این ڈی خان پیپلز پارٹی کے بزرگ رہنما ہیں ،یہ چڑھی جوانی میں ذوالفقار علی بھٹو کے عشق میں مبتلا ہوئے اورپھر زندگی اسی عشق میں گھول دی اب بھی اسی عشق کے ساتھ پاکستان کے ساحلی شہر کراچی میں ڈھلتی عمرکی اداس شامیں گزار رہے ہیں ، یہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں وفاقی وزیربھی رہ چکے ہیں ۔اب سیاست سے الگ تھلگ ہیں۔ویسے بھی آج کل کی متعفن سیاست ان کے بس کی بات نہیں۔برسرِآمد مطلب آج وہ اوران کے سیاسی حریف و’’مشیر‘‘ پروفیسر غفوراحمد صاحب بے طرح یاد آرہے ہیں۔۔۔ آپ چونک پڑیں ہوںگے کہ جماعت اسلامی کا پروفیسر، پیپلز پارٹی کے پروفیسر کاسیاسی مشیر کیسے ہوسکتا ہے ؟ لیکن ایسا ہی ہے یہ انکشاف پروفیسر این ڈی خان نے خودکراچی کے ایک مقامی ہوٹل میں کیا تھا۔وہ پروفیسر غفور احمد مرحوم کے حوالے سے ایک کتاب کی تقریب رونمائی میں شریک تھے ،یہ دونوں نظریاتی سیاسی مخالف تھے ، پروفیسر غفورا حمد نے ساری زندگی اسلامی انقلاب کے داعی کی حیثیت سے گزاری اور پروفیسر این ڈی خان کی سیاست، بھٹو کے اسلامی سوشلزم سے شروع ہوکر اور وہیں ختم ہوتی ہے،اس اختلاف کے باوجود وضعداری اور باہمی احترام دیکھئے گا۔ پروفیسر این ڈی خان نے تقریب میں بتایاکہ آج ایک راز سے پردہ اٹھانے لگا ہوں یہ کئی برس پرانی بات ہے جب مجھے پروفیسر غفور احمد کی کال آئی کہ مجھے آپ سے ملنا ہے اور میں آنا چاہ رہاہوں۔ یہ میرے لئے حیران کن امر تھا۔میں سوچ میں پڑگیا کہ پروفیسر صاحب کو ایسا کیا کام پڑگیا ۔یہ تو طے شدہ امر تھا کہ کوئی ذاتی کام نہیں ہوسکتا۔ وہ بہت خوددار انسان تھے میں نے ان سے کہا کہ آپ زحمت نہ کریں میں خود حاضر ہوتا ہوں اورپھر دوسرے دن میں ان کے گھر پہنچ گیا۔ وہ کہنے لگے میں آپ سے کل ہی ملنا چاہتا تھا اس لئے آنے کی اجازت چاہی ۔میں نے عرض کیا کہ مجھے اچھا نہیں لگا کہ آپ چل کر آئیں اسی لئے خودچلا آیا۔یہ کہہ کر میری نظریں ان کے چہرے کی جانب جم گئیں کہ جانے کیااہم بات ہے کہ انہیں ملنے کی ایسی جلدی تھی۔ وہ کہنے لگے کہ افواہیں چل رہی ہیں کہ آپ پیپلز پارٹی چھوڑ رہے ہیں۔ میں نے پہلو بدل کر ان سے کچھ گلے شکوے کئے جو مجھے پارٹی قیادت سے تھے۔ وہ خاموشی سے سنتے رہے پھر سمجھاتے ہوئے کہنے لگے کہ اونچ نیچ ہوجاتی ہے آپ کہیں اور جائیں گے تو آپ کو وہاں جگہ بنانے میں بہت وقت لگے گا۔ وہاں آپ کی یہ اہمیت و توقیر نہیں ہوگی ،ہم چاہتے ہیں کہ آپ کہیں نہ جائیں پروفیسر این ڈی خان کہنے لگے ان سے کافی دیر بات ہوئی وہ ایک مخلص دوست کی طرح سمجھاتے رہے۔ ان سے مکالمے کے بعد میرے ذہن میں اگر کہیں کوئی ایسا خیال تھا بھی تو وہ وہیں جھٹک دیا، وہ ذرا مشکل وقت تھا لیکن گزر گیا اور اس کے بعد مجھے پارٹی کی جانب سے اہم ذمہ داریاں بھی دی گئیں اور میں پہلے کی طرح فعال ہو گیااور یہ پروفیسر غفور صاحب کی وجہ سے ہوا،یہ سب کہتے ہوئے پروفیسر این ڈی خان کی آنکھوں کے گوشے نم سے ہوگئے۔ یہ اپنے دوست اور سیاسی حریف کی بڑائی کابے رنگ مگر خالص اعتراف تھا ۔اسی تقریب میں انہوں نے ایک اورراز سے پردہ اٹھایا کہ پارلیمان میں قانون سازی کے لئے محترمہ بے نظیر بھٹو مجھ سے کہا کرتی تھیں کہ پروفیسر غفور احمد صاحب سے اس بارے میں مشورہ کر لیجئے گا، میرے پاپا! ان کی قابلیت کا بہت ذکر کرتے تھے۔ صرف بے نظیر بھٹو ، این ڈی خان ہی نہیں سابق وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ بھی پروفیسر غفور احمد کے اخلاص کے معترف تھے۔ شاہ صاحب کی ان سے خوب گاڑھی چھنتی تھی۔ جب کبھی وہ کہیں پھنستے توپروفیسر صاحب سے مشورہ کرنا نہیں بھولتے۔ ان دونوں بزرگ رہنماؤں کا باوجود سیاسی نظریاتی اختلاف کے ایسارشتہ تھا کہ قائم علی شاہ نے جب سندھ کی وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھایاتو دوسرے ہی دن پروفیسر غفور احمد سے ملنے جا پہنچے۔ ان ہی سطور میں پہلے بھی کہیں لکھ چکا ہوں کہ ہمارے دوست نیوز پروڈیوسر راجہ شاہد راوی ہیں کہ پرائیوٹ نیوز چینلز کے آغاز کے دنوں کی بات ہے جب سیاست دانوں کو ٹاک شوز میں لڑانے بھڑانے کا نیا نیا تماشہ شروع ہوا تھا،انہی دنوں انڈس نیوز کے پرائم ٹائم شو میں جماعت اسلامی اور اے این پی کو آمنے سامنے لانے کا پلان بنا۔ جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد صاحب کو پروگرام میں مدعو کیا گیا دوسری جانب اسفند یار ولی خان صاحب کو اس رازداری سے شرکت کی دعوت دی گئی کہ انہیں پروفیسر صاحب کی آمد سے لاعلم رکھا گیا۔ اب جب مقررہ وقت پر یہ دونوںرہنما نیوز شو کے سیٹ پر پہنچے تو اسفند یار ولی خان ، پروفیسر غفور احمدصاحب کو دیکھ کر ٹھٹک گئے اور پروفیسر صاحب کے سامنے بیٹھنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ پروفیسر صاحب نے میرے والد کے ساتھ سیاست کی ہے۔ یہ میرے بزرگ ہیں اوریہ پشتون روایات کے خلاف ہے کہ میں اپنے بزرگوں کے سامنے آجاؤں ،پروڈیوسر اور پروگرام کے میزبان نے بہت کہا، منت کی لیکن خان صاحب کی نہ ’’ہاں ‘‘ میں بدل سکی اور وہ شو کئے بغیر ہی چلے گئے۔ جی چاہتا ہے کہ آج کے سارے سیاسی لونڈوں لپاڑوں کو مشکیں کس کرکسی سینما میں بٹھا دیا جائے اور ان واقعات پر بنی فلم دکھائی جائے کہ دیکھو اسی ملک میں یہ بھی سیاسی اقدار رہی ہیں،یہ اختلاف رکھتے تھے لیکن اپنے کاز سے انصاف برتتے تھے، دلیل سے بات کرتے تھے حریف کو ذلیل نہیں کرتے تھے۔ افسوس کہ آج سیاسی مخالفت کا مطلب دشمنی کے سوا کچھ نہیںاور یہ ’’سہرہ‘‘ اسی دور کے سیاستدانوں کے سربالعموم اور ریاست مدینہ کے گِلوں،سواتیوں ،چودھریوں ،چوہانوں کے سربالخصوص ہے کسی سے کیا گلہ کریں کہ خود کپتان صاحب مخالفین کے نام بگاڑنے، پھبتیاں کسنے،رکیک جملے بازیوں،دھمکیوں ، تڑیوں اور نقل اتارنے میں کس سے پیچھے رہے ہیں۔اک یہی کام ہے جس میں عجم کی ریاست مدینہ کے معماروں نے واقعی معرکہ سر کیا ہے اور ہمارے سرشرم سے جھک گئے ہیں۔