پاکستان اور اسلامی ممالک میں شراب کا نشہ کرنے والوں کو نہ صرف بْرا سمجھا جاتا تھا بلکہ شرابی سے میل جول، تعلقات اور لین دین کو بھی نفرت اور حقارت کی ِنگاہ سے دیکھا جاتا تھا مگر اب پاکستان اور بعض اسلامی ممالک کی اشرافیہ اور ایلیٹ کلاس شراب پینے والے کو پروگرسیو اور ترقی پسند ماڈرن سمجھتی ہے۔ پہلے پہل یہ شغل سیاستدانوں، بیوروکریٹس کا ہوتا تھا پھر اس میں اداکار، فن کار بھی شامل ہو گئے۔ اب ہمارے معاشرے میں بھی شراب کلچر عام ہے اور جو لوگ شراب کا نشہ کرتے ہیں وہ شراب نہ پینے والے کو نفرت اور اس کے خلاف بات کرنے والے کو پسماندہ اور محدود سوچ و فکر کا شخص سمجھتے ہیں ۔ مسلمان ہوتے ہوئے شراب پینے کا معاملہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی بھی مول لینا ہے بلکہ گناہ کبیرہ ہے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد ،عورت، بوڑھے اور جوان کے لئیلازم ہے۔ جن ہمارے پاکستانی مسلمانوں کو شراب کے نشے کی لت لگ گئی ہے وہ اکثر یہ کہتے ہیں کہ یہ تو ان کا ذاتی معاملہ ہے اور اس کا جواب انہوں نے اللہ تعالیٰ کو خود ہی دینا ہے۔ مغربی ممالک میں شراب خانے اور شرابی عام ہیں یہ ایک منافع بخش کاروبار بھی ہے اس معاشرے میں شراب کی وجہ سے اخلاقی، معاشی قانونی اور سماجی طور پر بہت ساری برائیوں نے جنم لے رکھا ہے۔ اکثر لڑاییاں شراب کی وجہ سے ہوتی ہیں شرابی ہر روز شراب پی کر گاڑی چلاتے ہوئے پولیس کے ہاتھوں پکڑے جاتے ہیں۔ شراب پی کر گاڑی چلانے سے شرابی اپنی اور دوسروں کی زندگیاں خطرے میں ڈالتا ہے۔ میرے ساتھ خود اسی طرح کا حادثہ ماضی میں پیش آیا تھا جب میری کار کو ایک ڈرنک لاری ڈرائیور نے ٹکر مار دی تھی جس کو اسی جرم میں بعد میں جیل ہوگئی تھی۔ برطانیہ و یورپ میں الکحول اور نشے سے دھت لوگ یا تو خود تشدد کا شکار ہوتے ہیں یا دوسروں پر تشدد کرتے ہیں۔ اکثر خاندانوںکی تباہی میں شراب کے نشے کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ سڑکوں پر اکثر نشے میں دھت لوگ گر کر زخمی یا مر جاتے ہیں۔ ہر ویک اینڈ جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو صرف لندن میں شرابیوں کی وجہ سے سینکڑوں حادثات ہوتے ہیں۔ ہسپتالوں اور ایمرجنسی سروسز میں رش بڑھ جاتا یے حکومت کو سالانہ ان حادثات میں اربوں خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ شراب کے نشے کے عادی لوگ اپنی صحت کے ساتھ بھی کھلواڑ کرتے ہیں زیادہ دیر تک نشہ کرنے والا شخص جگر کے عارضے میں مبتلا ہوجاتا ہے جبکہ اس کا دماغ بھی بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ مجھ پر یہ حقیقت 2001ء میں اس وقت آشکار ہوئی جب مجھے پاکستان سے برطانیہ واپسی پر ہیپاٹائٹس کا مرض لاحق ہوا تھا اور میرا علاج لندن کے رائل فری ہسپتال میں کیا گیا تھا اس ہسپتال میں زیادہ تر مریض جگر کے عارضے میں مبتلا تھے۔ ہیپاٹائٹس بھی جگر کو نقصان پہنچاتا ہے جبکہ شراب کے عادی شخص پر بیماری کی حالت میں دوائیاں بھی اس طرح اثر نہیں کرتیں جسطرح شراب نہ پینے والے شخص کے جسم کے لئے مفید ہوتی ہیں۔ مغربی معاشرے میں جو شخص شراب کا نشہ نہ کرے اسے بہت اچھا سمجھا جاتا ہے اور یہ ایک اس کی بہترین خوبی سمجھی جاتی ہے۔ بعض ہمارے لوگ شراب پینے کی وجہ یہ بتلاتے ہیں کہ ڈاکٹر نے دوائی کے طور پر استعمال کرنے کا کہہ رکھا ہے۔ ہمارے پہلی نسل جو برطانیہ میں 1950ء کے بعد یہاں آئی اس سے متعلق بہت سارے لطیفے اور کہانیاں بیان کی جاتی ہیں لیکن ایک سچا واقعہ بیان کرنا شاید مناسب ہوگا ۔ میرے ایک بزرگ دوست جو اب اس دنیائے فانی سے پردہ فرما گئے ہیں انہوں نے مجھے ایک دفعہ بتایا تھا کہ وہ جب 1960ء میں برطانیہ میں مزدور بن کر آئے تو پیٹربراء کی ایک فیکٹری میں انہیں کام ملا جب کہ رہائش باقی ایک درجن ساتھیوں کے ساتھ تین کمروں کے ایک گھر میں ملی تھی۔ ہر روز فیکٹری میں کام کرنے کے بعد ان باقی ایک درجن لوگوں میں جب وہ شام کو اپنی رہائش گاہ پر واپس لوٹتے تو ان میں سے ایک شخص جس کا تعلق بھی پاکستان سے تھا وہ ان میں سے قدرے پڑھا لکھا تھا روزانہ ایک ڈبہ لے آتا اور پی کر سو جاتا باقی ایک درجن افراد اس سے روزانہ پوچھتے کہ یہ تم کیا پیتے ہو وہ ٹال مٹول سے کام لیتا ایک دن تنگ آکر اس نے انہیں بتایا کہ فیکٹری میں چونکہ دھول زیادہ ہے اس لئے وہ ایک ڈبہ دھول کی دوائی کے طور پر پیتا ہے اس نے انہیں یہ نہیں بتایا کہ وہ دراصل شراب پیتا ہے پھر اس نے سب کو کافی عرصے تک ایک ایک ڈبہ دھول کی دوائی بتا کر شراب پلائی اسی دوران ایک شخص کی کسی وجہ سے موت واقع ہوگئی تو باقی سب نے موت کا سبب جب جاننا چاہا تو اس شخص نے باقی سب کو بتایا کہ اس کی موت کا سبب فیکٹری کی دھول ہے لہذا آج کے بعد دو دو ڈبے پئیو کافی عرصے تک وہ سب انجانے میں شراب دھول کی دوائی سمجھ کر پیتے رہے۔ میرے اس بزرگ دوست کو اپنی عمر کے آخری وقت تک انجانے میں فیکٹری کے دور میں شراب کے ڈبے پینے پر پچھتاوا رہا وہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہے۔کاش کوئی ایسا سسٹم بھی ایجاد ہو جائے کہ غریبوں کا خون چوسنے والے ہمارے حکمرانوں کا ڈی این ٹیسٹ یا لیب ٹیسٹ کیا جاسکے پاکستان کے سابق اسمبلی ممبر جمشید دستی نے پارلیمنٹ لاجز میں سے شراب کی بوتلیں میڈیا کو دکھائی تھی یہاں یہ بات بھی زبان زد عام ہے کہ پاکستان یا اسلامی ممالک پر شراب بیچنے کا انٹرنیشل پریشر بھی رہتا ہے۔