی تھی۔ اس کی دو چھوٹی چھوٹی بیٹیاں تھیں جنہیں وہ کاکیاں کہا کرتی تھی اب ان کاکیوں کی آگے چار پانچ چھوٹی چھوٹی کاکیاں ہیں کاکے بھی ہوں گے مگر میں نے کبھی ایسی باتوں میں دلچسپی نہیں لی۔ ایک روز وہ خود نہ آ سکی تو اس نے اپنی بڑی بیٹی کو بھیج دیا جس کی عمر 24سال سے تو کچھ زیادہ ہی ہو گی۔ اس کی گود میں ایک کنُورا نما بچہ تھا۔میرا جی چاہا کہ اس سے باقی ماندہ بچوں کے بارے میں پوچھوں لیکن میں نے ضبط سے کام لیا۔ ویسے بھی مجھے لوگوں کے خانگی اعداد و شمار میں دخل دینے کی عادت نہیں۔ میری بیگم کی وفات کے بعد وہ گھر کے معاملات میں زیادہ دلچسپی لینے لگی تھی۔ پہلے تو چالیس پچاس منٹوں میں گھر بھر کی صفائی کر ڈالتی تھی۔ لیکن اب اس کام میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ لگاتی تھی۔ میں نے کبھی اس پر اعتراض نہیں کیا تھا کیونکہ مجھے علم تھا کہ اب اسے صفائی کے علاوہ صفایا بھی کرنا پڑتا ہے جو کہ ظاہر ہے صفائی سے زیادہ مشکل کام ہے۔مرحومہ کے تقریباً سارے کپڑے اور جوتے وہ اپنے گھر ٹرانسفر کر چکی ہے جس روز اسے تنخواہ لینا ہوتی ہے۔ اسے یک لخت مرحومہ کی یاد آ جاتی ہے اور وہ انتہائی رقت آمیز انداز میں ان کا ذکر کرنے لگتی ہے۔اس دوران میں اس کی آواز بھرا جاتی ہے اور آنکھوں میں آنسو تیرنے لگتے ہیں۔ چار چھ آنسو باہر بھی اچھل پڑتے ہیں۔جنہیں وہ میری بیگم کی دی ہوئی چادر سے صاف کر لیتی ہے۔ جب یہ جذباتی کیفیت ذرا مدھم پڑتی ہے تو مجھے بتاتی ہے کہ وہ ہر جمعرات کو بڑی باقاعدگی سے میری مرحومہ بیگم کا ختم دلواتی ہے۔ یہ سن کر میں اسے تنخواہ کے علاوہ چار جمعراتوں کا ختم کا خرچہ بھی دیتا ہوں۔جسے وہ بائیں ہاتھ سے نہ نہ کا اشارہ کرتے ہوئے دائیں ہاتھ میں پکڑ لیتی ہے۔ بڑی نیک‘ محنتی اور مخلص خاتون ہے۔ پیسے لے کر گھر کے گیٹ تک مجھے دعائیں دیتی جاتی ہے۔ قارئین دعا کیجیے کہ کورونا بی بی کی جلد رخصتی ہو اور میرے گھر کی رونقیں لوٹ آئیں۔ آمین۔