مولاناجلال الدین رومی تصوف کی دنیا کی عظیم شخصیت ہیں اور اتنے ہی بڑے شاعر بھی۔سکول، کالج کے زمانے سے مولانا روم اور حضرت شمس تبریز کی شخصیت کے حوالے سے ایک انوکھی سی کشش محسوس ہوتی رہی ہے۔والد محترم نے شائد یہ واقعہ پہلی بار سنایا تھا، بعد میں بہت بار مختلف جرائد میں اسے پڑھا۔ کہا جاتا ہے کہ جناب شمس تبریز پہلی بار مولانا رومی کے مکتب میں ان سے ملے۔گرمی کا موسم تھا، مولانا اس وقت خانقاہ کے صحن میں تالاب کے قریب بیٹھے کسی کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے، ان کے گرد بلند پایہ علمی کتابوں کا ڈھیر لگا تھا۔ شمس نے بے نیازی سے پوچھا،’’این چیست(یہ کیا ہے)‘‘مولانا رومی نے شائد اپنا وقت بچانے کے لئے ایک جملہ بول دیا،’’ایں آں علم است کہ تو نمی دانی(یہ وہ علم ہے جسے تم نہیں جانتے)‘‘بعض روایات میں ہے کہ اس پرشمس تبریز نے چند کتابیں اٹھا کر پانی میں پھینک دیں۔ اس پر سب ہکا بکا رہ گئے ۔نایاب قلمی نسخے تھے، پانی سے سیاہی دھل جانا یقینی تھا۔ مولانا کے شاگردوں نے شورمچایا تو شمس تبریز نے تالاب سے کتابیں نکال کر واپس ان کے پاس ڈال دیں۔ کتابوں کا دھلنا تو درکنا ر، وہ بھیگی تک نہیں تھیں۔ اس پر حیرت زدہ ہو کر مولانا جلال الدین رومی نے پوچھا،’’ایں چیست؟‘‘ شمس تبریز نے مسکرا کر جواب دیا،’’ایں آں علم است کہ تو نمی دانی(یہ وہ علم ہے جسے تم نہیں جانتے)‘‘ روایت کے مطابق شمس تبریز یہ کہہ کر چل دئیے ،مگر مولانا روم اپنی علمی شان بھول کر پیچھے بھاگے اور اپنی غلطی کی معافی مانگی اورمرید بننے کی خواہش ظاہر کی۔ شمس تبریز نے انہیں گلے سے لگایا اور کہا، میں تو خود ایک عرصے سے تیری تلاش میں ہوں۔ اس دلچسپ واقعے کے بعد مختلف روایات ہیں جو مولانا رومی اور جناب شمس تبریز کے روحانی تعلق اور شیخ،مرید کی الفت کے انوکھے قصوں کو بیان کرتی ہیں۔ شمس تبریز مجذوبانہ شان والے بزرگ تھے، جبکہ مولانا روم شہر کے سب سے بڑے عالم دین ۔ان کے بے شمار شاگرد تھے اور شہر کی اشرافیہ بھی ان کی معتقد تھی۔ لوگ شمس تبریز کے مخالف ہوگئے ، انہیں لگتا تھا کہ اس فقیر آدمی سے تعلق مولانا روم جیسی بڑی علمی شخصیت کو زیب نہیں دیتا۔مولانا رومی کا بڑا بیٹا بہاالدین شمس تبریز کا مرید اور مداح تھا، تاہم چھوٹا بیٹا گرم مزاج علائوالدین مختلف وجوہات کی بنا پرجناب شمس سے بیزار تھا۔ بہرحال اس حوالے سے مختلف روایات ملتی ہیں۔ شمس تبریز کو شہر چھوڑ کر جانا پڑا۔ مولانا رومی اس قدر دل گرفتہ ہوئے کہ انہوںنے کہیں آنا جانا اور تقریر کرنا چھوڑ دیا۔ ان کا بڑا بیٹا مرشد کی تلاش میں نکلا اور دمشق ، شام سے حضرت شمس تبریز کو ڈھونڈ کر مجبور کر کے لے آیا۔ اس کے سال ڈیڑھ بعد ہی شمس تبریز پراسرار طور پرغائب ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ مولانا کے ناخلف چھوٹے بیٹے نے کچھ اور لوگوں کے ساتھ مل کرشمس کو قتل کر دیا۔مولانا رومی خاصا عرصہ شدید غم اور صدمہ کی کیفیت میں رہے، پھر اپنا اظہار شاعری میں کیااوروہ کلام لکھا جو امر ہوگیا۔مولانا کی فارسی غزلوں کا مجموعہ دیوان شمس کے نام سے مشہور ہے۔ مولانا رومی کا ایک شعر بڑا مشہور ہوا جو جناب شمس تبریز کے مرتبے کا غماز ہے ۔ مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم تا غلام شمس تبریز نہ شد ترجمہ : مولوی (جلال الدین )کبھی مولانا روم نہ بن سکتا، جب تک شمس تبریز کا غلام نہ ہوا۔ مولانا روم کی علمی شان کا کئی کتابوں میں تذکرہ پڑھا، جناب شمس تبریز کے حوالے سے بہت زیادہ نہیں پڑھ سکا۔ تاریخی کہانیوں، ناولوں میں جو کچھ بیان ہوا، صرف وہی دیکھا، جو کہ ظاہر ہے گہرائی لئے ہوئے نہیں تھا۔ مثنوی مولانا روم کا اردو ترجمہ ہوچکا ہے، بدقسمتی سے پڑھنے کا موقعہ نہیں ملا۔ دیوان شمس جس کی جناب احمد جاوید بہت تعریف کرتے ہیں ، اسے بھی نہیں دیکھ سکا۔ مولانا رومی اور شمس تبریز کے حوالے سے کچے پکے تصورات کے ساتھ پچھلے دنوں ایک دلچسپ ترک ناول پڑھا۔ یہ ناول ترکی میں Bab-i-Esrarیعنی باب اسرار کے نام سے دس بارہ سال پہلے شائع ہوا، اس کا انگریزی ترجمہ The Dervish Gate درویش گیٹ کے نام سے چھپا ۔اس کا اردو ترجمہ محترم فرخ سہیل گوئندی نے اپنے ادارے جمہوری پبلی کیشنز سے’’ باب اسرار‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔ ہم پاکستانیوں کو ترک ادیبوں اور ترک فکشن نے گوئندی صاحب ہی نے متعارف کرایا ہے۔ یہ ناول ترکی کے معروف فکشن نگار احمت امیت (Ahmet Umit)نے لکھا ۔یاد رہے کہ جدیدترک لہجے اور املا میں احمت سے مراد احمد ہے، اسی طرح محمد کو محمت لکھا اور کہا جاتا ہے، امیت شائد اصل میں امید ہو، مگر ہم تو موجودہ ترک املا اور زبان ہی کو ترجیح دینے پر مجبور ہیں، اصل چاہے جو بھی ہو۔ احمت امیت مسٹری اور کرائم تھرلر ناولوں کے لئے مشہور ہیں۔ یہ ناول’’ باب اسرار‘‘ بھی ایک دلچسپ کرائم کہانی ہے، مگر اس میں کمال درجہ مہارت اور تخلیقی اپج کے ساتھ مولانا رومی اور شمس تبریز کی کہانی بھی شامل کر دی ہے۔ درحقیقت یہ ناول مولانا روم اور جناب شمس کے روحانی تعلق، ان کی فکر، قونیہ شہر کی خانقاہوں اور رومی کے درویشوں کو سمجھنے کا بڑا اچھا ذریعہ ہے۔ بہت سی باتیں اسے پڑھنے ہی سے سمجھ آئیں۔ ایک طرح سے اس ناول نے فکرکے کئی زاویے عطا کئے اور سوچ کے نئے در کھولے۔اس کا ترجمہ محمد شفیق نے کیا، یہ لاہور ہی میں مقیم ہیں۔ شفیق صاحب نے کیا عمدہ اور رواں ترجمہ کیا ہے۔ یوں لگا جیسے ترک مصنف نے یہ ناول براہ راست اردو میں لکھا ہے۔محمد شفیق سے واقفیت نہیں، مگر انہوں نے عمدہ کام کیا ہے۔ با ب اسرار میں کئی نئی چیزیں سمجھنے کا موقعہ ملا۔ناول میں ایک برطانوی نیشنل خاتون کیرن انشورنس کے کیس کی تحقیق کے لئے قونیہ جاتی ہیں، ان کے والد پیروز ترک صوفی جبکہ والدہ انگریز ہیں۔ قونیہ میں کیرن کو حیران کن مشاہدات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، شمس تبریز کے ساتھ روحانی مکالمہ اور بہت کچھ ۔کیرن کو والد کی تلاش بھی ہوتی ہے جو اپنے روحانی مرشد شاہ نسیم کے ساتھ بچپن میں اسے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ دلچسپ بات ہے کہ ناول کے اختتام پر بتایا جاتا ہے کہ ترک النسل پیروز شاہ نسیم کے ساتھ شمالی وزیرستان کی ایک خانقاہ میں مقیم تھے، امریکی بمباری سے وہ خانقاہ تباہ ہوگئی اور پیروز اس میں جاں بحق ہوگئے۔ پاکستان کا یہ واحد حوالہ ناول میں ہے ۔ کیرن کو قونیہ میں پتہ چلا کہ رومی کے درویشوں کا رقص عام رقص نہیں بلکہ وہ ایک بڑے روحانی تجربے کا حصہ ہے۔ خاکسار اپنی کم علمی کا اعتراف کرنا چاہتا ہے کہ مجھے بھی یہی لگتا تھا کہ یہ درویش وجد کے عالم میں گول گول گھومتے رہتے ہیں، جیسے لاہور کے بابا شاہ جمال کے مزار پر جمعرات کی محفلوں میں بعض فقیر اور ڈھول والے مست ہو کر دیوانہ وار گھومنے والا رقص کرتے ہیں۔اس کے برعکس ترک صوفی روایت کے مطابق یہ رقص نہیں بلکہ سماع ہے اور اسے کرنے والے سماع زن (Semazen) کہلاتے ہیں۔ جو سفید چغہ وہ پہنتے ہیں ،اسے تنورے (Tennure)کہتے ہیں اور یہ ایک طرح سے کفن کی علامت ہے۔ اس کے اوپر ایک سیاہ چغہ پہنا جاتا ہے ، جو خرقہ کہلاتا ہے ، اے سماع سے پہلے اتار دیتے ہیں۔ یہ ایک طرح سے درویش کی قبر کی علامت ہے۔رومی کے درویشوں کے سر پر مخصوص قسم کی لمبی سی ٹوپی ہوتی ہے، اسے سکے (Sikke)کہتے ہیں ، یہ قبر کے کتبے کی علامت ہے۔ ترک سماع موت کا اظہار نہیں بلکہ یہ زندگی کی علامت ہے، اپنے گناہوں سے نجات اور طبعی دنیا سے پرے سچ کی بادشاہی میں منتقل ہونے کی علامت۔ ترک سماع میں مختلف علامتوں کے ذریعے انسان کو چار مختلف دروازوں یا مراحل سے گزرنے کی عکاسی کی جاتی ہے۔ چار مختلف موسیقائی حرکتیں جن کے دوران چار مختلف سلام پیش کئے جاتے ہیں۔ پہلا دروازہ شریعت کا ہے ، دوسرا در ِطریقت ہے یہ رومی صوفیوں کی داخلی صوفیانہ جہت ہے، تیسرا دروازہ معرفت کا ہے ، حتمی سچائی کو جان لیناجبکہ چوتھا دروازہ حقیقت ہے۔ آخری منزل جہاں پہنچ کر درویش حاصل شدہ دانش تقسیم کرتا ہے۔ اپنا دایاں ہاتھ اوپر کھول کر درویش خدا کی رحمتیں وصول کرتا ہے اور بایاں ہاتھ زمین کی طرف کھول کر وہ انہیں لوگوں پر نچھاور کرتا ہے۔ یوں درویش پیدائش ثانی کا دائرہ مکمل کرتا ہے،(باب اسرار، صفحہ 54,55) اردو کے عام قصوں ، روایات میں جناب شمس تبریز کا کردار دیو قامت ہے جبکہ مولانا رومی صرف ان کے مرید۔ ناول باب اسرار اس کے برعکس مولانا روم کی حیران کن شخصیت سے بھی روشناس کراتا ہے ۔ رومی اور شمس کا تعلق تصوف کے فلسفہ وحدت الوجود کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے۔اخباری کالموں کی محدودات اور اپنی کم فہمی مجھے وحدت الوجود، وحدت الشہود جیسے فلسفوں کی بحث سے باز رکھنے کے لئے کافی ہیں۔صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ اس ناول میں ترک سیکولر ثقافت کے ساتھ گندھی صوفی روایت کو بتایا اور سمجھایا گیا۔ شمس تبریز اور مولانا روم کے تعلق کی نئی جہات کو سمجھنے کا موقعہ ملتا ہے جبکہ ایک نہایت دلچسپ کرائم تھرلر بھی ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ یہ کتاب مولانا رومی اورجناب شمس تبریز کے بارے میں مزید جاننے کی ترغیب بھی پیدا کرتی ہے۔ صوفی روایت سے دلچسپی رکھنے والوں کو ترک سیکولر صوفی ازم کا یہ خاص زاویہ پڑھنا چاہیے۔