ساڑھے سولہ لاکھ کی آبادی کے ساتھ سیمارنگ انڈونیشیا کا نواں بڑا شہر ہے۔ یہ شہر انڈونیشیا کے اہم تجارتی اور سیاحتی مراکز میں شما رکیا جاتا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا کی علاقائی تنظیم آسیان نے سیمارنگ کو 2020 میں خطے کے سب سے صاف سیاحتی شہر کا اعزاز دیا تھا۔ سیمارنگ کی سالانہ مجموعی قومی پیداوار 14.4ارب ڈالر ہے، جو کہ فی کس بنیاد پر 8665 ڈالر بنتی ہے۔ شہر کی بلدیہ کے اعداد و شمار کے مطابق سیمارنگ میں ریڑھی بانوں کی تعداد چودہ ہزار کے لگ بھگ ہے، جن میں سے تقریباََ دس ہزار ریڑھی بانوں کے پاس ونڈینگ لائسنس ہیں اور باقی چار ہزار ریڑھی بان بغیر لائسنس کے کام کررہے ہیں۔ 2006 سے انڈونیشیا میں بلدیات کی سربراہی براہ راست طور پر منتخب میئر کرتا ہے۔اور شہری بلدیہ ہی ریڑھی بانوں کی شہر میں موجودگی کو ریگولیٹ کرتی ہے۔ نئے بلدیاتی نطام کے نفاذ سے پہلے سیمارنگ کی تاریخ میںمقامی انتظامیہ اور ریڑھی بانوں کے درمیان تعلقات کوئی زیادہ مثالی نہیں رہے ہیں۔2006 سے پہلے سیمارنگ کی بلدیہ کا ریڑھی بانوں کے ساتھ عمومی رویہ جارحانہ ہوتا تھا، جو انہیں شہر کی خوبصورتی پر بدنما داغ طور پر لیتی تھی۔ ریڑھی بانوں کو انتظامیہ کی طرف سے آئے دن کی بیدخلیوں ، بھاری جرمانے اور قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ مگر انڈونیشیا میں نچلی سطح پر جمہوری اختیارات کی منتقلی سے سیمارنگ میں ریڑھی بانوں کے لیے پچھلی دہائی سے صورتحال بہتر ہونا شروع ہوگئی ہے۔ اس کی بڑی مثال منتخب میئروں کی طرف سے ریڑھی بانوں کو مقامی معیشت کا جائز حصہ تسلیم کرنا ہے۔ سیمارنگ کی بلدیہ نے ریڑھی بانوں کی معاشی اور سماجی بہتری کے لیے متعدد اقدامات اٹھائے ہیں، جن میں بروقت لائسنس کا اجرا، ریڑھیوں اور بینک قرضوں کی فراہمی، سماجی تحفظ اور انشورنس کی اسکیموں میں شمولیت شامل ہیں۔ مگر سب سے اہم تبدیلی بلدیہ کی طرف سے شہر کے ماسٹر پلان اور زونگ قوانین میں ریڑھی بانوں کی جگہوں کے تعین کی جز کو باضابطہ حصہ بنایا جانا ہے۔اس جوہری کایا پلٹ کا اپنا ارتقائی سفر رہا، جہاں مقامی ریڑھی معیشت کے ڈھانچے میں اونچ نیچ کا رحجان رہا۔سیمارنگ کی بلدیہ نے جب بھی قدرتی مارکیٹوں کے اصول سے رودگرانی کرتے ہوئے ریڑھی بانوں کو ان کے کاروبار کی جگہوں سے ایسے علاقوں میں منتقلی کی کوشش کی ، جہاں گاہکوں کی رسائی کم یا مشکل ہوتی تو اسے ان منصوبوں میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ ریڑھی بان واپس اپنی پرانی جگہوں پر واپس آگئے۔ بلدیہ کے وہ زونگ منصوبے کامیاب رہے، جو ریڑھی بان تنظیموں کے صلاح مشورے اور نشاندہی پر تشکیل دیے گئے۔سیمارنگ میں بلدیہ نے حالیہ سالوں میں ریڑھی بانوں کے وینڈنگ علاقوں میں ان کے لیے سائبان اور بیت الخلا کی تعمیر، پانی کی فراہمی ، صفائی کے انتظام اور راہ گیروں کے چلنے کے لیے وافر جگہ کی گنجائش کو یقینی بنایا۔ بلدیہ کی طرف سے ریڑھی بانوں کو شہر کے ماسٹر پلان اور ترقیاتی منصوبوں کا حصہ بنانے کی وجہ سے ایک درمیانی آبادی والا ترقی پذیر شہر نے، چودہ ہزار ریڑھی بانوں کی موجودگی کے باوجود، جنوب مشرقی ایشیا کے سب سے صاف ستھرے شہر کا ایوارڈ جیتا۔ اب ہم اپنے ملک کا اس سلسلے میں جائزہ لے لیتے ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ انڈونیشیا کی اوسطََ فی کس مجموعی قومی پیداوار پاکستان کے مقابلے ڈھائی گنا زیادہ ہے، جس سے تقابلی جائزے میں کمی بیشی ہوسکتی ہے۔ بہرحال ہم سیمارنگ ، جو کہ انڈونیشیا کا درمیانی آبادی والا شہر اور ایک صوبائی دارالحکومت ہے، کے ریڑھی بانوں کے ریگولیشن کا تقابل پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے کریں گے۔ سیمارنگ کے قیام کی 500 سالہ پرانی تاریخ ہے، جبکہ اس کی آبادی اسلام آباد کے تین چوتھائی حصے کے برابر اور فی کس مجموعی پیداوار چار گنا زیادہ ہے۔سیمارنگ میں چودہ ہزار ریڑھی بانوں کے مقابلے میں اسلام آباد میں ریڑھی بانوں کی تعداداندازََ بیس ہزار کے لگ بھگ ہے۔ انڈونیشی شہر کی بلدیہ نے %71 ریڑھی بانوں کو وینڈنگ لائسنس جاری کیے ہیں، جبکہ اسلام آباد میں %99 ریڑھی بان بغیر لائسنس کے غیر قانونی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔یہ ریڑھی بانوں کو ، جو کسی بھی ملک میں ایک پسا ہوا طبقہ ہوتا ہے، اپنانے کے دو ریاستی رویوں میں واضح فرق کو ظاہر کرتا ہے۔ اس اشاریے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کونسا شہر کتنا غریب پرور ہے۔ اسلام آباد ایک جدید شہر ہے، جسے عالمی شہرت یافتہ یونانی آرکیٹکٹ اور ٹائون پلانر ڈوئکسیڈیس نے1960 میں ڈیزائن کیا تھا۔شہر جدید ماسٹر پلان کے تحت تعمیر کیا گیا، جہاں طبقاتی تقسیم کو خاص طور پر مدنظر رکھا گیا۔ مگر پاکستان کی حکمران اشرافیہ اسلام آباد کی تعمیر کرواتے یہ بھول گئے کہ وہ ایک غریب ملک کے حکمران ہیں۔جہاں کے غریب شاید طبقاتی جنگ تو نہ کر سکے، مگر نظام میں نقب لگا کر اپنے لیے جینے کی کچھ جگہ نکالنا جانتے ہیں۔ اور بیوٹی فل اسلام آباد میں غریب نے اپنے لیے یہ کچھ جگہ غیر قانونی کچی آبادی اور غیر قانونی ریڑھی بانی کی شکل میں نکال لی ہے۔ریاستی اشرافیہ نے ڈنڈے کا سہارا لیکر زور لگایا کہ کسی طریقے سے ان ناجائز قابضین کو اس خوبصورت قطعہ زمین سے بھگا دے۔ مگر ان میں سے بیشتر سدا کے ڈھیٹ رہے کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اسلام آباد کے کسی بھی ماسٹر پلان میںچاہے وہ بیسویں صدی کا ہو یا اکیسویں صدی کا، اس میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔اسلام آباد کی حکمران اشرافیہ اور غریب گھس بیٹھیوں کے درمیان بلی چوہے کا کھیل جاری رہے گا۔ اس کشمکش میں چوہوں کا نقصان تو زیادہ ہوتا ہے، مگر ان کی تعداد میں برتری اس میدان کو گرم ہی رکھے گی۔پاکستان کی اشرافیہ چاہے تسلیم کرے یا نہ کرے مگر حقیقت یہی ہے کہ کسی بھی ملک کی پائیدار سماجی اور معاشی ترقی تکون کے نچلے طبقے کی باضابطہ شمولیت اور شراکت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔