ہمارے اچھرے والے گھر کے بائیں بازو والے مکان میں ایک سفید پوش گھرانہ آباد تھا،ذرائع آمدن محدود ہونے کے باعث اس گھر کے سربراہ نے بچوں کو واجبی سی تعلیم دلوائی تھی، دو بیٹے تھے اور باقی بیٹیاں،لڑکوں نے میٹرک کر لیا تو اس نے کسی رشتہ دار کے توسط سے دونوں بیٹوں کو مزدوری کیلئے سعودی عرب بھجوا دیا، بچوں نے گھر پیسے بھجوانے شروع کئے تو اس گھرانے نے کچھ سکھ کا سانس لیا، مجھے یاد ہے کہ اس شخص کے بچوں نے جب پہلی بار گھر پیسے بھجوائے تھے تو انہوں نے محلے میں مٹھائی بانٹی تھی، ایک دن کیا ہوا؟ شام کے وقت میں آفس جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ اچانک محلے میں شور شروع ہوا میں جلدی سے باہر نکلا، پوری گلی میں پولیس اہلکار پھیلے ہوئے تھے، پورا محلہ بھی تماشائی بن کر گھروں سے باہر نکل آیا تھا، لوگوں نے بتایا کہ شیخوپورہ سے پولیس آئی ہے آپ کے ہمسائے کو گرفتار کرنے، ساتھ مقامی پولیس بھی ہے، کچھ پولیس اہلکار میرے ہمسائے کے گھر میں گھس بھی چکے تھے، میں اس ہجوم سے نکلتا ہوا اپنے ہمسائے کے گھر داخل ہوا تو وہاں جو منظر تھا اس نے مجھے دہلا کر رکھ دیا،ایک چھوٹے سے کمرے میں بوڑھا اور نحیف ہمسایہ پولیس کے خوف سے پلنگ کے نیچے آخری نکڑ میں دبکا بیٹھا تھا،پولیس اہلکار اسے ڈنڈے مار مار کر باہر نکالنے کیلئے جدوجہد کر رہے تھے، اس شخص کی بیوی اور بیٹیاں چیخیں مار مار کر رو رہی تھیں، میں نے ان بہادر سپاہیوں کے ساتھ آنے والے سب انسپکٹر کو اپنا تعارف کرایا اور اس سے دریافت کیا کہ اس شریف آدمی کا جرم کیا ہے، جس کی بنیاد پر آپ اسے گرفتار کرنے آئے ہیں؟ پتہ یہ چلا کہ اس شخص کا ایک دور دراز کا رشتہ دار شیخوپورہ میں رہتا ہے اور پولیس کو ایک معمولی سے کیس میں مطلوب ہے، پولیس جب اسے کہیں تلاش نہ کر پائی تو اس شبہ میں یہاں تک پہنچ گئی کہ اس آدمی نے کہیں اسے اپنے گھر میں پناہ تو نہیں دے رکھی، مطلوب ملزم یہاں نہ ملنے کے باوجود پولیس والے اسے گرفتار کرکے شیخوپورہ لے جانا چاہتے تھے، میں نے نکے تھانیدار کو دلائل سے قائل کیا کہ اس چھوٹے سے مکان میں کوئی نیا آدمی ٹھہرا ہوتا تو اس کا علم پوری گلی کے لوگوں کو ہو جاتا، اس گھر میں تو کسی مہمان کو ٹھہرانے کی گنجائش تک نہیں ، بالآخر وہ پولیس افسر اپنی پلٹن کے ساتھ واپس چلا گیا، اس کے بعد میں نے اس شریف آدمی کو پلنگ کے نیچے سے نکل آنے کے لیئے کہا تو وہ پولیس کے چلے جانے کے باوجود کانپ رہا تھا،میں تو اس گھر سے باہر آ گیا اس کے بعد اس کی بیوی اور بیٹیوں نے اسے پلنگ کے نیچے سے نکال لیا ہوگا، سالوںپرانا یہ واقعہ مجھے کبھی نہیں بھولتا، جب بھی اس دن کو یاد کرتا ہوں تو یہ ضرور سوچتا ہوں کہ اس غریب گھر کے سربراہ نے باقی عمر بیوی اور بیٹیوں کے ساتھ کتنی شرمندگی سے کاٹی ہوگی؟ وہ تو ہر وقت اپنی کمزور مردانگی اور پولیس کے خوف میں ہی مبتلا رہا ہوگا، آپ کو آگاہ کرتا چلوں کہ یہ وہ دن تھے جب پنجاب کے وزیر اعلی کا نام شہباز شریف تھا۔ ٭٭٭٭٭ اب یہ واقعہ مجھے یاد آیا ہے شہباز شریف کے گھر حمزہ شہباز کی گرفتاری کیلئے نیب کے ناکام چھاپے کی خبر سن کر، اس چھاپے پر حمزہ شہباز بہت سیخ پا ہیں لیکن نیب سے بچنے کیلئے چھپنا تو انہیں بھی کسی نہ کسی کونے میں پڑا ہی ہوگا، نیب والوں نے پنجاب کے سابق حکمرانوں کے گھر چھاپہ اس وقت مارا جب ایک ہی دن پہلے اسلامی نظریاتی کونسل نے نیب کی اس طرح کی کارروائیوں کو خلاف اسلام اور خلاف قانون قانون قرار دیا، سپریم کورٹ آف پاکستان بھی خلاف قانون چھاپوں پر تحفظات کا اظہار کرتی رہتی ہے، عدالت عظمی کا سوال ہے کہ جب کسی بھی ملزم کو پکڑنے کیلئے قانونی راستے موجود ہیں تو پھر گھروں کی دیواریں کیوں پھلانگی جاتی ہیں، شہباز شریف کے گھر چھاپے کے دوران ن لیگی کارکن بھی جمع ہوئے اور انہوں نے مزاحمت بھی کی، یہ کارکن جس طرح نیب والوں کی گاڑیوں کے سامنے کھڑے ہوئے اور نیب اہلکاروں کے خلاف جو زبان استعمال کی، اس کا ازالہ تھانہ ماڈل ٹاؤن میں ایک درخواست دینے سے نہیں ہوتا، کون سا نیوز چینل ہے جس نے لیگی کارکنوں کے غصے کو نہیں دکھایا، پتہ نہیں نیب کے کرتا دھرتا لوگوں کو یہ بات سمجھ میں کیوں نہیں آتی کہ اس طرح کی حرکتوں سے اس ادارے کی ساکھ عوام میں بری طرح متاثر ہو چکی ہے، عمران خان جن سیاستدانوں کو چور، ڈاکو، لٹیرے، منی لانڈرر کہتے ہیں ، انہیں ادراک ہونا چاہیے کہ اس طرح کی کارروائیوں سے لوگوں کی توجہ اصل الزامات اور ان الزامات کی مبینہ سچائی سے ہٹ جاتی ہے، بہت لوگ ہیں جو عمران خان کے ساتھ تھے اور اب بھی ساتھ ہو سکتے ہیں، مگر وہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت صرف نیب گردی سے نہیں چلے گی، اسے اس حوالے سے نیب کو قانون کے دائرے میں لانا ہوگا، لیکن ایسا ممکن نہیں لگتا ،کیونکہ یہی شکایات تو خود حکومت کو بھی نیب سے ہیں، لمبے ہاتھ قانون کے ہونے چاہئیں، نیب یا پولیس کے نہیں، دور حکومت چاہے کسی کا بھی ہو، یہاں تو یہی ہوتا چلا آ رہا ہے۔ ٭٭٭٭٭ میرا سے کئی درجے اچھی انگریزی بول لینے کی دعویداراداکارہ اور رقاصہ ریما خان جو اب امریکی شہریت کی حامل بھی ہیں، انہوں نے اپنے امریکی شوہر ڈاکٹرطارق شہاب کے ساتھ اپنے دورہ بیت المقدس کی تصاویر انسٹا گرام پر وائرل کرکے ایک ہی ماہ میں دوسرا پرائیڈ آف پرفارمنس حاصل کر لیا ہے ، بلاشبہ یہ ایک بڑی سعادت کی بات ہے، جو انہیں پاکستان میں دورہ اسرائیل پر پابندی کے باوجود حاصل ہوئی، ریما نے ان تصاویر کے ساتھ انگلش میں ایک نوٹ بھی شئیر کیا ہے،وہ لکھتی ہیں کہ یہ شہر مسلمانوں کے ساتھ دوسرے مذاہب کیلئے بھی اہم ہے، بالکل درست فرمایا انہوں نے، واقعی یہ شہر عیسائیوں کیلئے اس لئے بہت محترم ہے کہ حضرت عیسیٰ کی پیدائش یہاں ہوئی، لیکن یہ شہراسرائیل کا نہیں مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، مسجد اقصیٰ بھی یہیں موجود ہے، امریکہ کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے اسرائیل کا دارالخلافہ قرار دیتے ہوئے اپنے سفارتی دفاتر یہاں منتقل کئے تو پوری دنیا کے مسلمانوں میں ہی نہیں خود امریکیوں میں بھی اشتعال پھیلا، ان کے اس اقدام سے ان کے ووٹ بنک میں میں کمی نوٹ کی گئی، یہ شہر بنیادی طور پر فلسطین کا دارالحکومت ہے، سلطنت عثمانیہ کے دور میں اسے حرم شریف کہا جاتا تھا اور مسلمانوں کیلئے یہ آج بھی یہ حرم شریف ہی ہے، انیس سو سترہ تک بیت المقدس سلطنت عثمانیہ کا حصہ رہا، پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر یہاں برطانیہ نے قبضہ کر لیا، انیس سو اڑتالیس میں یہاں برطانیہ نے یہودیوں کی آباد کاری شروع کردی، امریکہ اور دوسری استعماری طاقتوں نے بھی ساتھ دیا، جون 1967 ء میں اسرائیلیوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیا۔ مسلمانوں کا قبلہ اول ہنوز یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ قابض یہودیوں کے بقول 70عیسوی کی تباہی سے ہیکل سلیمانی کی ایک دیوار کا کچھ حصہ بچا ہوا ہے جہاں دو ہزار سال سے یہودی آ کر رویا کرتے تھے، اسی لیے اسے ’’دیوارِ گریہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اب یہودی مسجد اقصٰی کو گرا کووہاں ہیکل سلیمانی تعمیر کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ مقبوضہ علاقوں پر فلسطینی عوام نے آج تک اسرائیلی تسلط کو قبول نہیں کیا، دہائیاں بیت گئیں مقبوضہ علاقوں میں روزانہ فلسطینی عوام خون کا نذرانہ دیتے ہیں، روزانہ فلسطین کی بیٹیوں، بیٹوں، بچوں اور بزرگوں کو شہید کیا جاتا ہے، ان پر وحشیانہ مظالم ڈھائے جاتے ہیں، اسرائیلی جیلیں آزادی کی جنگ لڑنے والے مجاہدین سے بھری پڑی ہیں مگر فلسطینیوں کی آزاد وطن کے لئے جنگ ہے کہ اسے کسی بھی طاقت سے نہیں دبایا جا سکا، دنیا کے ٹھیکیداروں نے صہیونی مظالم پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں ، اس کے باوجود قبلہ اول کی آزادی کی تحریک جاری و ساری ہے، اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جہاں جانے کیلئے پاکستان ویزا جاری نہیں کرتا، جسے پاکستان نے اب تک تسلیم نہیں کیا، اس حوالے سے دو آرا موجود ہیں اور دوسری رائے یعنی اسرائیل کو تسلیم کر لینے کے حامیوں کے دلائل بھی خالی از وزن نہیں، مکالمہ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔