اس خبر کا مطلب کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنزنے ایک دوسرے سے فون پر بات کی ہے اور یہ طے پایا ہے کہ دونوں ممالک کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر اس معاہدے کا احترام کریں گے جو انہوں نے 2003ء میں کر رکھا ہے۔ اس کے تحت لائن آف کنٹرول پر ایک طرح کی جنگ بندی ہے۔ تاہم اس معاہدے پر 2014ء سے عمل نہیں ہو رہا۔ روز خبریں آتی ہیں کہ لائن آف کنٹرول پر گولہ باری سے دونوں طرف جانوں اور املاک کا نقصان ہو رہا ہے۔ پاکستان کے لئے مشکل یہ ہے کہ بھارت تو ہمارے علاقے میں گولہ باری کر کے شہریوں کو نقصان پہنچاتا رہتا ہے‘ مگر پاکستان ایسا کرنے سے گریز کرتا ہے کہ اس عارضی سرحد کے اس پار بھی ہم ہی بستے ہیں کوئی غیر نہیں۔ کشمیری بھارتی مقبوضہ علاقے میں ہو یا ہماری آزاد فضائوںمیں ،وہ ہمارے خون کا حصہ ہیں۔2014ء سے اس معاہدے کی خلاف ورزی کا مطلب تھا کہ جب سے مودی برسراقتدار آیا ہے اس نے اس علاقے میں قیامت ڈھا رکھی ہے اور اب تو ہمارے خارجہ امور کے کرتا دھرتا بھی سمجھ چکے ہیں کہ مودی کے ہوتے ہوئے یہاں امن کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس عرصے میں بہت کچھ ہوا۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے اپنے اندر ضم کر لیا۔اپنے آئین کی شق نمبر 370کے تحت اس نے کشمیر کو جو خصوصی حیثیت دے رکھی تھی وہ تمام ہوئی۔ اب کشمیر بھارت کی دوسری ریاستوں (صوبوں) کی طرح ایک ریاست یا صوبہ تھا بلکہ لداخ کو تو براہ راست مرکز کے کنٹرول میں لے لیا۔ یہ کشمیر کی صورت حال بدلنے کے لئے بہت بڑی تبدیلی تھی۔پاکستان نے اس پر بجا طور پر احتجاج کیا۔ اپنا سفیر واپس بلا لیا یعنی سفارتی تعلقات کو کم تر سطح پر لے آیا تھا۔تجارتی تعلقات ختم کر دیے گئے اور عالمی سطح پر بھی ہم سرگرم ہو گئے‘ بلکہ کشمیر میں تو انہوں نے سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ کیا اور ہم نے ان کے دو طیارے مار گرائے اور پائلٹ بھی حراست میں لے لیا۔ اس دوران طرح طرح کی خبریں آتی رہیں۔ یہ کہ پاکستان کی موجودہ حکومت نے کشمیر کا سودا کر دیا ہے گویا اسے بیچ ڈالا ہے اور اپنی روایتی پالیسی سے ہٹ گیا ہے۔ ایک پروپیگنڈہ تھا جو جاری تھا ایسے میں یہ خبریں بھی آئیں کہ چھپ چھپا کر تجارت بھی کر رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اب یہ خبر آنے کے بعد اس بات کا امکان تھا کہ یہ پروپیگنڈہ شروع ہو جاتا‘ لو دیکھا ہم نے بھارت کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ جبکہ فوج کے ترجمان نے اسے معمول کا معاملہ قرار دیا ۔ ہو سکتا ہے یہ بات بھی کہی جاتی کہ ایسا نہیں ہے بلکہ بھارت اپنی اندرونی شور شوں کی وجہ سے کمزور پڑ نے لگاہے اس لئے اس نے پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے ہی میں عافیت سمجھی ہے یا یہ کہ لائن آف کنٹرول پر باڑ لگ جانے سے یہ سب بھارت کو قریبی علاقوں کو خالی کرانا پڑا ہے۔ پاکستان نے اس کا فائدہ اٹھایا ہے کہ اب اس طرف مسلمان یاکشمیری آبادی نہیں ہے اس لئے جارحانہ رویہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ تاہم میں اس خبر کو چند دوسرے حوالوں سے بھی دیکھتا ہوں۔ لداخ کے اس پار چینیوں نے بھارتیوں کی پٹائی کر ڈالی تھی۔ اب وہاں صلح ہو گئی ہے۔ دونوں افواج پیچھے ہٹ گئی ہیں۔ ہمارا وطیرہ بن گیا ہے کہ چینیوں کی طرف بھارتیوں کی ہزیمت پر ہم جشن مناتے ہیں کہ دیکھا ہمارے یار ہمارے دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیے ،یہ نہیں سوچتے اس معاملے کو دیکھنے کے اور ذریعے بھی ہیں۔ چین وہاں ہماری جنگ نہیں لڑ رہا اس کے اپنے مفادات ہیں۔ ایک دوسری بات بھی ہے جس پر ہمیں غور کرنا چاہیے۔ بھارت امریکہ کے آلہ کار کے طور پر چین کے سامنے اکڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ گزشتہ دنوں ٹرمپ کے دورہ میں مودی کو امریکہ کو خوش کرنے کی پالیسی بہت راس آ رہی تھی۔ اب شاید امریکہ کی پالیسی بدل رہی ہے، دونوں ممالک کے صدور کے درمیان رابطے بھی ہوئے ہیں۔ یہ نہیں کہ دوبارہ گاڑھی چھننے لگے گی‘ مگر اتنا ضرور ہے کہ معاملات قدرے معمول پر آ جائیں گے۔ ایسی صورت میں شاید امریکہ کو یہ ضرورت نہ رہے کہ وہ بھارت کو پراکسی بنا کر چین کے مقابلے میں خم ٹھوک کر کھڑا ہونے کے لئے کہے۔کہیں یہ سب اس تبدیلی کے اثرات تو نہیں ہیں اور ہمارے ساتھ بھی اب امریکہ نہیں چاہے گا کہ ہماری سرحدوں پر کشیدگی رہے۔ دیکھا نہیں کہ وائٹ ہائوس کے ترجمان نے کس خضوع و خشوع سے اس پاک بھارت معاہدے کو خوش آمدید کہا ہے۔ جوبائیڈن اس خطے میں ایسی کئی تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں جن کا براہ راست اثر ہم پر پڑ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر مشرق وسطیٰ ‘ افغانستان اور ایران تینوں خطوں کے بارے میں جوبائیڈن انتظامیہ اس طرح نہیں سوچتی جس طرح ٹرمپ کا مودی ازم سوچا کرتا تھا۔ مودی اور ٹرمپ دونوں ایک دوسرے کا تتمہ تھے۔ اس لئے جانے اندرون خانہ تعاون کی کتنی تہیں تھیں۔جوبائیڈن نے اب فیصلہ کیا ہے کہ وہ سعودی عرب کو حوثی قبائل سے برسر پیکار رہنے سے گریز کرنے کا کہے گا۔ شاید نئی امریکہ کی انتظامیہ کے خیال میں یہ سب کچھ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ ٹرمپ اس معاملے میں شہہ دیتا رہتا تھا حتیٰ کہ ترکی میں سعودی سفارت خانے میں ایک صحافی کے ظالمانہ قتل کو بھی یہ کہہ کر نظر انداز کیا گیا کہ ہم نے تو اپنا اسلحہ بیچنا ہے۔ لگتا ہے جوبائیڈن اور نئی انتظامیہ اس رویے سے خوش نہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب امریکہ کے شایان شان نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ انہوں نے طے کیا ہے کہ وہ شہزادہ محمد بن سلمان کے بجائے براہ راست شاہ سلمان سے رابطے میں رہیں گے۔ مشرق وسطیٰ کے معاملے میں یہ بہت بڑے شفٹ کی علامت ہے۔ ادھر ایران کے ساتھ بھی امریکہ اپنا رویہ بدلنا چاہتا ہے۔ ایران سے جوہری پروگرام روکنے کا معاہدہ صدر اوباما نے کیا تھا جس میں جوبائیڈن نائب صدر تھے۔ اب یقینا بات آگے بڑھ گئی ہے مگر امریکہ ایران سے معاملات طے کرنے کے بارے میں ضرور مثبت انداز میں سوچے گا۔ پوری مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسی میں آہستہ آہستہ ایک تبدیلی کی توقع ہے۔ جس نہج پر برسوں سے امریکہ کے سعودی عرب‘ اسرائیل یا ایران سے تعلقات چلتے آئے ہیں۔ اس میں کئی امریکی حکومتوں کا ایک تسلسل ہے۔ امریکہ کے تھنک ٹینک سوچ سمجھ کر ایک پالیسی بناتے رہے ہیں۔ ٹرمپ نے وہ ساری پالیسی بدل دی تھی۔ اب شاید اسے دوبارہ پرانی نہج پر لانا مقصود ہے۔ ایسا ہی افغانستان کے بارے میں ہے۔ جوبائیڈن کی انتظامیہ بھی افغانستان میں امن چاہتی ہے مگر وہ اب تک پیش رفت سے مطمئن نہیں ہے۔ ہم نے کہہ دیا ہے کہ طالبان کے حوالے سے ہم جواز استعمال کر سکتے تھے وہ کر چکے ہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ہاتھ اٹھا چکے ہیں۔ ہم ابھی آنے والے دنوں میں بھی یہاں بامعنی اور موثر کردار ادا کرتے رہیں گے۔ ایسی صورت میں جب چین‘ مشرق وسطیٰ ایران اور افغانستان میں امریکہ کی پالیسیوں میں ایک طرح کا توازن آ رہا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے بھارت کے ساتھ ہماری پالیسیوں میں ماضی کا سا معاملہ رہے۔کشمیر کے حوالے سے ہمیں یقین کر لینا چاہیے کہ بہت کچھ بدل رہا ہے۔ہمارے لئے ایک نئی پیش رفت کرنے کے امکانات میں دیکھنا صرف یہ ہے کہ ہم ان امکانات کو اپنے اور کشمیر کے مفاد میں استعمال کرتے ہیں یا خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔