کہتے ہیں قسمت کھوٹی ہو تو کُتا اونٹ سوار کو کاٹ لیتا ہے‘ سندھ میں پیپلز پارٹی بارہ سال سے مسلسل برسر اقتدار ہے۔ مگر بھٹو کے نام پر ساتویں بار حکمرانی کا مزہ لوٹنے والی عوام کی پارٹی کے حسن کارکردگی کا بھانڈا ایک موسمی بارش نے پھوڑ دیا‘ کراچی سے لاڑکانہ تک ہاہا کار مچی ہے‘ متاثرین کی دستگیری کو بلاول بھٹو زرداری کہیں دستیاب ہے نہ محترمہ فریال تالپوراور نہ نیب میں پیشی کے موقع پر آصف علی زرداری کے اردگرد نظر آنے والی بختاور اور آصفہ کا کوئی اتہ پتہ۔ فوج اور رینجرز کا ریسکیو آپریشن البتہ جاری ہے نقل مکانی میں اعانت‘ محفوظ مقامات پر منتقلی‘ خوراک کی فراہمی اور علاج معالجہ کی سہولت‘عوامی خدمت کے دعویدار مگر یوں غائب ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ 1985ء تک کراچی پاکستان کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ ‘ خوشحال اور غریب نواز شہر تھا‘ پورے ملک سے اُمرا غربا کراچی کا رخ کرتے‘ بے روزگاروں کو ملازمت‘ مزدوری اور پرتعیش‘ طرز زندگی کے متلاشی اُمرا کو یہاں آسودگی ملتی‘ کراچی میں لسانی نفرت کا بیج اگرچہ 1971-72ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے ٹیلنٹڈ کزن ممتاز علی بھٹو نے بو دیا تھا اور نیشنلائزیشن کی پالیسی سے صنعتی ترقی کا پہیہ رک گیا تھا مگر تھا یہ پھر بھی روشنیوں کا شہر۔ قیام پاکستان کے بعد جب جدہ اور سعودی عرب کے دیگر شہروں کے بازاروں میں بکثرت اونٹ سوار نظر آتے‘ کراچی کی سڑکوں پر مرسڈیز اور شیورلیٹ گاڑیاں دوڑا کرتیں اور ہمسایہ ممالک کے ذہین طلبہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں حصول تعلیم کے لئے کراچی اور لاہور کا رخ کرتے‘ وہ بھی کیا زمانہ تھا جب سعودی عرب کے شاہ سعود بن عبدالعزیز کراچی کے دورے پر آئے تو وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین نے حکومت کی طرف سے اور مخدوم زادہ حسن محمود کے والد مخدوم الملک غلام میراں شاہ آف جمال دین والی نے ذاتی جیب سے حرم کعبہ کی تزئین و آرائش کے لئے خطیر رقم عطیہ کی۔ ایک زمانے میں عرب امارات میں خشک سالی سے قحط پڑا تو پاکستان نے بحری جہاز کے ذریعے خوراک عطیہ کی اور حجاز مقدس سے کراچی آنے والے عرب باشندے کراچی کی رونقوں‘ بھر پور شہری زندگی اور تعمیر و ترقی کو دیکھ کر ششدر رہ جاتے‘ کراچی اور شنگھائی کو غالباً 1981ء میں Sister Cityقرار دیاگیا۔ 1985ء میں بلدیہ شنگھائی کا ایک اعلیٰ سطحی وفد کراچی کا دورہ کرنے آیا اور حبیب بنک پلازہ کی بائیس تئیس منزلہ بلڈنگ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وفد کے دورے کا مقصد تعمیر و ترقی کے کراچی ماڈل کا مشاہدہ اور شنگھائی کی تعمیر نو تھا مگر اب حالت یہ ہے کہ شنگھائی ‘ دبئی تو درکنار کراچی جدہ کے ہم پلّہ بھی نہیں جو صدیوں پرانا شہر ہے مگر اس کی بندرگاہ ایئر پورٹ اور کمرشل عمارتوں میں سے کسی کے ساتھ کراچی کا موازنہ ممکن نہیں‘ ساری ترقی‘ خوشحالی‘ منصوبہ بندی اور خوبصورتی کو 1985ء سے آج تک برسر اقتدار آنے والی دو قومی پارٹیوں پیپلز پارٹی ومسلم لیگ اور بلدیہ کراچی پر عرصہ دراز تک قابض ایم کیو ایم چٹ کر گئی۔ بعض اوقات احساس ہوتا ہے کہ کہیں ان تینوں پارٹیوں کا تعلق تاریخی یاجوج ماجوج سے تو نہیں یا کوئی خونی رشتہ ٹڈی دل سے؟ ؎ ناوک نے تیر ے صید نہ چھوڑا زمانے میں تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں کراچی ایک موسمی بارش کی مار ثابت ہوا۔ نکاسی آب کا موزوں نظام نہ شہریوں کو بجلی کی فراہمی ممکن اور نہ ملیر ندی کے بپھر جانے کی صورت میں شہر کو سیلاب سے بچانے کی تدبیر کارگر۔1985ء سے 2020ء تک صرف انہی پینتیس برس میں کم و بیش تین چار سو ارب روپیہ کراچی کو شہری سہولتیں فراہم کرنے پر مختص اور صرف ہو چکا‘ کراچی کی ترقی کے دعوئوں پر مبنی سیاستدانوں اور حکمرانوں کے بیانات سے تیس چالیس جلدوں پر مشتمل انسائیکلو پیڈیا مرتب کیا جا سکتا ہے۔ لاڑکانہ کو بھٹو صاحب پیرس کے ہم پلّہ شہر بنانا چاہتے تھے مرحوم کو دنیا سے گزرے چالیس سال سے زیادہ عرصہ بیت گیامگر لاڑکانہ کی حالت ابتر ہے اور بہتری کی امید ماضی میں تھی نہ مستقبل میں ہے۔ زرداری خاندان اور ان کے چیلوں چانٹوں کا پیٹ بھرے‘ آدمی خور جمہوریت کے نخرے پورے ہوں تو چند ٹکے شہری سہولتوں پر خرچ ہوں‘یہ خاندانی جمہوریت اور موروثی حکمرانی کے وہ ادنیٰ مفاسد ہیں جن کا مشاہدہ پوری قوم کر رہی ہے۔ میڈیا دکھا رہا ہے مگر جب کوئی شخص موروثی حکمرانی کے عیوب بیان کرتا اور نجات کی راہ دکھاتا ہے تو جمہوریت خطرے پڑمیں جاتی ہے۔ سندھ کے حکمران تو خیر جو ہیں سو ہیں‘ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی تباہ کاریاں بھی کسی سے مخفی نہیں مگر داد کے اصل مستحق کراچی سمیت سندھ کے ’’باشعور عوام‘‘ ہیں جنہیں اپنے آپ کو ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسوانے کا شوق ہے۔ تحریک انصاف بھی اپنے آپ کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی کہ 2018ء کے انتخابات میں عوام نے مُنہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے اس کے نامزد امیدواروں پر اعتماد کیا‘ اپنا نمائندہ منتخب کیا‘ مگر زبانی جمع خرچ کے سوا یہ دو اڑھائی درجن ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکے۔بارش میں کراچی ڈوب گیا‘ سندھ پریشان حال ہے مگر فوج اور رینجرز کے سوا کوئی عوام کا پرسان حال نہیں‘ حکمرانی یہاں مفاد پرستی‘ لوٹ مار اور قومی وسائل کی خرد برد کا نام ہے۔ کراچی اور سندھ کی تعمیر و ترقی کے لئے مختص وسائل سے چند خاندان ارب پتیوں کی فہرست میں شامل ہو گئے۔ٹٹ پونجیے امرا اور شرفا کا حصہ بن گئے مگر روشنیوں کے شہر پر اندھیروں کا راج ہے اور لوگ دریائے سندھ کے سیلاب نہیں موسمی سیلاب میں ڈوب رہے ہیں۔ : شرم تم کو مگر نہیں آتی