نوے کی دہائی کے آتے آتے بہر حال وطن عزیز میں دو جماعتی سسٹم نے پنپنا شروع کردیا تھا۔ ۔ ۔ کسی بھی جمہوری ملک کے لئے یہ ایک آئیڈیل سسٹم ہوتا ہے۔برطانیہ اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملکوں کی مثال دینا توخیرزیادتی ہے۔مگر اپنی تمام تر کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود پڑوسی ملک بھارت اور بنگلہ دیش میں اس کا کامیاب تجربہ ہو رہا ہے۔مگر بدقسمتی سے ن لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف سے زیادہ پی پی پی کی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو کو دوش دیا جائے گا کہ انہوں نے اپنی پارٹی کے بانی اور شہید والد ذوالفقار علی بھٹو کے انجام سے کچھ نہیں سیکھا۔میاں نواز شریف کے لئے تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ تو پیدا ہی اسٹیبلشمنٹ کی نرسری سے ہوئے تھے۔اور اس پر وہ شرمندہ بھی نہیں ہوتے تھے۔مگر شہید بی بی بینظیر نے جب اپنے مخالف میاں صاحب سے انتقام لیا تو وہ ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ کو مضبوط کرنے میں ’’سہولت کار‘‘ بن گئیں۔یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اُس وقت کے آرمی چیف جنرل عبد الوحید کاکڑ،سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور صدر غلام اسحاق خان کا قطعی ارادہ اور منصوبہ نہ تھا کہ وہ لنگڑی لولی ،لڑکھڑاتی جمہوریت کو پٹری سے اتارتے مگر جب mother of democracyکی دعویدار پیپلز پارٹی ہی ن لیگی حکومت کو رخصت کرنے کی درخواست کی مہر ثبت کر کے آگئی تو پھر سوئی ہوئی،سہمی ہوئی سول ملٹری نوکر شاہی کو باجے تاشے سے یہ فرض منصبی نبھانے تو آنا ہی تھا۔۔ ۔ 1990ئمیں پی پی کی اور پھر 1993ء میں لیگی حکومت کی رخصتی کے بعد ایک بار 1994ء میں پی پی کی حکومت کی آمد اور محض 24ماہ بعد 1996ء میں رخصتی سے وطن عزیز میں ایک ایسی sham democracyکی بنیاد رکھ دی کہ پھر دوسری بار ن لیگی حکومت کا تختہ الٹ کر اکتوبر 1999ء میں فوجی مارشل لاء کے ساتھ ایک بار پھر دھوم دھڑلے سے اسٹیبلشمنٹ کا ظہور ہونا ہی تھا۔ماضی کے مقابلے میں اس اسٹیبلشمنٹ کی ہیئت بڑی منفرد تھی۔70اور اسّی کی دہائی میں اگر یہ ٹرائکا کی صورت میں تھی یعنی فوج،عدلیہ اور ایوان صدر تو اکیسویں صدی کے آغاز میں اسٹیبلشمنٹ کا محور و مرکز صرف ایک فرد تھا۔ ۔۔ آرمی سربراہ جنرل پرویز مشرف ۔عدلیہ نے بغیر کسی چوں چراں کے جنرل پرویز مشرف کو پورے تین سال دے دئیے۔ن لیگ کے نامزد صدرجسٹس رفیق تارڑ بھی ایوان صدر میں براجمان رہے۔ رہی پارلیمنٹ اور اس کا منتخب وزیر اعظم۔ ۔ ۔ تو اسے تو اس صورت میں ربڑ اسٹیمپ کا کردار ادا کرنا ہی تھا۔ہمارے بلوچ وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی اور ٹیکنو کریٹ وزیر اعظم شوکت عزیز دیکھیں کس خوش اسلوبی سے ’’ہز ماسٹرز وائس‘‘ بنے رہے۔poorمیاں بی بی کی طویل جلا وطنی کے دوران دونوں مین اسٹریم جماعتیں یعنی پی پی اور ن لیگ کے سارے چھوٹے بڑے بہ راضی خوشی آئی سی یو میں ڈیرے ڈالے رہے۔سو اگلے سات برس راوی نے یک رکنی اسٹیبلشمنٹ کے سرخیل جنرل پرویز مشرف کے لئے چین لکھ دیا۔جنہوں نے بیک وقت ایک نہیں ،دو نہیں تین کیپس پہنی ہوئی تھیں۔ بیک وقت تین کیپس پہنے جنرل پرویز مشرف کو پھر متکبر اور مطلق العنان ہونا ہی تھا۔مگر وطن عزیز میں اگر کوئی حکمران چاہے سویلین ہو یا فوجی،چار پانچ برس پورے کرلے تو پھراپنے اقتدار کو دفن کرنے کے لئے اسے کسی دوسرے گورکن کی ضرورت نہیں ہوتی ۔عدلیہ سے لڑائی اگر ’آبیل مجھے مار تھی‘ تو این آر او اپنے ہی تابوت میں کیل ٹھونکنے کے مترادف تھا۔۔ ۔ 2007ء اور2008ء کے سال تھے تو بڑے ہنگامہ خیز مگر تفصیل میں جانے کی ضرورت اس لئے نہیں کہ یہ حال کی تاریخ ہے اکتوبر 2007ء میں پرویز مشرف سے ہاتھ ملا کر پاکستان آمد ۔۔۔صرف دو ہی ماہ بعد ان کی شہادت اور پھر اُن کے شوہر آصف علی زرداری کا صدر مملکت بننا ایک المیہ سے ہی تعبیر کیا جائے گا۔ہمارے مضبوط کرنسی کے وارث جنرل پرویز مشرف بڑے بے آبرو ہو کر رخصت ہوئے۔اِن کے بعد آنے والی اسٹیبلشمنٹ میں بہر حال وہ کَر و فر نہیں تھا مگر اُس نے مستقبل کیلئے ضرور تیاریاں پکڑنی شروع کردیں۔ مرد ِ حُرآصف علی زرداری نے پورے پانچ سال ایک ڈیوٹی فل بچے کی طرح اسٹیبلشمنٹ سے اپنا تعلق اور رشتہ نبھایا۔اسلام آباد کے ایک صحافتی پنڈت کا کہنا ہے کہ میاں بی بی جب وزیر اعظم تھے تو جی ایچ کیو سے آنے والی فائلیں کم از کم 72گھنٹے ضرور اپنی میز پر رکھتے ۔مگر صدر آصف علی زرداری فائل ملتے ہی دستخط کر کے اپنے ذاتی سٹاف کے ہاتھوں روانہ کرتے۔مگر اس اسٹیبلشمنٹ کی بدقسمتی کہ پچھلے بینچ پربیٹھے ایک چوہدری جج نے سارا کاروبار ِ حکومت ہی تل چھٹ کر کے رکھ دیا۔ان کے دور میں خود عدلیہ کتنی مضبوط ہوئی۔ یہ اپنی جگہ ایک سوال ہے۔ مگر دیگر ریاستی ادارے ضرور اس کے رحم و کرم پر آگئے۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے بہر حال عدلیہ سے لڑتے جھگڑتے اپنے پانچ سال مکمل کر لئے۔2013 ء میں ن لیگ کے لئے میدان تیار تھا۔14سال بعد میاں نواز شریف وزیر اعظم بنے تو وہ ایک بدلے ہوئے وزیر اعظم تھے۔12اکتوبر کو انہیں فوجی جنرل نے ہتھکڑی لگائی تھی وہ اُ سے نہیں بھولے تھے۔برسوں کی جلا وطنی نے بھی انہیں زخم خوردہ کردیا تھا۔اقتدار میں آنے کے پہلے دن ہی وہ طے کر بیٹھے تھے کہ ساڈا صدر ہی نہیں۔۔۔ ساڈا جج تے ساڈا جنرل بھی تھلّے لگانا ہے۔وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد دہلی کے دورے سے جو خبر لیک ہوئی اُس سے محض پنڈی آب پارہ کے کان ہی نہیں کھڑے ہوئے بلکہ ’’ڈیسک‘‘بھی کھل گئی۔اُدھر پنڈی آب پارہ یا معروف معنوں میں اسٹیبلشمنٹ ایک پالیسی کے تحت یہ طے کر بیٹھی تھی کہ ’’بوٹوں‘‘ سمیت نہیں آنا۔مگر جب معزز وزیر اعظم میاں نواز شریف کی تواتر سے سرگرمیاں اور بیانوں کی صورت میں دھمکیوں میں شدت آنی شروع ہوگئی تو آزمودہ کار اسٹیبلشمنٹ نے بھی اپنی بساط بچھا لی۔تحریک انصاف کا دھرنا بہر حال ایک جوابی حملہ تھا جو سگنل تھا میاں صاحب اور ان کی حکومت کے لئے ۔لندن کے فلیٹس ’’کل ‘‘ کے تو نہ تھے۔مگر فائل کھلی تو مہینوں میں میاں صاحب کا نااہلی کیس بھی تیار تھا۔اور اڈیالہ جیل کی بیرک بھی۔ اس بار اسٹیبلشمنٹ چیختی چلاتی نہیںآئی ۔ ۔ ۔ خاموش اسٹیبلشمنٹ نے جس طرح میاں صاحب اور ان کی حکومت کا بستر لپیٹا وہ اِس بات کا پیغام دے رہاہے کہ کھلاڑیوں ۔ ۔ ۔ ’’ہشیار باش‘‘۔۔۔