مکرمی! قیام پاکستان سے لے کر آج تک بحیثیت مسلمان اور پاکستانی کے کسی نے ان لازمی مضامین کو نظر انداز کر کے اختیاری مضامین کو اہمیت نہیں دی کیونکہ پاکستان کے مطالبے میں قائد اعظم نے مذہب اسلام،نظریہ پاکستان اور قومی زبان کو اولیت دی اور ہندؤؤں اور انگریزوں کو واضح طور پر بتاد یا کہ مسلمانوں کا اپنا مذہب،اپنی ثقافت،اپنا نظریہ اور اپنی زبان اردو ہے اس لیے وہ برصغیر میںہندؤؤں کے ساتھ نہیں رہ سکتے اور جب ہندؤؤں نے اردو کی جگہ ہندی زبان کو سرکاری زبان قرار دیا تو مسلمان اٹھ کھڑے اٹھے۔ منسٹرصاحب ہمارے نوجوانوں کو کرونا نے پہلے ہی نکما، نااہل،اور تن آسان بنادیا ہے ۔کسی دانشور نے کہا تھا کسی ملک اور قوم کو تباہ کرنا چاہتے ہو تو نوجوانوں کو بے راہ روی اورفحاشی کی راہ پر لگا دو انھیں محنت و مشقت سے دور کر کے تن آسان بنادو۔ کرونا کی و جہ سے ہم نے خود زہریلا ہتھیار موبائل ان کے ہاتھوں میں تھما دیا معلم کی حیثیت سے مجھے اچھی طرح پتہ ہے کہ ان لائن کلاسز لینے کے بجائے ہمارے طلباو طالبات نے موبائل کو تعلیم کیلئے استعمال نہیں کیا بلکہ نہ جانے موبائل کوکس انداز میں استعمال کیا ہے کہ فیس ٹو فیس کلاسز لینے پر ان کی آنکھوں میں نہ تو اپنے اساتذہ کیلئے احترام ہے اور نہ ہی تعلیم سے رغبت اس زہریلے ہتھیار نے انھیں اتنا نکما بنا دیا ہے کہ اب ان سے صبح اسکول کالج آ نا محال ہے کیونکہ پہلے وہ اپنی مرضی سے اٹھتے تھے ان لائن کلاس میں اپنی اٹنڈنس شو کی اور پھر گیمزاور موویز میں مصروف ہو گیا ۔ آپ کے اس اعلان نے کہ لازمی مضامین اردو ، اسلامیات، مطالعہ پاکستان اور انگریزی کا امتحان نہیں ہوگا سونے پر سہاگا کا کام کیا ہے کہ مزید نکمے ہو گئے ہیں۔ اس پر نظر ثانی کریں۔ ( طاہرہ جبین تارا‘لاہور)