شام فراق یار نے ہم کو اداس کر دیا ہجر نے اپنے عشق کو حسرت و یاس کر دیا ناصر کاظمی نے گھر کی دیواروں پر اداسی کو بال کھول کر سوئے ہوئے دیکھا تھا مگر ہم نے تو پورے شہر کو اداسی اوڑھے ہوئے دیکھا ہے۔وبا کے دنوں کی اداسی میں ایک کرب بھی ہے اور اس سے بھی زیادہ تشویش ناک اور دکھ کی بات یہ ہے کہ ہم اپنے ذمہ دار حکمرانوں کے فیصلوں کے باعث دوراہے پر آن کھڑے ہوئے۔ مگر اس سے بھی پہلے مجھے بات کرنا ہے ایک سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیو کے حوالے سے جس نے مجھے بہت تکلیف پہنچائی کہ ہم کس قدر کمینگی پر اتر آتے ہیں کہ انسان کہلوانے کے ہرگز حقدار نہیں یہ ویڈیو میں نے شئر بھی کی۔ایک اچھا خاصا سوبر دکھائی دینے والا شخص جس نے کلف والے سفید کپڑے پہن رکھے تھے ایک گاڑی میں تھا۔ ڈرائیور نے پولیس کے سپاہی کے اشارے پر گاڑی روکی پولیس نے بس شناختی کارڈ طلب کیا۔ بس کچھ نہ پوچھیے وہ بظاہر مہذب اور پڑھا لکھا نظر آنے والا شخص تو تڑاخ سے بولا کہ تم ہوتے کون ہو مجھ سے شناختی کارڈ مانگنے والے یہ میرا شہر ہے۔ وہ بے مقصد ہی اشتعال میں آتا گیا۔پولیس کے سپاہی نے بہت احترام سے کہا سر میں نے تو شناختی کارڈ مانگا ہے۔ وہ شخص اور گرم ہو گیا تم ہوتے کون ہو، کہاں ہے تمہارا افسر اس کے ساتھ ہی اس نے مغلظات بکنا شروع کر دیں جو ہرگز بھی لکھی نہیں جا سکتیں۔ سپاہی کی حیرت اپنی جگہ دیکھنا والی تھی۔کوئی بھی نہیں مان سکتا کہ ایسی بے ہودگی بھی کوئی صرف کارڈ مانگنے پر کر سکتا ہے۔ اس کے بعد وہ شخص موبائل پر فون ملاتے ہوئے کبھی ادھر جائے اور کبھی ادھر ایک تماشہ لگ گیا یقین مانیے یوں لگتا تھا جیسے کسی چوہے کی دم پر کسی کا پائوں آ جائے۔ میں غصے کے باوجود ہنستے ہوئے خود سے کہنے لگا یار اتنا تو مرزا غالب نے بھی تعارف مانگنے پر غصہ نہیں کیا تھا بس کہہ دیا: پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا مزے کی بات یہ کہ اس نے کہا تم اگر شہر میں مجھے بھی نہیں جانتے تو پھر کس کو جانتے ہو۔ اس نے بتایا کہ وہ دو مرتبہ پتہ نہیں کیا بلا رہ چکا ہے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آیا۔ میرا تو حکومت سے مطالبہ ہے اور آئی جی سے کہ جنہیں اس نے غائبانہ گالیاں بھی دیں کہ اسے پہچان کر پکڑا جائے اور اگر وہ ذہنی مریض ہے تو اس کا علاج کروایا جائے۔اگر اس کے پاس شناختی کارڈ نہیں تو اسے بنوا کر دے دیا جائے یہ ویڈیو وائرل ہو چکی ہو گی اور اس نے بدتمیزی کی ساری ویڈیوز کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ہاں یاد آیا کہ پولیس والے نے ایک اور فقرہ کہا سر آپ کی حفاظت کے لئے ہی تو ہم چیک کرتے ہیں۔ اس شخص نے کہا بکواس کرتے ہو آپ اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لئے کھڑے ہوتے ہو یعنی ناکے لگاتے ہو۔ اب بات پر میں سوچتا رہا۔ دل نے کہا کہ کاش واقعتاً پولیس اپنی موجودگی کا احساس دلا دے۔ اگر واقعتاً پولیس نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہوتا تو اس شخص کو یہ جرات نہ ہوتی کہ ایسے آپے سے باہر ہو جانا ہے۔طاقتور کو پتہ ہے کہ پولیس صرف کمزوروں اور بے بسوں کے لئے ہے۔وہ بھی انہیں جرائم سے روکنے کے لئے نہیں ان سے جرمانہ لینے کے لئے یا ان کے جرائم میں سہولت مہیا کرنے کے لئے۔ کبھی کبھی ان پولیس والوں پر ترس بھی آتا ہے کہ ان کی پہچان ہی کچھ اس طرح کی بن گئی ہے اور وہ کرتے بھی وہی کچھ ہیں۔ دلدار پرویز بھٹی یاد آتے ہیں کہ ناکے پر کسی نے کہا کہ منہ سنگھائو۔دلدار نے کہا پہلے تم تو اپنا منہ سنگھائو۔بات ختم ہو گئی۔اصل بات ہے قانون کی پاسداری۔ کتنی مثالیں ہیں کہ صاحب حیثیت نے سرعام کسی کو قتل کر دیا تو کچھ بھی نہ بنا۔ وہ وکٹری کے نشان بناتے ہوئے عدالتوں میں جاتا رہا اور پھر آخر رہا ہو گیا۔ ایان علی کو کون بھولے گا کہ جسے ہیروئن بنا دیا گیا اور اسے پکڑنے والے پراسرار موت کا شکار ہو گیا ن لیگ کے دور میں ایک ایم پی اے کی بات نہ مانی تو پولیس افسر کو صوبہ بدر کر دیا گیا۔ بے شمار مثالیں ہیں پولیس مقابلوں سے لے کر چھاپوں تک کتنے قاتل ان سیاستدانوں نے بنائے اور پھر پولیس مقابلوں میں مروائے۔ کاش پولیس سچ مچ ایک ادارہ ہوتا انہیں بے شمار سہولتیں دی جاتیں اور انہیں اعتماد دیا جاتا۔ ان کو پروٹیکشن ملتی۔پولیس ٹھان لے تو مجرم کہاں ٹھہرتا ہے ایک ذوالفقار چیمہ تھا۔ کسے بھول سکتا ہے۔ایسے چار پانچ لوگ ہی ہوں تو تبدیلی نظر آنے لگتی ہے۔ باقی رہی بات ہماری۔ اس میں میں نے ہمیں کہیں کا نہیں رہنے دیا۔ پطرس بخاری بتاتے تھے کہ اسمبلی کی طرف سے کوئی ملازم آیا تو پطرس کا کام کر رہے تھے۔ آپ نے آنے والے سے کہا بیٹھو کرسی لے لو۔ اس نے کہا جناب میں اسمبلی سے آیا ہوں۔ پطرس صاحب نے کہا پھر آپ دو کرسیاں لے لیں اور بیٹھ جائیں۔ خاص طور پر جہاں چیکنگ وغیرہ کا معاملہ ہو تو ہمیں پولیس کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے آپ کوئی بھی ہیں ہر کسی پر فرض واجب تو نہیں کہ وہ آپ کو جانتا بھی ہو۔ آپ مہذب انداز میں اپنا تعارف کروا دیں۔ آپ کی شان میں کیا کمی آ جائے گی۔ جب آپ کسی کو یہ دھمکی دیتے ہیں کہ توں مینوں جاندا نئیں تو پہلے ہی آپ اپنی خود بے عزتی کر رہے ہوتے ہیں۔شناختی کارڈ کی کاپی جیب میں رکھنے سے کیا ہو جائے گا۔ اگر آپ آفیسر بھی ہیں تو اہلکار کو اس کی ذمہ داری پر شاباش دیں۔یہی لوگ جو یہاں طرم خاں بنتے ہیں دوسرے ملکوں میں جا کر تیر کی طرح سیدھے ہو جاتے ہیں۔ آپ بیلٹ کے بغیر فرسٹ سیٹ پر نہیں بیٹھ سکتے۔ اگر ہمارے ہاں بھی قانون کا پاس ہونے لگے تو زندگی آسان بن جائے۔ موجودہ صورت حال میں ہی ہمارے رویوں کا پتہ چلتا ہے کہ ہم کورونا جیسی وبا کو بھی درخور اعتنا نہیں سمجھ رہے حالانکہ ہمیں اپنی ساری فضول مصروفیات آنے جانے کی ترک ک دینی چاہئیں۔ہر کسی کو ماسک پہننا چاہیے یہاں ایک کپڑا خریدنا ہو عورتوں کے غول نکلتے ہیں ساتھ بچے ہوتے ہیں کئی دکانیں گھوم کر ایک آدھ چیز پسند کی جاتی ہے۔نان روٹی بھی ہم نے لائن میں نہیں بلکہ ہجوم بنا کر خریدنی ہے۔ ایک دو ماہ اپنی روٹین کو بدلنا چاہیے۔واقعتاً ہم لاک ڈائون کی نرمی کو سمجھے کہ کورونا کے خاتمے کا اعلان ہو گیا ہماری بے اعتدالیوں سے وبا زیادہ اثر انداز ہو رہی ہے۔ڈاکٹرز درست دہائی دے رہے ہیں کہ ہم عوام کو اس وبا سے بچانے میں لگے ہیں جبکہ عوام ہمیں مارنے کے چکر میں ہے۔حکومت کے لئے بھی دبائو ناقابل برداشت ہو جائے گا: ایسا نہ ہو کہ درد بنے درد لادوا ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو بہرحال کالم کی آخری لائن یہ کہہ کر پولیس نے شناختی کارڈ ہی تو مانگا تھا اور پڑھے لکھے اور مہذب نظر آنے والے نے اپنی شناخت کروا دی۔