15اور 16 ستمبر کو ازبکستان کے شہر سمرقند میں منعقد ہو نے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اِجلاس میں ماحولیاتی تبدیلی سمیت عالمی سیاست کے اہم موضوعات اور رکن ملکوں کو درپیش چیلینجز پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔ SCO کی کونسل آف ہیڈز آف اسٹیٹ کا 2019ء کے بعد یہ پہلا باالمشافہ اِجلاس ہے، جس میں رکن ملکوں کے سربراہان نے شرکت کی ہے۔ اِس سربراہی اِجلاس کی اہمیت اِس وجہ سے بھی بڑھ گئی کہ یہ اِجلاس روس اور یوکرائن کے مابین جاری جنگ اور امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پس منظر میں منعقد ہوا ہے۔ روس اور چین دونوں اس فورم کے رکن ہیں اور عالمی سیاست کے بدلتے ہوئے جیو پولیٹیکل اور جیو اکنامک تقاضوں کی وجہ سے دونوں ملکوں کے مابین قربتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم سے پہلے "شنگھائی فائیو" کے نام سے اِیک تنظیم وجود رکھتی تھی، جس میں روس، چین، قازقستان،کرغیزستان اور تاجکستان شامل تھے، جس میں تین سابق سوویت ریاستیں، چین کے ساتھ ایک طویل سرحد مشترک رکھتی ہیں۔ شنگھائی فائیو کا مقصد اس سرحد کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے وسطی ایشیائی میں امریکی مداخلت کو روکنے کے لیے چین روس مشترکہ دلچسپی کو بڑھانا تھا۔ ماسکو اور بیجنگ افغانستان میں بھی اَمریکی فوجی موجودگی اور وَسطی اِیشیاء پر اس کے ممکنہ اَثرات سے نا خوش تھے۔ اگرچہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد سے ماسکو اور بیجنگ دونوں مطمئن ہیں مگر افغانستان کے پڑوسی ہونے کے ناطے تمام رکن ممالک کی عمومی اور چین اور روس پر خصوصی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ افغانستان میں اِستحکام اور پائیدار امن کے قیام اور افغان عوام کو درپیش انسانی اور معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اپنا خصوصی کردار ادا کریں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن (ایس سی او) نیو یارک اور واشنگٹن پر 9/11 کے حملوں سے چند ہفتوں پہلے قائم کی گئی تھی، یوروشین کے وسیع خطے میں سلامتی کو یقینی بنانے اور اِستحکام کو برقرار رکھنے کے لیے کثیرالجہتی ایسوسی ایشن کے طور پر تجارت ، نیز ثقافتی اور انسانی ہمدردی میں تعاون اِس کے بنیادی مقاصد ہیں۔ اِس کے بانی رہنما مشرق کی دو بڑی طاقتیں ہیں یعنی روس اور چین جبکہ دیگر ابتدائی ارکان ازبکستان، تاجکستان، کرغیزستان اور قازقستان، اَفغانستان کے شمال اور شمال مشرق میں تھے۔ 8-9 جون 2017 کو قازقستان کے شہر آستانہ میں ایس سی او کے رکن ممالک کے تاریخی سربراہی اجلاس کے موقع پر، پاکستان اور بھارت کو مکمل رکنیت دی گئی تھی جبکہ اِیران کو 17 ستمبر 2021 کو مکمل رکنیت دی گئی ہے اور اِس اِجلاس کی ایک اور خاص بات یہ بھی ہے کہ اِیران کے صدر اِبراہیم رئیسی نے پہلی مرتبہ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اِجلاس میں شرکت کی ہے۔ اِیران کو امریکہ کی طرف سے عائد کردہ متعدد پابندیوں کا سامنا ہے جبکہ ایران اور اَمریکہ کے مابین جوہری معاہدہ کی اَزسرِ نو بحالی پر فی الحال اِتفاق نہیں ہورہا ہے۔ بیلاروس اور منگولیا کے ساتھ ساتھ اَفغانستان بھی اِس تنظیم کا مبصر ہے۔ اِس تناظر میں اَفغانستان کی مخدوش صورتحال شنگھائی تعاون تنظیم کے لیے ایک بہت بڑا چیلینج ہے کیونکہ افغانستان میں جاری بحران کو ختم کرنے کے لیے علاقائی تعاون وقت کا اہم تقاضا ہے جس کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم کا افغانستان میں زیادہ فعال ہونا ضروری ہے۔ اَیس سی او کے لیے یہ اہم موقع ہے کہ علاقائی تعاون کے اپنے خواب کو تعبیر دے اور اَفغانستان میں اِستحکام لانے میں اَپنا فعال کردار ادا کرے جو مغربی ایشیا اور وسطی ایشیا سمیت سب کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک مختلف توقعات رکھتے ہیں اور اِس سلسلے میں شنگھائی تعاون تنظیم کو کئی رکاوٹوں اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے وسطی اِیشیائی اَراکین کے آپس میں جھگڑے ہیں۔ انہوں نے اَپنے مشترکہ علاقائی سلامتی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اجتماعی انداز اپنانے کی جدوجہد بھی کی ہے۔ تاہم ماضی میں طالبان کے متعلق ان کے مؤقف اِیک دوسرے سے مختلف رہے ہیں۔ اِسی طرح 2015 سے کوشش کرنے کے باوجود اَفغانستان SCO کی مکمل رکنیت حاصل نہیں کرسکا۔ اَفغانستان کی مخدوش صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے پاکستان کے وزیرِاعظم شہباز شریف کا شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان پر یہ زور دینا برمحل ہے کہ افغانستان کے پڑوسی ہونے کے ناطے تمام رکن ممالک کی ذمہ داری ہے کہ اَفغانستان میں دہشت گردی کے مکمل خاتمے اور پائیدار امن کے قیام کو یقینی بنانے امریکہ کی طرف سے منجمند کیے گئے افغانستان کے اثاثوں کی فورا بحالی کے لیے اپنا مؤثر کردار ادا کریں۔ جہاں تک شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے باہمی جھگڑوں کا تعلق ہے تو چین اور بھارت آپس کے سرحدی تنازعات میں گھرے ہوئے ہیں جبکہ پاکستان اور بھارت کے مابین بھی کشمیر سمیت بنیادی تنازعات ہیں جن کی وجہ سے پچھتر سال گزرنے کے باوجود دونوں ہمسایہ ملکوں کے مابین خوشگوار تعلقات کا قیام ممکن نہیں ہوسکا ۔ اگرچہ روس اور چین ایشیا میں امریکہ کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کی روک تھام کے لیے اِکٹھے ہوگئے ہیں۔ چینی صدر ڑی اور روسی صدر پوٹن کی آخری بار سرمائی اولمپکس کے آغاز پر باالمشافہ ملاقات ہوئی تھی، جب انہوں نے مغرب کے خلاف مزید تعاون کرنے کے وعدے کے ساتھ یوکرائن اور تائیوان کے تنازعات پر ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہوئے، "کوئی حد نہیں" والی شراکت داری کا اعلان کیا تھا۔ تاہم یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ روس سنٹرل ایشیاء میں چین کے کردار کو کس حد تک قبول کرتا ہے کیونکہ روس اپنے آپ کو سابق سوویت یونین کے علاقوں کے واحد محافظ کے طور پر دیکھتا ہے اور قیاس یہی ہے کہ چین کے ساتھ اس کردار کو بانٹنے کے لیے تیار ہونا مشکل ہوگا البتہ یوکرائن کے ساتھ جاری جنگ کی وجہ سے اور خصوصی طور پر اگر روس کی یوکرائن کے ساتھ جنگ طول پکڑتی ہے تو اس بات کے قوی اِمکانات ہیں کہ روس چین کے کردار کو قبول کرسکتا ہے۔ مزید برآں شنگھائی تعاون تنظیم کے ارکان کے لیے روسی صدر پیوٹن کے یوکرائن کے متعلق پالیسی کی من وعن حمایت کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اَگرچہ SCO کے بینر تلے فوجی اعتماد سازی کے اَقدامات میں اِضافہ ہوا ہے مگر شنگھائی تعاون تنظیم کے لیے سب سے اہم چیلنج افغانستان میں پائیدار امن اور سیاسی استحکام کا قیام شامل ہے۔ اگر شنگھائی تعاون کی تنظیم افغانستان کا بحران بروقت اور کامیابی سے حل نہیں کرسکتی تو امریکہ کی قیادت میں قائم علاقائی تعاون کی تنظیموں کا متبادل کیسے ہوسکتی ہے۔