اتفاق سے میں نے شاہد خاقان عباسی کی اسمبلی میں کی گئی تقریر سماعت کی۔ وہ ممبران کو روکتے ہی رہ گئے کہ کوئی سننے والا تو ہو مگر جن کو سننے کی تاب نہ ہو وہ کہاں رکتے ہیں۔ تاہم کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے روکا بھی نہیں اور ٹھہرا بھی نہیں۔ کچھ اپنے بیٹھے رہے مگر سپیکر تو بہرطور گوش برآواز رہے بلکہ کچھ کو چپ کرواتے رہے جو نعرہ زن ہونے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کی تقریر کو اگر عنوان دیا جائے تو وہ ہو گا’’یہ ہو کیا رہا ہے‘‘ اب بتائیے وہ بار بار حکومت سے پوچھ رہے تھے کہ یہ ہو کیا رہا ہے؟ وہ قریب بیٹھے حکومتی وزیروں کو بھی مخاطب کر کے یہی پوچھ رہے تھے جس سے سپیکر نے انہیں منع کیا۔ اب بتائیے کہ انہیں کون بتائے کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔ یہ بات تو کئی مرتبہ عمران خاں بھی پوچھ چکے ہیں بہرحال یہ سب کا تجاہل عارفانہ ہے وگرنہ سب جانتے ہیں کون کر رہا ہے اور کیا ہو رہا ہے۔ لیکن موجودہ سوال کا پہلو کورونا کے حوالے سے بھی تھا۔ شاہد خاقان عباسی کہہ رہے تھے کہ حکومت وبا روکنے کے لئے کچھ نہیں کرے گی۔ عوام کو بھگتنا پڑے گا انہوں نے طنزاً کہا کہ 18ویں ترمیم اگر کورونا پھیلانے کی بڑی وجہ ہے تو ختم کرنے کو تیار ہیں۔ ان کی پہلی بات پر تو بات ہو سکتی ہے دوسری بات میں نقطہ معترضہ بھی ہے ۔ پیپلز پارٹی بہرحال یہ بات مذاقاً بھی نہیں کرے گی۔ خیر شاہد خاقان نے کہا کہ حکومت کی کورونا کے حوالے سے کوئی پالیسی نہیں بلکہ وہ سب کنفیوژ ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خاں یا کوئی یہاں کیا کرے۔ وہ تو لوگوں کو روک سکتے ہیں اور انہوں نے بلکہ میڈیا نے عوام کو اتنا ڈرایا کہ ان کی جان تک نکال کر رکھ دی مگر کوئی پھر بھی نہ سمجھے تو اللہ کی مرضی۔ اگر ن لیگ ہوتی تو کیا کر لیتی۔ ڈیڑھ ماہ کا لاک ڈائون کوئی کم تو نہیں۔ لوگ بھوک سے مرنے لگے تھے۔ دیہاڑی دار اور چھوٹا دکاندار تو مارا گیا تھا۔ اصل میں ہمارے ہاں لاک ڈائون اتنا آسان نہیں آبادی بہت زیادہ ہے۔ گنجان آباد جگہوں پر تو ایک ایک گھر میں آٹھ آٹھ دس دس لوگ ہیں اور چھوڑیے میرے گھر کے قریب خانوں کا گھر ہے‘ بچے اکٹھے باہر نکل آئیں ٹریفک رک جاتی ہے۔ خان صاحب نے تو حکمت عملی سے کام لیا کہ اگر لاک ڈائون سخت اور لمبا کیا گیا تو لوگ بغاوت پر نہ اتر آئیں اور یہ سوچ غلط نہیں کہ تنگ آمد بجنگ آمد یونہی محاورہ نہیں۔ اور جب سمارٹ لاک ڈائون چار دن کے لئے ختم کیا گیا تو یہ فطری بات تھی لوگ قید سے دیوانہ وار نکلے کہ جیسے ’’چار دن کی چاندنی ہے پھر اندھیری رات‘‘ یا پھر جیسے عدم نے کہا تھا گرتے ہیں لوگ گرمئی بازار دیکھ کر‘ سب نے بازاروں کا رخ کیا کہ عید کی خریداری پہلے پہلے کر لیں۔ مجھے معاً اعجاز کنور کا شعر یاد آ گیا: ایک مدت سے خریداریٔ خواہش نہیں کی آج بازار کا بازار اٹھا لینے دے ایک بات کی طرف شاید کسی نے توجہ نہیں کی کہ اکثریت کا ذہن سوشل میڈیا نے بنایا کہ جس طرح میڈیا پر بے تحاشہ ڈرایا گیا اور جس طرح خود خان صاحب نے بھی کہا کہ بہت لوگ مریں گے۔ اسی کے ردعمل میں سوشل میڈیا پر زیادہ تر اس دعوے کو رد کیا گیا کہ کورونا کسی کو نہیں چھوڑے گا۔ بعض نے تو اس کو مکمل فراڈ کہا کہ حکومت باہر سے امداد لینے کے لئے سب کچھ کر رہی ہے اور یہ کہ حکومت امیر ہو رہی ہے اور عوام کا بھرکس نکال دیا گیا ہے۔ کورونا کے حوالے سے ایک عام سوال تھا کہ کب کسی نے خود اس کا کوئی مریض دیکھا؟ باہر کے تجزیہ کاروں نے بھی امریکہ اور برطانیہ کے فگرز کو غلط قرار دیا۔ عام بندے کو تو معلوم نہیں کہ اس کی علامات تو بعد میں ظاہر ہوتی ہیں۔ کچھ یہ بھی ہوا کہ کسی کا ٹیسٹ مثبت نکلا تو کہیں اور سے منفی نکل آیا۔ آپ مانیں یا نہ مانیں یہ بات لوگوں کے دل کو لگی کہ یہ سب ڈرامہ ہو رہا ہے۔ اگر وہ حقیقت میں کورونا پر یقین رکھتے تو یوں دیوانہ وار بازاروں کی طرف نہ نکلتے اور پھر یقینا جیسے کہ سید ارشاد احمد عارف نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ کون جانے کون کہاں سے کورونا لے کر گھر لوٹا ہو گا۔ کہیں ظہیر کاشمیری والی بات ہی نہ ہو جائے’’کچھ وہ بھی وصال آمادہ تھے کچھ ہم بھی تھے منہ زور بہت باقیوں کو چھوڑیے شاعروں کو اپنی پڑی ہوئی ہے کہ آن لائن مشاعرے برپا کیے بیٹھے ہیں اور پھر بعض نے تو نام کورونا مشاعرہ رکھا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ لوگ مصیبت میں پڑے ہوئے ہیں انہیں سخنوری سوجھ رہی ہے۔ منیر نیازی کہا کرتے تھے بعض لوگوں کو تصویر کھنچوانے کا اتنا شوق ہوتا ہے کہ شیر کے ساتھ بھی تصویر بنوا لیں گے چاہے بعد میں شیر انہیں کھا ہی جائے۔ ایک آدمی نے تو اپنے نومولود کا نام ہی کورونا رکھ دیا۔ یا للعجب!ایک بات بڑی خوشگوار ہے کہ مذہبی لوگوں نے بہت اچھا تاثر دیا۔ وہ جو مذہب بے زار چپڑ چپڑ باتیں کرتے تھے کہ کورونا مسجدوں سے پھیلے گا وہ گنگ ہو گئے ہیں۔ مسجدوں میں ایک خاص فاصلے سے اور احتیاط سے نمازیں ہو رہی ہیں اکثر گھروں میں جماعت کا اہتمام کئے ہوتے ہیں اور وہ دکانوں پر دھاوا بولنے والے اور ساری احتیاطیں طاق پر رکھ دینے والے کون ہیں؟ یہ مذہبی لوگ تو نہیں۔ مذہبی لوگ تو ویسے بھی سادہ اور قناعت پسند ہوتے ہیں۔ویسے بھی وہ صاف ستھرے رہتے ہیں۔ ان کی عبادات اس ماحول میں زیادہ بڑھ گئی ہیں کہ وہ کورونا کو اپنے اعمال کا نتیجہ ہی سمجھتے ہیں۔ ویسے تو حکمران بھی ان کے اعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔ چلیے ہم اس بحث میں نہیں پڑیں گے کہ بہت پریشان کن صورت حال ہے کہ معیشت پہلے ہی زمین بوس تھی اور اب تو بس کچھ نہ پوچھیے بعض کا زندگی گزرنا مشکل ہو جائے گا۔ اس وبا نے حکمرانوں کا دھیان بانٹ دیا ہے۔ خاص طور پر عمران خان دوراہے پر ہیںکہ جن پہ تکیا تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔ بہت ہی صائب بات ہارون رشید صاحب نے لکھی کہ وہ کرپشن کے خلاف اقدام کرنا چاہتا ہے شریفوں اور زرداریوں کے خلاف مگر خسرو بختاروں ظفر مرزوں اور مجید خانوں کے خلاف نہیں۔ اب کوئی کیا کہے کہ میری بکل دے وچ چور۔ خاں صاحب کو آئینہ خانے میں بٹھا دیا گیا ہے اور انہیں اس کا احساس بھی ہو گیا ہے اسی لئے انہوں نے باقی سنگ سمیٹ کر رکھ لیے ہیں: یہ شہر سنگ ہے یہاں ٹوٹیں گے آئینے اب سوچتے ہیں بیٹھ کے آئینہ ساز کیا