’’شہزاد اکبر کون ہے؟‘‘ جب یہ سوال 2010ء کے لگ بھگ پوچھا جاتا تھا تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہوتا تھا کہ بیرسٹر آزاد رائے رکھنے والا آدمی ہے ،دراصل بیرسٹر شہزاد اکبر اتنی اچانک سے منظر عام پر آیا کہ اس کے کوائف اور حسب نسب کے بارے میں سیاسی اور سفارتی حلقوں میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئی تھیں۔ امریکی حکومت اور خصوصاً سی آئی اے کے خلاف پانچ سو ملین ڈالر کا دعویٰ دائر کرنا بڑا حوصلے کا کام تھا اور اس نے یہ دعویٰ وزیرستان سے اپنے موکل کریم خان کے کہنے پر ڈرون حملے میں اس کے بھائی اور بیٹے کی ہلاکت پر کیا تھا۔اس کیس میں سیکرٹری ڈیفنس رابرٹ گیٹس‘سی آئی اے چیف لیون پینٹا اور اسلام آباد میں سی آئی اے چیف کو فریق بنایا گیا تھا۔ بیرسٹر کو پتہ تو تھا کہ وہ ایک بڑا قدم اٹھانے جا رہا ہے لیکن یہ اتنا دھماکہ خیز ہو گا کہ راتوں رات دنیا بھر میں تہلکہ مچ جائے گا اور وہ دنیا بھر سے ڈرون حملوں میں مارے جانے والے بے گناہ شہریوں کی آواز بن جائے گا۔اس کا اسے اندازہ نہیں تھا۔ لوگ اس کے بارے میں کم جانتے تھے، اس لئے اسے کبھی اندرونی اور کبھی بیرونی ایجنسیوں کے ساتھ منسلک کیا جاتا تھا۔ اس نے ڈرون حملوں کے متاثرین پر تحقیق کی انہیں اکٹھا کیا اور ان کا کیس اقوام متحدہ سمیت دنیا کے ہر فورم پر اٹھایا۔ امریکہ نے اس پر سفری پابندیاں لگا دیں اور پاکستان کے حساس ادارے اس کے بارے میں شکوک کا شکار تھے کیونکہ اس کا کام پاکستان اور امریکہ کے باہمی معاہدوں اور ڈرون حملوں میں پاک امریکہ اشتراک کے باعث ان کے مفادات سے ٹکراتا تھا۔کئی سیاسی راہنما اور اہم ملکوں کے سفارت کار اسے ایجنسیوں کا آلہ کار سمجھتے تھے لیکن یہ کسی بھی قسم کے پروپیگنڈے کی پروا کئے بغیر اپنے کام میں جتا رہا بلکہ جبری گمشدگیوں کے کیسز بھی لینے لگا۔ اس دوران ایک دلچسپ واقعہ ہوا کہ وزیرستان سے ڈرون حملوں کے متاثرین نے اسلام آباد میں احتجاجی کیمپ لگایا ہوا تھا اور بیشتر متاثرین اس کے دفتر میں ٹھہرتے تھے۔یہ اصل میں اس احتجاج کا ماسٹرمائنڈ بھی بیرسٹر خود ہی تھا ایک دن یہ ہوا کہ جنرل حمید گل اور لال مسجد والے مولوی عبدالعزیز بھی اس کے کیمپ آ گئے۔بیرسٹر نے اس وقت یہ کہہ کر مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ اس احتجاج کے کوئی سیاسی مقاصد نہیں تھے۔اس کی ڈرون مخالف مہم کی گونج دنیا بھر میں تھی اور جب یہ بات لندن کے انسانی حقوق کے حلقوں میں پہنچی تو جمائما خان تک بھی پہنچی اور وہاں سے بات بنی گالہ۔ بیرسٹر اس وقت تک عمران خان کی کرکٹ کا دیوان تھا۔خود بھی یونیورسٹی آف لندن اور یونیورسٹی آف نیو کاسل کی طرف سے کرکٹ کھیلتا رہا تھا۔انہی دنوں عمران خان نے بھی ڈرون مخالف مہم شروع کی اور بیرسٹر نے اس مہم کو کامیاب بنانے کے لئے دن رات محنت کی اور وزیرستان والے مارچ کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ عمران کی سیاست کا گرویدہ بھی ہو گیا۔اس کے سیاسی خیالات بدلنے لگے اور دوستوں میں سیاسی توںتکار بڑھنے لگی۔شاید یہ ہم دوستوں کی وجہ سے ہی تحریک انصاف میں شامل نہیں ہوا۔2014ء کے دھرنے کے دوران یہ سیاسی طور پر بھی فعال ہو گیا اور کنٹینر پر بھی نظر آنے لگا دراصل عمران خان اس کی بھولی بھالی صورت سے زیادہ اس کی مضبوط قوت ارادی سے متاثر ہوا تھا۔ وقت گزرتا رہا اور 2018ء میں تحریک انصاف انتخابات جیت گئی بلکہ انتخابات کے نتائج ہم دوستوں نے اکٹھے دیکھے۔اس نے کامیابی پر مبارکباد کا پیغام بھیج دیا۔بس یہیں سے اس کی زندگی کا وہ دور شروع ہوتا ہے جو اب ہمارے سامنے ہے۔اسے ایک مرتبہ پھر مخالفتوں کا سامنا ہے۔پارٹی میں بھی اور پارٹی سے باہر بھی لیکن یہ دھن کا پکا ہے۔ آج بھی ہماری سیاسی رائے ایک دوسرے سے مختلف ہے لیکن اس سے بار بار یہ پوچھنا کہ شہزاد اکبر کون ہے؟ایک بے معنی سوال ہے اور سوال اٹھانے والوں کے اپنے بارے میں یا ان کی پارٹی اور گزشتہ حکومتوں میں بہت سے لوگوں کے بارے میں ہی یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے۔ بیرسٹر شہزاد ایک متوسط طبقے کا سیلف میڈ آدمی ہے‘ جس کی وابستگی پاکستان سے ہے۔ جب یہ یونیورسٹی میں تھا تو ایک پکے مڈل کلاسیے اورمخلص پاکستانی کی طرح اپنی جرمن کلاس فیلوں سے محبت کی۔ اس کی محبت میں بھی روایتی عشقیہ کہانیوں کے پیچ و خم ہیں لیکن اس پر بات کرنا ابھی مناسب نہیں۔اتنا ہی کافی نہیں وہ اس کی پہلی اور آخری محبت تھی اور ہے۔ جب اس نے وزیر اعظم کی پیش کش قبول کی تھی اسے معلوم تھا یہ ڈرون حملوں کے مخالف مہم سے زیادہ سخت امتحان ہو گا، جہاں اس کی ذات پر حملے ہونگے۔اس کی سیاسی خوش گمانیاں اپنی جگہ‘لیکن یہ گواہی ابھی تک دی جا سکتی ہے کہ بیرسٹر شہزاد اکبر ایک آزاد رائے رکھنے والا آدمی ہے۔ ٭٭٭٭٭