معزز قارئین!۔ کل 5 جولائی تھی ۔ اُس سے ایک دِن پہلے 4 جولائی کو سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ’’شریک چیئرمین ‘‘جناب آصف زرداری نے جیل سے اپنے پیغام میں کہا کہ ’’ اُن کی پارٹی 5 جولائی کو مرحوم صدر جنرل ضیاء اُلحق کی طرف سے مارشل لا کے نفاذ کے خلاف ’’ یوم سیاہ‘‘ منائے گی۔ یہ اُن کا اپنا معاملہ ہے لیکن، 4 جولائی 2019ء کو راولپنڈی میں ’’ سرسیّد ایکسپریس‘‘ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہُوئے وزیراعظم عمران خان نے شریفین ؔ اور زردارینؔ ( میاں نواز شریف اور جناب آصف علی زرداری کے خاندانوں اور متعلقین ) کو مخاطب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’ وہ جس مرضی بادشاہ سے سفارش کرالیں ، بے شک اُن کے گھٹنے دبالیں ، اُنہیں "N.R.O" نہیں ملے گا‘‘۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ ’’ شریفین ؔاور زردارینؔ (خاندان) لُوٹا ہُوا آدھا پیسہ بھی واپس لے آئیں تو ملکی قرضہ ختم ہو جائے گا، جن لوگوں نے ملک کو کنگال کردِیا ہے ہم اُن سے جواب لیں گے ۔انگریزی اخبارات نے وزیراعظم کے اِس بیان کو اِس طرح شائع کِیا ہے کہ "No Royal intercession Would Work on him" لیکن، سوال یہ ہے کہ ’’کیا بادشاہوں کی سفارشوں‘‘ کے محتاج ( اور عادی )سیاستدان وزیراعظم کے اِس بیان (یا تڑی )کے بعد خاموش ہو کر بیٹھ جائیں گے ؟۔ عربی زبان ’’ محتاج ‘‘ کے معنی ہیں ’’ حاجت مند ، مفلس ، غریب، فقیروغیرہ‘‘ اور جو شخص / شخصیت محتاج لوگوں کی حاجت ، مفلسی ، غربت اور فقر دُور کرے اُسے محتاج اؔلیہ کہتے ہیں ۔ مرزا غالب ؔنے کہا تھا کہ … کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند؟ کس کی حاجت روا کرے کوئی؟ دراصل مرزا غالب ؔ خُود بادشاہ نہیں تھے ، ورنہ بادشاہ تو اپنے چہروں پر اِس طرح کا پوسٹر لگائے رہتے ہیں کہ… جو آئے ، آئے ، کہ ہم دِل کُشادہ رکھتے ہیں! لیکن جولوگ بادشاہ کے یا کسی اور کے محتاج نہیں ہوتے اُن کے لئے شاعر نے کہا تھا کہ … نہیں محتاج ، زیور کا ، جسے خُوبی خُدا نے دِی! کہ دیکھو !چاند کیسا ، خُوشنما لگتا ہے بن گہنے؟ معزز قارئین!۔ ممکن ہے کہ’’وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد ، مختلف ملکوں کے بادشاہوں نے ، پاکستان کے سابق صدور اور وزرائے اعظم سے (ذاتی ) دوستی کا رشتہ توڑ لِیا ہو؟ اور اُنہوں نے پاکستان کے مفادات کے مطابق ، مختلف مقدمات میں ملوث شریفینؔ اور زردارینؔ کی سفارش نہ کرنے کا فیصلہ کرلِیا ہو ؟۔ وگرنہ وزیراعظم عمران خان ، اِس طرح کا دعویٰ کیسے کرسکتے تھے ؟لیکن، کیا ہی اچھا ہو کہ وزیراعظم یہ اعلان بھی کردیں کہ ’’ دنیا کے کسی صدر یا وزیراعظم کی سفارش بھی نہیں چلے گی ، خواہ شریفینؔ یا زردارینؔ اُن کے بھی گھٹنے کیوں نہ دباتے رہیں۔ کیا دُنیا کے بڑے ملکوں کے صدور یا وزرائے اعظم کے گھٹنے مضبوط ہیں ؟۔ کیا اُنہیں اپنے گھٹنوں کی مالش کے لئے ، گھٹنے دبانے والوں (مالشیوں) کی ضرورت نہیں ہوتی ؟۔ جو شخص لیاقت ؔ/ قابلیت نہ رکھتا ہو اور اُس نے کسی کی سفارش سے کوئی عہدہ / منصب حاصل کر لِیا ہو تو اُسے ’’ سفارشی ٹٹو‘‘ کہتے ہیں ۔ انگریزی میں "One Appointed Merely On Recommendation"۔ایک ضرب اُلمِثل ہے کہ ’’سفارش بغیر ، روزگار نہیں ملتا‘‘ ( یعنی۔ سفارش کے بغیر نوکری نہیں ملتی)۔ ایک اور ضرب اُلمِثل ہے کہ ’’ سفارشی ٹٹو ، عراقیؔ کے لات مارے‘‘ ( یعنی۔ سفارشی شخص بڑا مُنہ زور ہوتا ہے اور دوسروں کو خاطر میں نہیں لاتا)۔ پرانے دَور میں روم کے بادشاہ کو قیصرؔ کہا جاتا تھااور چین کے بادشاہ کو فغفور ؔ۔ حضرت مرزا داغ دؔہلوی(25 مئی 1831ء ۔17 مارچ 1905ئ) نے ہندوستان کے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر ؔکے لطف و کرم کی تعریف کرتے ہُوئے کہا تھا کہ … نہیں ہے قیصر ؔو فغفور ؔسے طمع اے داغؔ! بہت ہی لطف و کرم ، اپنے بادشاہ کے مجھے! بہرحال وزیراعظم عمران خان کاشریفین ؔاور زردارینؔ کو چیلنج اُن کی خُود اعتمادی کا بین ثبوت ہے لیکن، اگر ملکۂ معظمہ برطانیہ ۔ (Queen Elizabeth II) کی طرف سے شریفینؔ / زردارینؔ کے لئے ہمارے وزیراعظم کو سفارشی چِٹھی (Recommendatory Letter) بھجوادِیا توپھر کیا پوزیشن ہوگی ؟ کیونکہ ’’ آپ کے دونوں بیٹے ’’پاکستانی نژاد‘‘ (British Nationals )سلیمان عیسیٰ خان اور قاسم خان ماشاء اللہ جوان ہو چکے ہیں ؟۔ ’’یوم سیاہ ‘‘ معزز قارئین!۔ نئی نسل کو بتانا ضروری ہے کہ ’’ جب 5 جولائی 1977ء کو آرمی چیف جنرل ضیاء اُلحق نے ، منتخب وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو ختم کر کے خود اقتدار پر قبضہ کرلِیا تھا تو، بیگم نصرت بھٹو کی چیئرپرسن شِپ اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شریک چیئرپرسن شِپ میں پاکستان پیپلز پارٹی میں ہر سال 5 جولائی کو ’’ یوم سیاہ‘‘ منانا شروع کردِیا لیکن، دسمبر 1984ء میں جنرل ضیاء اُلحق ’’ صدارتی ریفرنڈم‘‘ کے ذریعے خُود کو صدرِ پاکستان منتخب کرا لِیا تھا۔ اُس ریفرنڈم میں صدر جنرل ضیاء اُلحق واحد ’’ صدارتی امیدوار‘‘ تھے ۔ اُنہوں نے عوام سے صِرف اِس سوال کا جواب ہاں یا ناں میں دینے کے لئے کہا تھا کہ ’’ کیا آپ پاکستان میں اسلام کا نظام چاہتے ہیں اور اگر اِس سوال کا جواب ہاں میں ہے تو ، اُس کا مطلب یہ ہُوا کہ ، آپ نے جنرل ضیاء اُلحق کو 5سال کے لئے صدر پاکستان منتخب کرلِیا ہے ؟‘‘۔ ’’یوم نجات‘‘ 28 فروری 1985ء کو صدر جنرل ضیاء اُلحق نے غیر جماعتی انتخابات کرائے۔ بیگم نصرت بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی اور حزبِ اختلاف کی دوسری سیاسی / مذہبی جماعتوں نے اُن انتخابات کا بائیکاٹ کِیا تھا۔ نواب شاہ سے قومی اسمبلی کی ایک نشست کے لئے جناب حاکم علی زرداری اور صوبائی اسمبلی کی نشست کے لئے آصف علی زرداری امیدوار تھے لیکن باپ بیٹا دونوں ہار گئے تھے ۔ غیر جماعتی انتخابات کے بعد صدر جنرل ضیاء اُلحق نے سندھڑی کے کامیاب رُکن قومی اسمبلی جناب محمد خان جونیجو کو وزیراعظم نامزد کردِیا اور اُن کی قیادت میں ایک نئی’’ پاکستان مسلم لیگ ‘‘ قائم کرادِی۔ پھر اُس مسلم لیگ نے ہر سال 5 جولائی کو ’’ یوم نجات‘‘ منانا شروع کردِیا تھا ۔ صدر جنرل ضیاء اُلحق کو ( اُس دَور کے ) وزیراعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف سے اپنے بیٹوں سے زیادہ محبت تھی۔ ایک دِن اُنہوں نے ’’ شفقتِ پدری‘‘ سے مغلوب ہو کر یہ دُعا بھی مانگی تھی کہ ’’ خُدا کر ے کہ میری زندگی بھی نواز شریف کو لگ جاے !‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دُعا قبول کرلیا اور 17 اگست 1988ء کو صدر جنرل ضیا اُلحق بہاولپور ہوائی حادثے میں جاں بحق ہوگئے تو، میاں نواز شریف اور صدر جنرل ضیاء اُلحق کے دوسرے عقیدت مندوں نے اُنہیں بھی شہادت ؔ کے مرتبے پر فائز کردِیا۔ یعنی ، بھٹو شہید ؔ کے بعد صدر جنرل ضیاء اُلحق بھی شہید ؔ؟۔ معزز قارئین!۔ صدر جنرل ضیاء اُلحق کے جاں بحق ہونے کے بعد ، مرحوم کے جسدِ خاکی کو اسلام آباد کی فیصل ؔمسجد میں دفن کئے جانے سے پہلے مَیں نے اسلام آباد کی مختلف سڑکوں پر ، میاں نواز شریف کو ، عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہُوئے سمندر سے خطاب کرتے ہُوئے بار بار یہ اعلان کرتے ہُوئے دیکھا اور سُنا تھا کہ ’’ مَیں شہید جنرل ضیاء اُلحق کا مشن ضرور پورا کروں گا ‘‘ ۔صدر جنرل ضیاء اُلحق کا مشن کیا تھا ؟۔ 3 بار وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد بھی میاں نواز شریف نے اِس راز کو راز ہی رہنے دِیا؟۔ پھر اُنہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی سے "Love–Hate Relationship" کو مستحکم کرنے کے لئے 5 جولائی کو ’’ یوم نجات‘‘ منانا بند کردِیا۔ کل (5 جولائی کو بھی ) پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ’’ یوم نجات ‘‘ نہیں منایا۔ اِس وقت اپنی اپنی جگہ اور اپنے اپنے مقدمات میں ملوث شریفین ؔ اور زردارینؔ ۔ ’’ اصل میں دونوں ایک ہیں‘‘ ( پنجابی میں ) ’’اِک مِک‘‘ ۔ کسی پنجابی شاعر نے کسی پنجابی الہڑ مٹیار کی طرف سے کہا تھا کہ … مَیں تے ماہی اِنج مل گئے ، جِیویں ٹِچ بٹناں دِی جوڑی! کیا اب ’’ٹچ بٹناں دِی سیاسی جوڑ ی ‘‘ پرانے بادشاہوں سے تجدیدِ تعلقات کرا لے گی یا نئے بادشاہ تلاش کرے گی؟۔