نوازشریف کی جیل سے رہائی نے پاکستان کی سیاست کو یک لخت ایک نئے دہرائے پر لاکھڑا کیا ۔ نوازشریف جیل میں ہوں یا رائیونڈ لاہور میں وہ قومی سیاست کے ایک اہم کردار ہیں۔ قومی منظرنامے سے ان کی عدم موجودگی کے باوجود ان کی پارٹی نے جم کر الیکشن لڑا۔نون لیگ نہ صرف دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری بلکہ پنجاب میں بھرپور کامیابی بھی حاصل کی۔ نوازشریف کے جیل میں ہونے کے باعث نون لیگ اور شہباز شریف کی سیاست تذبذب کا شکار رہی۔شہباز شریف مزاجاً اعتدال پسند اور صلح جو شخصیت ہیں جن کی صلاحیتیں تصادم اور محاذ آرائی میں نہیں بلکہ حالت امن میں نکھرتی ہیں۔ اس کے برعکس نوازشریف کی اٹھان جارحانہ سیاست اور مخالفین کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے پر اٹھائی گئی ہے۔اسلامی جمہوری اتحاد کی سیاست نوئے کی دہائی میں نوازشریف کے گرد گھومتی تھی ۔ملک کی مقبول ترین جماعت پیپلزپارٹی کو اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے تعاون سے انہوں نے اقتدار کی راہ داریوں سے نکال باہر کیاا ور ایوان وزیراعظم کواپنا مسکن بنالیا۔ عالم یہ ہے کہ پی پی پی جس کا پنجاب میں طوطی بولتاتھا اسے مری سے لے کر رحیم یار خان تک محض گجر خان میں راجہ پرویز اشرف کی ایک نشست ملی۔تحریک انصاف نے نون لیگ کے خلاف وہی حربے استعمال کیے جواس نے پی پی پی اور اس کی لیڈرشپ کے خلاف استعمال کرکے انہیں میدان سیاست کے دیس سے نکالاتھا۔اسٹیبلشمنٹ سے یارانہ، عدالتوں کا بے رحمانہ استعمال، میڈیا کی معاونت، مخالفین کی کردار کشی اور الیکٹ ایبلز کو اپنے گرد اکٹھا کرنا یہی وہ ہتھیار تھے جونون لیگ نے پی پی کے خلاف استعمال کیے ۔ سیاست مکافات عمل کا کھیل ہے۔ شریف خاندان اور نون لیگ کے عقاب صفت لیڈر حکومت کو تگنی کا ناچ نچانے کے لیے سیاسی حکمت عملی کے خدوخال وضع کرنے کے لیے آج کل سر جوڑے ہوئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی بھی ان کے ہم رکاب ہیں اور سخت گیر حکمت عملی مرتب کرنے کا تقاضہ کررہے ہیں۔کئی ایک سیناریو زیر بحث ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ فی الحال حالات حکومت کے کنٹرول میں ہیںالبتہ اقتصادی گرو اسد عمر ابھی تک عوام کو گرانی کے تحفے دینے کے سوا کوئی خوشخبری نہ سنا سکے۔ حکومت کا سب سے کمزور پہلو بدترین معاشی صورت حال ہے۔ آیئے اسلام آباد میں ابھرنے والے منظرنامے پر ایک نظر ڈالتے ہیں:حالیہ چند ہفتوں میں عمران خان اچھا کھیل کھیلتے نظر آئے۔اسٹیبلشمنٹ سے ان کی گاڑھی چھنتی ہے۔ ایسا نظر آتاہے کہ تحریک انصاف اور عسکری قیادت کے درمیان ملک کو بحرانوں سے نکالنے اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے ایک اسٹرٹیجک اتحاد تشکیل پاچکا ہے۔داخلی اور خارجی معاملات میں ہم آہنگی کا یہ عالم ہے کہ وزیراعظم سعودی عرب کے حکمرانوں سے ملنے جاتے ہیں تو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ چین کے صدر شی جن پنگ سے۔ سترہ اگست کو عمران خان نے وزیراعظم کا حلف اٹھایا اور بائیس اگست کو جنرل قمر جاوید باجوہ کے اعزاز میں ولی عہد محمد بن سلمان نے پرتپاک اعشائیہ دیا۔حکومت دانستہ عسکری سفارت کاری کو بروئے کار لارہی ہے تاکہ ملک کے اسٹرٹیجک مفادات کے حصول میں تیزی سے پیش رفت کی جاسکے۔ خارجی محاذپر وزیراعظم عمران خان کی گرفت ابھی تک مضبوط نظر آ رہی ہے۔وہ اپنے پتے کامیابی سے چل رہے ہیں۔ ایران کے ساتھ دوستی اور معاشی شراکت داری کے امکانات کو بڑھا چڑھا کربیان کرکے امریکہ ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو پاکستان کی طرف مائل کیاگیا۔سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات یمن کی جنگ میں پاکستان کی شرکت سے معذرت پر کبیدہ خاطر تھے اب دوبارہ پاکستان کی طرف راغب ہورہے ہیں۔پاکستان کا ایران کی جانب جھکاؤامریکیوں اور بالخصوص عربوں کے لیے سوہان روح ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان میں بڑی پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے پر آمادہ ہیں۔ سیاسی حکومتوں کی دل کھول کروہ مالی امداد کرنے سے کتراتے تھے لیکن عسکری قیادت نے جب بھی کوئی تقاضہ کیا ‘عرب ممالک نے بخل سے کام نہیں لیا۔اگر سعودی عرب گوادر میں دس بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرتاہے تو اگلے چند برس میں ملکی معیشت میں بہتری کے امکانات روشن ہوجائیں گے اور ترقی کی رفتار میں تیزی بھی آجائے گی۔علاوہ ازیں گوادر اور سی پیک کے ثمرات میں بھی خاطرخواہ اضافہ ہوجائے گا۔ وزیراعظم عمران خان کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا بھی شکرگزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے وزرائے خارجہ کی سطح پر مذاکرات کی منسوخی کا اعلان کرکے ان کے مسائل میں کمی کی۔ وزیراعظم عمران خان کی بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی خواہش کافی پرانی اور گہری ہے۔ پرویز مشرف کی طرح وہ بھی کوئی ایسا کارنامہ سرانجام دینا چاہتے ہیں جوانہیں تاریخ میں امر کرسکے۔ وزیراعظم کا بھارت کی جانب رجحان دیکھ کر یہ گمان کیا جاتاتھا کہ اگلے چند ماہ میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بھارت اور کشمیر کے معاملے پر ٹھن جائے گی لیکن بھارتی دفتر خارجہ نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف جو تضحیک آمیز لب ولہجہ اختیار کیا اس نے وزیراعظم عمران خان کے چودہ طبق روشن کردیئے۔ جوابی ٹویٹ میں انہوں نے بالواسطہ طورپر وزیراعظم مودی کی ذات کو نشانہ بنایا۔چنانچہ بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری کا باب اب کچھ عرصے کے لیے بند ہوگیا ۔اسی طرح دائیں بازو کے شدت پسند گروہوں کے پاس حکومت مخالف پروپیگنڈے کا کوئی جواز نہیں رہا۔ حکومت کو نیچا دکھانے کے لیے شریف خاندان کی زنبیل میں جارحانہ اننگ کھیلنے اور سویلین بالادستی کا ڈھنڈورہ پیٹنے کے سوا کچھ نہیں ۔ نوازشریف کے اردگرد سیاست کاروں کی اکثریت بھی ایسے جوشیلوںپر مشتمل ہے جن کے نزدیک ملک میں طاقتور اسٹیبلشمنٹ کو پس منظر میں دھکیلنے کے لیے اسے عوامی طاقت سے زیر کرنا ہوگا۔ نوازشریف اور خاص کر مریم اس نقطہ نظر کی حامی ہی نہیں بلکہ پرچارک ہیں۔ عدالت سے ملنے والے ریلیف کے بعد ان کے نظریات اور سیاسی حکمت عملی مزید بے لچک ہوچکی ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق عدالتی فیصلے میں پائے جانے والے سقم کا فائدہ مریم نواز کو پہنچ سکتاہے اوروہ جیل جانے سے بچ سکتی ہیں۔اس سینا ریو میں نون لیگ منتشر ہونے سے بھی بچ جائے گی اور اسے تازہ دم اور غصہ سے بھری ہوئی قیادت دستیاب ہوجائے گی جو تحریک انصاف کو قدم جمانے نہیں دے گی۔ پارٹی کا موجودہ ڈھانچہ شہباز شریف کے مزاج اور حکمت عملی سے میل نہیں کھاتا۔گزشتہ الیکشن میں وہ کوئی کارنامہ سرانجام نہ دے سکے۔ نوازشریف کا قریبی حلقہ انہیں کھیل سے باہر اور مریم نوازکے گرد جمع ہونے کے عزائم رکھتاہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک کے اندر اورباہر اس نقطہ نظر کے حامیوں کی ایک بہت بڑی تعداد پائی جاتی ہے جو سویلین بالادستی کے عنوان سے عسکری اداروں کے خلاف مورچہ زن ہونے کو بے تاب ہیں۔ دونوں گروہوں کے مفادات مشترک ہوگئے ہیں۔ اگلے چند ماہ کی سیاست پاکستان کے مستقبل کی صورت گری میں اہم کردار ادا کرے گی۔ وزیراعظم عمران خان بظاہر کافی متحرک ہیں لیکن انہیںعوام کو معاشی ریلیف فراہم کرنے پرتوجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ علامتی اقدامات سے اوپر اٹھ کر ایسے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے جوشہریوں کو راحت پہنچاسکیں۔نہیں تو مہنگائی کا اٹھنے والا طوفان اور حزب اختلاف کی سیاست مل کر وزیراعظم عمران خان کی حکومت کی ناکامی کا باب رقم کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔